ایک ہفتے کے وقفے کے بعد تارکین وطن کو یونان سے ملک بدر کر کے ترکی بھیجنے کا عمل دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔ آج 150 غیر قانونی تارکین وطن کو یونان سے ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پہلی کشتی میں 45 پاکستانیوں کو ملک بدر کیا گیا۔
اشتہار
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی یونانی دارالحکومت ایتھنز سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق غیر قانونی طور پر ترکی سے یونان پہنچنے والے 150 غیر ملکیوں کو آج واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔
رپورٹوں کے آج اٹھارہ اپریل بروز پیر پینتالیس پاکستانی شہریوں کو ترکی واپس بھیجنے کی غرض سے یونانی جزیرے لیسبوس کے شہر میتےلینی لایا گیا، جہاں سے انہیں ایک کشتی میں سوار کرا کے ترکی کے ساحلی شہر دیکیلی بھیج دیا گیا۔
اس دوران انسانی حقوق کے لیے سرگرم اور مہاجر دوست تنظیموں کی جانب سے جبری ملک بدریوں کے خلاف احتجاج بھی کیا گیا۔ ڈی پی اے نے یونانی ریڈیو ایتھینا 984 کے حوالے سے لکھا ہے کہ انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں نے ملک بدریوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ملک بدری کے لیے استعمال ہونے والی کشتیوں کو روکنے کی کوشش بھی کی۔
برسلز اور انقرہ کے مابین پناہ گزینوں کی واپسی کے معاہدے کو اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی کئی تنظیموں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
یورپ میں بہتر زندگی کا ادھورا خواب، ملک بدر ہوتے پاکستانی
02:33
ترکی اور یورپی یونین کے مابین پناہ گزینوں کی واپسی کا یہ متنازعہ معاہدہ گزشتہ مہینے طے پایا تھا۔ معاہدے کے مطابق بیس مارچ کے بعد غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تمام تارکین وطن کو ملک بدر کیا جا رہا ہے۔ ترکی واپس بھیجے گئے پناہ گزینوں کی اکثریت کا تعلق پاکستان سے ہے۔
جرمن جریدے ’ڈیئر اشپیگل‘ کے مطابق اس معاہدے کے بعد اب تک جن 326 تارکین وطن کو واپس ترکی بھیجا جا چکا ہے ان میں سے 241 کا تعلق پاکستان سے جب کہ صرف 42 کا تعلق افغانستان سے تھا۔
معاہدے کے مطابق یونان سے واپس ترکی بھیجے گئے ہر شامی مہاجر کے بدلے ترک کیمپوں میں مقیم کسی ایک شامی باشندے کو یورپ میں قانونی طور پر پناہ دی جائے گی۔ اشپیگل کے مطابق بیس مارچ سے بارہ اپریل کے درمیان 79 شامی شہریوں کو جرمنی سمیت مختلف یورپی ممالک منتقل کیا جا چکا ہے۔
اس دوران ترکی سے یونانی جزیروں تک پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد تقریباﹰ ساڑھے چھ ہزار کے قریب رہی۔
یونانی جزیرے لیسبوس پر موجود پاکستانی تارکین وطن کسی صورت واپس ترکی نہیں جانا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی محفوظ ملک نہیں ہے اور انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح یورپ میں پناہ دی جائے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ماں کا زیور بیچ کر آیا ہوں‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
یونان بھی پناہ نہیں دے رہا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو تارکین وطن یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں نہیں دے رہے، انہیں واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت نے یونان میں پناہ کی درخواست اس لیے بھی نہیں دیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مسترد کر دی جائیں گی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’یورپی یونین ترکی کو پیسے نہ دے‘
لیسبوس میں موجود یورپ میں پناہ کے خواہش مند ان پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی یورپ سے پیسے لے کر مہاجرین کو واپس ترکی آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انہیں نے الزام عائد کیا کہ ترکی اپنے ہاں پناہ گزینوں کو کوئی سہولیات نہیں دیتا اور وہاں انہیں پہلے بھی کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
صرف شامی مہاجرین ہی پناہ کے مستحق؟
یورپ میں زیادہ تر صرف خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے شامی مہاجرین ہی کو پناہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
خیمے عارضی، سفر مسلسل
لیسبوس کے جزیرے پر سمندر کے کنارے عارضی خیموں میں شب و روز گزارنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یورپ اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد انہیں بھی واپس ترکی جانا پڑے گا لیکن انہیں پھر بھی امید ہے کہ وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سفر بےسود
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے بحفاظت یونان پہنچ جانے والے یہ تارکین وطن دراصل خوش قسمت ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اب تک ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
کھانے کے لیے قطار
لیسبوس نامی اس یونانی جزیرے پر موجود ان تارکین وطن کو کافی کھانا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کھانے کے حصول کے لیے انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’خواب ایسا تو نہیں تھا‘
اچھے مستقبل کی خواہش دل میں لیے اور خطرناک راستے عبور کر کے یونان پہنچنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کو اپنے شب و روز ایسی خستہ حالی میں گزارنا پڑ رہے ہیں کہ وہ ان حالات کو اپنے مستقبل کے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ہمیں بھی پناہ دو!‘
پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’مر جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے اور اب وہاں سے ملک بدری کے تقریباﹰ یقینی خطرے کا سامنا کرنے والے ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی واپسی کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس موقف کے ساتھ اب وہ احتجاجی مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
جب پریشانی بےحال کردے
ان تارکین وطن کو ان کے احتجاج کے باوجود ابھی تک یہی ’ناپسندیدہ امکان‘ دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی رائے میں ترکی خود بھی کوئی ’محفوظ ملک‘ نہیں ہے۔