جرمنی بدر کیے گئے افغان مہاجرین کا ایک اور گروپ کابل پہنچ گیا ہے۔ کووڈ انیس کی عالمی وبا کی وجہ سے ایسے افراد کی ملک بدری کا عمل سست پڑ گیا تھا، جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
اشتہار
افغانستان میں 'مہاجرین اور وطن واپسی‘ کی وزارت نے بتایا ہے کہ بدھ کے دن مزید چھبیس مہاجرین کا ایک گروپ جرمنی سے کابل پہنچ گیا ہے۔ اس وزارت کے ایک اہلکار نے خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا کہ ایک چارٹر طیارہ ان افغان مہاجرین کو لیے عالمی وقت کے مطابق صبح چھ بجکر پینتیس منٹ پر کابل کے ایک ہوائی اڈے پہنچا۔
سن دو ہزار سولہ کے بعد سے جرمنی سے واپس افغانستان روانہ کیے جانے والے ایسے مہاجرین کا یہ چھتیسواں گروپ تھا، جن کی پناہ کی درخواستیں رد ہو جانے کے بعد انہیں واپس وطن روانہ کیا گیا۔
یوں اب تک جرمنی پہنچنے والے پناہ کے متلاشی مجموعی طور پر نو سو نواسی افغان مہاجرین کو ملک بدر کیا جا چکا ہے۔
جرمنی میں ملازمتیں، کس ملک کے تارکین وطن سر فہرست رہے؟
سن 2015 سے اب تک جرمنی آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن میں سے اب ہر چوتھا شخص برسرروزگار ہے۔ پکچر گیلری میں دیکھیے کہ کس ملک کے شہری روزگار کے حصول میں نمایاں رہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
شامی مہاجرین
گزشتہ تین برسوں کے دوران پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے شامی مہاجرین کی تعداد سوا پانچ لاکھ سے زائد رہی۔ شامیوں کو جرمنی میں بطور مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دیے جانے کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔ تاہم جرمنی میں روزگار کے حصول میں اب تک صرف بیس فیصد شامی شہری ہی کامیاب رہے ہیں۔
تصویر: Delchad Heji
افغان مہاجرین
سن 2015 کے بعد سے اب تک جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرانے والے افغان باشندوں کی تعداد ایک لاکھ نوے ہزار بنتی ہے۔ اب تک ہر چوتھا افغان تارک وطن جرمنی میں ملازمت حاصل کر چکا ہے۔
تصویر: DW/M. Hassani
اریٹرین تارکین وطن
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے چھپن ہزار سے زائد مہاجرین اس دوران جرمنی آئے، جن میں سے اب پچیس فیصد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: Imago/Rainer Weisflog
عراقی مہاجرین
اسی عرصے میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد عراقی بھی جرمنی آئے اور ان کی درخواستیں منظور کیے جانے کی شرح بھی شامی مہاجرین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ تاہم اب تک ایک چوتھائی عراقی تارکین وطن جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر پائے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
صومالیہ کے مہاجرین
افریقی ملک صومالیہ کے قریب سترہ ہزار باشندوں نے اس دورانیے میں جرمن حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ اب تک صومالیہ سے تعلق رکھنے والے پچیس فیصد تارکین وطن جرمنی میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
ایرانی تارکین وطن
ان تین برسوں میں قریب چالیس ہزار ایرانی شہری بھی بطور پناہ گزین جرمنی آئے۔ جرمنی کے وفاقی دفتر روزگار کی رپورٹ کے مطابق اب تک ان ایرانی شہریوں میں سے قریب ایک تہائی جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
نائجیرین تارکین وطن
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کو بھی جرمنی میں روزگار ملنے کی شرح نمایاں رہی۔ جرمنی میں پناہ گزین پچیس ہزار نائجیرین باشندوں میں سے تینتیس فیصد افراد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: DW/A. Peltner
پاکستانی تارکین وطن
جرمنی میں ملازمتوں کے حصول میں پاکستانی تارکین وطن سر فہرست رہے۔ سن 2015 کے بعد سیاسی پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے قریب بتیس ہزار پاکستانی شہریوں میں سے چالیس فیصد افراد مختلف شعبوں میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Reinders
8 تصاویر1 | 8
جرمنی سے اس طرح وطن واپس روانہ کیے جانے کا یہ عمل انتہائی متنازعہ قرار دیا جاتا ہے کیونکہ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں سکیورٹی کی صورتحال بہتر نہیں ہے اور ان افراد کے وطن واپس پہنچنے سے ان کی جان کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
امریکا اور طالبان کے مابین دوحہ امن ڈیل کے باوجود طالبان نے اپنے حملوں میں کمی نہیں کی ہے جبکہ امریکی انتظامیہ میں تبدیلی کے بعد اس امن معاہدے پر بھی سوالیہ نشانات ابھر چکے ہیں۔ ساتھ ہی افغانستان میں دہشت گرد تنظیم ‘اسلامک اسٹیٹ‘ بھی فعال ہے، جو گاہے بگاہے شہریوں کو حملوں کو نشانہ بناتی رہتی ہے۔
دوسری طرف طالبان اور کابل حکومت کے مابین امن مذاکراتی عمل بھی تعطل کا شکار ہے۔ دوحہ امن ڈیل کے تحت افغانستان سے امریکی افواج کی ایک بڑی تعداد کے انخلا کے بعد اس وسطی ایشیائی ملک میں فعال شدت پسند گروہ اپنے حملوں میں مزید تیزی لا سکتے ہیں۔
گزشتہ نو دنوں کے دوران دارالحکومت کابل میں سولہ بم حملے کیے گئے، جن کی وجہ سے پورا کا پورا شہر متاثر ہوا ہے۔ یہ حملے اس مقام کے قریب بھی کیے گئے، جہاں افغان مہاجرین کا گروپ ایک خصوصی چارٹر طیارے کے ذریعے پہنچا ہے۔
اسی طرح کورونا کی عالمی وبا کے باعث بھی افغان حکومت کو شدید مسائل کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اس عالمی وبا اور تنازعات کی وجہ سے اس برس اٹھارہ ملین افغان شہریوں کو فوری امداد کی ضرورت ہو گی۔
ع ب / ک م / خبر رساں ادارے
جرمنی: زیر تربیت مہاجرین کا تعلق ان ممالک سے ہے
گزشتہ برس مجموعی طور پر نو ہزار تین سو تارکین وطن کو مختلف جرمن کمپنیوں میں فنی تربیت (آؤس بلڈُنگ) کے حصول کی اجازت ملی۔ زیادہ تر مہاجرین کا تعلق مندرجہ ذیل ممالک سے ہے.
تصویر: D. Kaufmann
۱۔ افغانستان
افغانستان سے تعلق رکھنے والے 3470 مہاجرین اور تارکین وطن مختلف جرمن کمپنوں میں زیر تربیت ہیں۔
تصویر: DW/A. Grunau
۲۔ شام
جرمنی میں شامی مہاجرین تعداد کے حوالے سے پہلے نمبر پر ہیں، لیکن زیر تربیت مہاجرین کی تعداد محض ستائیس سو رہی، جو افغان پناہ گزینوں سے بھی کم ہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
۳۔ عراق
ملک بھر کی مختلف کمپنیوں میں آٹھ سو عراقی مہاجرین تربیت حاصل کر رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
۴۔ اریٹریا
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے سات سو دس تارکین وطن کو فنی تربیت کے حصول کے لیے جرمن کمپنیوں نے قبول کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
۵۔ ایران
جرمنی میں پناہ کے متلاشی ایرانیوں کی تعداد تو زیادہ نہیں ہے لیکن فنی تربیت حاصل کرنے والے ایرانی تارکین وطن تعداد (570) کے اعتبار سے پانچویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
۶۔ پاکستان
چھٹے نمبر پر پاکستانی تارکین وطن آتے ہیں اور گزشتہ برس ساڑھے چار سو پاکستانی شہریوں کو جرمن کمپنیوں میں انٹرنشپ دی گئی۔
تصویر: DW/R. Fuchs
۷۔ صومالیہ
اس حوالے سے ساتواں نمبر صومالیہ کے تارکین وطن کا ہے۔ صومالیہ کے 320 تارکین وطن کو فنی تربیت فراہم کی گئی۔
تصویر: DW/A. Peltner
۸۔ نائجیریا
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے 280 پناہ گزینوں کو گزشتہ برس جرمنی میں فنی تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا۔