مسئلہ آئی ایس آئی کا نہیں بلکہ بی این پی کا ہے، شیخ حسینہ
27 دسمبر 2018
بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کی طرف سے ملکی الیکشن پر اثر انداز ہونے کی مبینہ کوششوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسئلہ آئی ایس آئی کا نہیں بلکہ اپوزیشن پارٹی بی این پی کا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ کے ایک حالیہ انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی خبریں بھی ہیں کہ پاکستانی خفیہ ایجنسی کی طرف سے ملکی اپوزیشن بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) سے مبینہ رابطے کیے گئے ہیں۔ انہوں نے بی این پی پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اسے غیر ملکی عناصر سے رشوت لے کر جمہوری نظام کو سبوتاژ نہیں کرنا چاہیے۔
بھارت کی زی میڈیا ویب سائٹ سے گفتگو میں شیخ حسینہ نے کہا کہ ملکی عوام ان کوششوں کو ناکام بنا دیں گے اور بی این پی کے ان اعمال کی وجہ سے اس کی عوامی مقبولیت گر جائے گی۔ بنگلہ دیش میں الیکشن سے قبل دیے گئے اس انٹرویو میں شیخ حسینہ نے کہا، ’’صرف پاکستان یا آئی ایس آئی پر ہی الزام عائد کیوں کیا جا رہا ہے۔ اگر ہم نے کسی کو مورد الزام ٹھہرانا ہے، تو دراصل وہ بی این پی ہے۔‘‘
اس انٹرویو میں شیخ حسینہ کا ایک سوال کے جواب میں کہنا تھا، ’’بی این پی آئی ایس آئی سے رشوت اور رقوم حاصل کر رہی ہے تاکہ وہ ملکی جمہوری نظام کو تباہ کر سکے۔‘‘ انہوں نے اس حوالے سے مزید کہا، ’’بالخصوص ایسے عناصر سے مدد لینا، جنہیں سن انیس سو اکہتر میں شکست دی گئی تھی، بالکل مناسب نہیں۔ بی این پی کے ان اعمال پر عوام اسے کبھی معاف نہیں کریں گے۔‘‘
بنگلہ دیش میں اتوار تیس دسمبر کو پارلیمانی الیکشن کا انعقاد کیا جا رہا ہے، جس کے لیے اٹھارہ سو سے زائد امیدوار میدان میں ہیں۔ اس انتخابی عمل میں پارلیمان کی تین سو نشستوں پر نئے ارکان منتخب کیے جائیں گے۔ عوامی جائزوں کے مطابق ان قومی انتخابات میں موجودہ وزیر اعظم شیخ حسینہ کامیابی حاصل کر سکتی ہیں جب کہ ان کے مخالفین کو ایک غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے۔
ع ب / م م / خبر رساں ادارے
بنگلہ دیش کا ’ڈیتھ اسکواڈ‘ سوشل میڈیا کی جانچ پڑتال کرے گا
بنگلہ دیشی حکومت سوشل میڈیا کی جانچ پڑتال کی ذمہ داری پیراملٹری فورس کو تفویض کرنے کا سوچ رہی ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ حکومتی فیصلہ آزادئ رائے کے منافی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
داغ دار شہرت
ریپڈ ایکشن بٹالین (RAB) سن 2004 میں قائم کی گئی تھی تاکہ بنگلہ دیش میں فروغ پاتی اسلام پسندی کو قابو میں لایا جا سکے۔ اس فورس نے ابتداء میں چند جہادی عقائد کے دہشت گردوں کو ہلاک کیا یا پھر گرفتار کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس فورس کی شہرت بتدریج داغ دار ہوتی چلی گئی اور یہ خوف کی علامت بن کر رہ گئی۔ اسے موت کا دستہ یا ’ڈیتھ اسکواڈ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
فیس بک، یوٹیوب اور سکیورٹی
بنگلہ دیش کی حکومت فیس بک، یوٹیوب اور دیگر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کی نگرانی پر بارہ ملین یورو یا تقریباً چودہ ملین امریکی ڈالر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس منصوبے کے تحت ریپڈ ایکشن بٹالین ریاست مخالف پراپیگنڈے، افواہوں اور اشتعال انگیز مضامین یا بیانات کیا اشاعت کی نگرانی کرے گی۔ نگرانی کا یہ عمل انٹرنیٹ پر دستیاب کمیونیکشن کے تمام ذرائع پر کیا جائے گا۔
تصویر: imago/Future Image
ڈھاکا حکومت پر بین الاقوامی دباؤ کا مطالبہ
سویڈن میں مقیم بنگلہ دیشی صحافی تسنیم خلیل کا کہنا ہے کہ ریپڈ ایکشن بٹالین کو استعمل کرتے ہوئے ڈھاکا حکومت اپنے مخالفین کو گرفتار یا نظربند کرنے کا پہلے ہی سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ خلیل نے یورپی یونین اور ایسے دوسرے اداروں سے کہا ہے کہ وہ بنگلہ دیشی حکومت کو ایسا اقدام کرنے سے روکے جو عام شہریوں کی آزادی کو سلب کرنے کے مساوی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
آزادئ صحافت کو محدود کرنے کا نیا قانون
بنگلہ دیشی حکومت نے حال ہی میں ایک نیا قانون ’ دی ڈیجیٹل ایکٹ‘ متعارف کرایا ہے۔ اس قانون کے تحت انٹرنیٹ پر ریاست مخالف یا قانونی اختیار کو درہم برہم کرنے یا مذہبی جذبات کو مجروح کرنے یا نسلی ہم آہنگی کے منافی کوئی بھی بیان شائع کرنے کے جرم پر سات برس تک کی قید سزا سنائی جا سکتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ حکومتی ناقدین کو خاموش کرنے طور پر اس قانون کا استعمال کر سکتی ہے۔
تصویر: government's press department
ذرائع ابلاغ کا احتجاج
پیر پندرہ اکتوبر کو مسلم اکثریتی ملک بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں اہم اخبارات کے مدیران نے نیشنل پریس کلب کے باہر انسانی زنجیر بنائی۔ اس موقع پر مطالبہ کیا گیا کہ ’دی ڈیجیٹل ایکٹ‘ کی مختلف نو شقوں میں ترامیم کی جائیں کیونکہ یہ آزاد صحافت اور آزادئ رائے کے راستے کی رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ اس مظاہرے کے جواب میں کوئی حکومتی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
تصویر: bdnews24.com
صحافت بھی جاسوسی کا ذریعہ ہو سکتی ہے!
ایک سینیئر ایڈیٹر محفوظ الرحمان کا کہنا ہے کہ نئے قانون کے تحت اگر کوئی صحافی کسی حکومتی دفتر میں داخل ہو کر معلومات اکھٹی کرتا پایا گیا تو اُسے جاسوسی کے شبے میں چودہ سال تک کی سزائے قید سنائی جا سکتی ہے۔ محفوظ الرحمان کا مزید کہنا ہے کہ یہ نیا قانون سائبر کرائمز کے چیلنج کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ آزاد میڈیا کے گلے میں ہڈی کی طرح اٹک جائے گا۔
تصویر: bdnews24.com
ناروا سلوک
بنگلہ دیش آزاد صحافت کی عالمی درجہ بندی میں 180 ممالک میں 146 ویں پوزیشن پر ہے۔ ڈھاکا حکومت نے عالمی دباؤ کے باوجود انسانی حقوق کے سرگرم کارکن شاہد العالم کو پسِ زندان رکھا ہوا ہے۔ العالم نے رواں برس اگست میں طلبہ کے پرامن مظاہرے پر طاقت کے استعمال کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور وہ اسی باعث گرفتار کیے گئے۔ اس گرفتاری پر حکومتی ناقدین کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔