کچھ باتیں ہمارے لیے حساس نہیں ہوتیں لیکن کسی دوسرے کے لیے وہ انتہائی سنگین ہو سکتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں معذوری، رنگ یا جسمانی ساخت پر مذاق اڑانا معمول کی بات ہے لیکن کیا کبھی ہم نے یہ سوچا کہ اس کے اثرات کیا ہوتے ہیں؟
اشتہار
زندگی جینے کی مصروفیت نے ہمیں اپنے ارد گرد سے اس قدر غافل کر دیا ہے کہ بہت سے پیارے لوگ بھی آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل کے مصداق ہوجاتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک دیرینہ دوست سے سر راہ ملاقات ہوئی تو اتنے برسوں بعد ایک دوسرے کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی اور آنے والے اتوار اس نے مجھے اپنے گھر آنے کی دعوت بھی دے ڈالی۔
میں بھی اس کی تین پیاری پیاری بیٹیوں سے ملنے کو بےچین تھی۔ دوست کے گھر پہنچنے پر اس کی دو چھوٹی بیٹیوں نے چہکتے، کھلکھلاتے ہوئے میرا استقبال کیا مگر بڑی بیٹی نظر نہ آئی۔ میرے استفسار پر دادی بولیں ارے وہ ہماری ’کلو‘ مہمانوں کے سامنے آنے سے بہت کتراتی ہے۔
میرے اصرار کرنے پر سات سالہ دبلی پتلی، سانولی سی بچی ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی اور خاموشی سے کونے میں بیٹھ گئی۔ جب کہ چھوٹی والی دونوں ستارہ سی چمکتی بولتی گڑیاں مسلسل ماحول کی رونق بڑھاتی رہیں۔
دادی اور ماں بھی انہی دونوں کی جانب زیادہ ملتفت نظر آتی تھیں۔ ان دونوں بچیوں کی ویڈیوز ان دونوں کی تصویریں لوگوں کا سراہا جانا موضوع گفتگو رہا۔ اس دوران بڑی والی بیٹی اس ماحول کا حصہ ہوتے ہوئے بھی لاتعلقی کا اظہار کرتی رہی۔ اور پھر کچھ دیر میں خاموشی سے اٹھ کر وہاں سے چلی گئی۔
اپنی دوست سے میں نے بچی کے اس طرح کے رویے پر بات کی تو اندازہ ہوا کہ بچی اپنی رنگت کی وجہ سے ہر جگہ نشانہ بنتی ہے، خاص طور پر دو انتہائی خوش شکل اور گوری بہنوں کی موجودگی میں ہر کوئی حیرت سے یہ پوچھے بنا نہیں رہتا کہ کیا یہ بھی تمہاری ہی بیٹی ہے؟ اور ان کی والدہ محترمہ نے اس کا حل یہ سوچا رکھا تھا کہ بڑے ہونے پر اس کو رنگت گوری کرنے کے انجکشن لگوانے ہیں۔ مجھے اس بات کا دکھ ہوا کے اتنی چھوٹی سی عمر میں ایک بچی اپنی رنگت کے حوالے سے اس قدر حساس کیسے ہوگئی؟
اب دبلی پتلی ماڈل نہیں چلے گی
فرانس میں مجسم نمونہٴ حسن بننے کی خواہش میں حد سے زیادہ دبلی پتلی نظر آنے والی ماڈلز پر ایک نئے قانون کے ذریعے پابندی نافذ کر دی گئی ہے۔ فرانس کی تمام ماڈلز کو اب ماڈلنگ سے قبل اچھی صحت کی طبی سند دکھانا ہو گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
ترشا ہوا جسم
فیشن میگزین میں یا پھر کسی بیوٹی پروڈکٹ کے اشتہار میں ماڈل کو ایسے ترشے ہوئے بدن کے ساتھ دکھایا جاتا ہے کہ وہ حقیقت سے بہت دور لگتا ہے۔ ’فوٹوشاپ‘ کا استعمال کر کے آنکھیں بڑی بڑی اور ہونٹ بھرے ہوئے دکھائے جاتے ہیں۔
تصویر: AP
ٹچ اپ
فرانس میں ایک نیا قانون بنایا گیا ہے، جس کے تحت اس طرح کی تصویر کے نیچے صاف صاف لکھا ہونا ضروری ہو گا کہ اس میں ’فوٹوشاپ‘ کے ذریعے تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ ایسی تصویر کے نیچے ’ٹچ اپ‘ لکھا جائے گا۔
تصویر: haveseen - Fotolia
ڈاکٹر کا سرٹیفکیٹ
اس کے علاوہ ماڈل کو ڈاکٹر کے سرٹیفیکیٹ کی ضرورت ہو گی، جس پر لکھا ہو گا کہ وہ صحت مند ہیں اور حد سے زیادہ دبلی پتلی نہیں۔ اس کے لیے ان کے بی ایم آئی (باڈی ماس انڈیکس) کی رپورٹ تیار کی جائے گی۔
تصویر: AP
غذائی قلت کا شکار
بی ایم آئی میں قد کی مناسبت سے وزن کو پرکھا جاتا ہے۔ ساتھ ہی عمر پر بھی توجہ دی جاتی ہے۔ ایک صحت مند شخص کا بی ایم آئی 18 سے 25 کے درمیان ہوتا ہے۔ 18 سے کم کو غذائی قلت کا شکار سمجھا جاتا ہے جبکہ ماڈل گرلز کا بی ایم آئی زیادہ تر 15 سے 16 کے درمیان ہی ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G.I. Rothstein
کم وزن
اکثر ماڈل لڑکیوں کو وزن کم کرنے کو کہا جاتا ہے۔ بہت سی لڑکیوں کا وزن محض 40 اور 45 کلو گرام کے درمیان ہوتا ہے، اس کے لیے وہ اکثر خود کو دن بھر بھوکا رکھتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kalaene
جرمانہ
قانون کی خلاف ورزی کرنے پر ماڈل گرلز کو کام پر رکھنے والی ایجنسی کو سزا ہو سکتی ہے۔ اس میں چھ ماہ کی قید اور پچھتر ہزار یورو تک کا جرمانہ بھی شامل ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ فرانس میں خود کو بھوکا رکھنے کی وجہ بیماری کی شکار نوجوان لڑکیوں کی تعداد 30 سے 40 ہزار کے درمیان ہے۔
تصویر: Reuters/Gonzalo Fuentes
بیمار نوجوان
صرف فرانس ہی نہیں، دنیا بھر میں انتہائی پتلی ماڈل نوجوان لڑکیوں کے لیے ایک مثال بنتی جا رہی ہیں۔ انہیں دیکھ کر دیگر لڑکیاں خود بھی ان جیسا بننے کی کوشش کرتی ہیں اور بیمار لگنے لگتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schreiber
سبق
فرانس سے پہلے اسرائیل اور اٹلی بھی انتہائی دبلی پتلی ماڈل لڑکیوں کو بائی بائی کر چکے ہیں۔ امید ہے کہ باقی کے ملک بھی اس سے سبق لیں گے اور آئندہ خوبصورت بھی انہی ماڈلز کو کہا جائے گا، جو صحت مند بھی ہوں گی۔
تصویر: Colourbox
8 تصاویر1 | 8
اسے یہ احساس دلانے والے ہم لوگ ہی ہیں۔ ماضی میں سانولی رنگت شاید ایک اسکن ٹون سے زیادہ کچھ نہ تھی۔ مگر آج جلد کی رنگت ہی سب کچھ ہے۔ آپ سب بھی اس بات سے یقینا متفق ہوں گے کہ جس طرح گورا ہونا کوئی کمال بات نہیں اسی طرح سانولی رنگت میں بھی کوئی برائی نہیں۔
لیکن سفید رنگت کی برتری ہمارے معاشرے میں روز بروز اپنی جڑیں گہری کر رہی ہے اور اس میں گورا کرنے والی کریموں کے اشتہاروں کا بھی بہت عمل دخل ہے۔ اشتہاروں میں گہری رنگت والی خواتین یا مردوں کو بھی اعتماد کی کمی کا شکار ہی دکھایا جاتا ہے۔ اور یہ بھی باور کرایا جاتا ہے کہ زندگی میں اگر کامیاب ہونا ہے یا اگر اچھا جیون ساتھی پانا ہے تو بھی رنگت کا صاف ہونا ہی اس کی ضمانت ہے۔
چلیں مان لیا کہ انہیں تو اپنا مال بیچنا ہے وہ تو نت نئے انداز اور طریقے مارکیٹ میں لے کر آئیں گے ہی مگر ان معاشرتی رویوں کا کیا کیا جائے، جہاں ایک ماں بھی اپنی بچی کی صحت کو داؤ پر لگا کر اس بات کے لیے تیار نظر آتی ہے کہ اسے گورا کرنے والے انجکشن کی ضرورت ہے۔
آج اس خوبصورت نظر آنے کی دوڑ میں صرف اداکارائیں اور ماڈل گرلز ہی شامل نہیں ہمارے معاشرے کی ہر لڑکی اس دوڑ کا حصہ نظر آتی ہے۔ بصورت دیگر ان کو ملنے والے طعنے اور ان کو ملنے والے مشورے ان کی زندگی کو مزید اجیرن کیے رکھتے ہیں۔ مثلا کسی مخصوص رنگ کے پہننے پر یہ سننے کو ملے گا کہ ارے بھئی کلر کا انتخاب کرتے وقت اپنی رنگت تو دیکھ لیا کرو۔ یا پھر ۔۔۔۔ اتنا شوخ رنگ ۔۔۔۔ اب تم یہ پہنوگی اپنا مذاق بنواوُگی کیا۔۔!
یہ جملے بولنے والے عموما ہمارے اپنے گھر والے اور خیر خواہ ہی ہوتے ہیں۔ اس صورتحال سے ہمارے بچوں اور بچیوں پر نفسیاتی دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے۔
بچوں کی وہ عمر جس میں ان کی تعلیمی سرگرمیوں اور پر اعتماد شخصیت پر ان کی اور ہماری توجہ مرکوز ہو اُس عمر میں بچوں کو ان کے ظاہری خدو خال اور رنگت کے حوالے سے تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
فی زمانہ ہمارے بچوں اور بچیوں کو درپیش چیلنجز میں ایک اضافی چیلنج خوبصورتی کے بڑھتے ہوئے معیارات بھی ہیں۔ ماضی میں زیادہ وزن رکھنے والے لوگ فخریہ کہتے نظر آتے تھے کہ ۔۔۔ ارے بھئی ہمارا تعلق کھاتے پیتے گھرانےسے ہے ۔۔۔ مگر آج چار لوگوں میں بیٹھ کر موٹے لوگوں کو جس طرح مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے، وہ یقینا اُن کے لیے بہت دل آزاری کا سبب بنتا ہے۔
خصوصا سوشل میڈیا پر موٹی خواتین کی تصویریں بطور مذاح اپ لوڈ کرنا ایک معمول کی بات ہے۔ یہاں تک کہ اپنےحلقہ احباب کی زیادہ وزن والی خواتین کے نمبر تک فون میں ان کے نام میں 'موٹی‘ کی اضافت کے ساتھ محفوظ کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح کسی بھی گنجے شخص کا فرض ہے کہ وہ اپنے گنج پن سے نجات حاصل کرے ورنہ روزانہ کی بنیاد پر ملنے والے مشورے اور طعنے اُسے جینے نہیں دیں گے۔
اس ترقی پذیر معاشرے میں ہمارے بچے اور بچیاں پہلے ہی نہ جانے کس کس ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ والدین پر ان کی تربیت کے حوالے سے ذمہ داری کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ تعلیم کیا دلانی ہے؟ شعور کیسے پیدا ہوگا؟ قوت فیصلہ بھی ہونا چاہیے۔ کوئی ہنر آنا بھی ضروری ہے۔ چار پیسے کمانے کے گُر کیسے بتائے جائیں؟ اور ان سب چیلنجز کے ساتھ ایک اور اضافی سوالیہ نشان کہ بچے ظاہری خوبصورتی کے معیارات پر پورا اترتے ہیں یا نہیں؟ تمہارا تو قد چھوٹا ہے، موٹی ہو یا تمہاری رنگت گہری ہے اچھا رشتہ کیسے ملے گا ؟
ایسے تمام سوالات ایک ماں کے رویے میں بھی یہ تبدیلی لاتے ہیں کہ وہ اپنی ہی اولاد کے درمیان تفریق کرنا شروع ہوجاتی ہے۔ اس سلسلے میں آئے دن نت نئے طریقے کرش ڈائٹ، کیٹو ڈائٹ، کاسمیٹک سرجری، اور بیوٹی پارلرز کے خوبصورت بنانے کا جھانسہ دیتے اشتہارات ہمارے کمائی کا ایک بڑا حصہ لے اڑتے ہیں۔ ایک نادان ماں کا یہ دل دہلانے والا واقعہ بھی سننے کو ملا کہ اپنی تین ماہ کی نومولود کو ویکس کرانے پارلر پہنچ گئیں۔ ویکس کی تکلیف اکثر بڑی خواتین کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہے لیکن کیا کیجیے اس ماں کا جس کو بچی کی خوبصورتی کی زیادہ فکر تھی۔
والدین کو اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری نبھانا ہوگی کہ بچوں کی پرورش ان کی ظاہری خوبصورتی کو مد نظر رکھ کر نہیں بلکہ ان کو ایک پرُاعتماد شخصیت کا مالک بنانے پر محنت کریں۔ انہیں شعور، آگہی، قوت فیصلہ اور تعلیم دیں۔ خوبصورتی ظاہر کا نہیں بلکہ خوبصورت زندگی کا نام ہے۔ معاشرے کے تمام باشعور افراد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے ارد گرد موجود لوگوں پر اس طرح کے طعنے اور اس طرح کے نام دینے سے نہ صرف خود گریز کریں بلکہ دوسروں کو بھی اس بات کا احساس دلائیں کہ یہ عمل بدتہذیبی کہلاتا ہے۔
ہمارے ایسے رویے اور القابات اگر کسی کو اس کی زندگی میں آگے بڑھنے سے روک دیں تو یہ کسی قتل سے کم نہیں۔ ہمارا ذوق مزاح کیا اس حد تک آلودہ ہو چکا کہ کسی کا موٹا ہونا یا کالا ہونا ہمارے لیے مذاق کی بات ہے۔کیا تعلیم، تہذیب و تمدن ہمارے لیے اپنے معنی کھو چکی ہے؟ کیا ہی اچھا ہو کے ہم آدمی سے انسان ہو سکیں، آدمی جو ایک مادی وجود ہے جبکہ انسان ایک اخلاقی وجود۔
برلن فیشن ویک میں نئے رجحانات
دنیا کے دیگر فیشن میلوں میں چمک دمک اور شان و شوکت کا راج ہوتا ہے لیکن جرمن دارالحکومت برلن کے فیشن ڈیزائنرز کی ایک اپنی ہی دنیا ہے۔ اس فیشن ویک کو دیکھ کر لگتا ہے کہ 2016ء کے موسم گرما کے ملبوسات بلیک اینڈ وائٹ ہوں گے۔
تصویر: picture-alliance/B. v. Jutrczenka
شفاف، ہلکے پھلکے اور ہوا دار
’ویکٹر‘ نامی فیشن کمپنی دو سال پہلے برلن ہی میں قائم کی گئی تھی۔ یہ برانڈ کلاسیکی سفید، سیاہ اور پھیکے زرد رنگوں کے لباس تیار کرتا ہے۔ اس برانڈ کی تیار کردہ شرٹس ڈھیلی ڈھالی اور ہوا دار ہوتی ہیں اور ان میں سے جسم کے خدّ و خال بھی نظر آتے ہیں۔ اسے گرم موسم کے لیے مثالی لباس قرار دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/B. v. Jutrczenka
فیشن اور ٹیکنالوجی کا امتزاج
نیا رجحان ’ویئرایبلز‘ کا ہے مثلاً ہاتھ میں پہنے جانے والے ایسے بازو بند، جو آپ کے قدموں کو شمار کرتے ہیں اور نبض کی رفتار ماپتے ہیں۔ یا پھر ایسی ٹوپیاں، جن کے اندر پہلے ہی سے ایک ہیڈ فون نصب ہوتا ہے۔ یہ ایک نئی مارکیٹ ہے، جس میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور فیشن کی صنعت دونوں کے لیے دلچسپی کا سامان موجود ہے۔ لیزا لاگن نامی خاتون ڈیزائنر کے ’روشن‘ ملبوسات کی سلائی میں ایل ای ڈی بلب استعمال کیے گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kalaene
رنگ دار ملبوسات گزرے کل کا قصہ
برلن فیشن ویک کا افتتاح ’سویاپولر‘ نامی برانڈ سے ہوا، جو مردوں کے ملبوسات تیار کرتا ہے اور جس کے ملبوسات میں جاپانی ثقافت کا رنگ جھلکتا ہے۔ مردوں کے ملبوسات اگلے سال کے موسم گرما میں گہرے سبز، سلیٹی یا سیدھے سیدھے سیاہ رنگ کے ہوں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. v. Jutrczenka
مشرقِ بعید کے اثرات
ایک اور برانڈ ’پَرلی وونگ‘ ہے، جس کے ملبوسات پر ایشیا کی نمایاں چھاپ نظر آتی ہے۔ یہ بات باعثِ تعجب بھی نہیں ہے کیونکہ اس برانڈ کی بانی خاتون فیشن ڈیزائنر پرلی وونگ، جو نیویارک سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر چکی ہیں، کا تعلق جنوب مشرقی ایشیا کے ملک ملائیشیا سے ہے۔ وہ بھی دو رنگوں سیاہ اور سفید میں کام کرتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. v. Jutrczenka
گزرے دور کی ایک جھلک
دیگر بہت سے ڈیزائنرز کے برعکس آسٹریا کی خاتون ڈیزائنر لینا ہوشیک کے تیار کردہ نئے ملبوسات میں مختلف بھڑکیلے رنگوں کا استعمال نظر آتا ہے۔ اِن ملبوسات میں پھولدار کپڑا استعمال کیا گیا ہے۔ اس تصویر میں ماڈل نے بیس ویں صدی کی پانچ ویں دہائی کی طرح کے اس پھولدار لباس کے ساتھ سر پر ’اسٹرا ہیٹ‘ بھی پہن رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. v. Jutrczenka
’سُپر ماڈلز‘ کا انتظار
برلن کے اس فیشن وِیک کا سب سے نمایاں چہرہ ہالینڈ کی سپر ماڈل دوتسن کروئس کا ہے لیکن اُن کی کیٹ واک میں ابھی کچھ دیر ہے۔ سرِدست مختلف جرمن اداکارائیں، ٹی وی اینکرز اور فیشن کے موضوع پر بلاگز لکھنے والی خواتین ہی ماڈل بن کر ملبوسات کی نمائش کر رہی ہیں۔ اس تصویر میں ’دی فینسی لائف سٹائل‘ نامی بلاگ لکھنے والی کاتھرینا بانزیمر اور کونسٹانسے لوئیسا سفید رنگ کے ملبوسات کی نمائش کر رہی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Carstensen
کارل نہیں تو کریچمر ہی سہی
کارل لاگر فیلڈ فیشن کی دنیا کا سب سے بڑا نام ہیں لیکن وہ چونکہ پیرس فیشن ویک میں اپنے تیار کردہ نئے ملبوسات پیش کر رہے ہیں، اس لیے وہ برلن فیشن ویک میں شریک نہیں ہیں۔ اُن کی بجائے گیڈو ماریا کریچمر برلن فیشن ویک میں موجود ہیں، جو فیشن ملبوسات کی دنیا میں نمایاں مقام رکھتے ہیں اور اُنہوں نے بھی سیاہ لباس ہی زیبِ تن کر رکھا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kalaene
فیشن ننھے منّے لوگوں کے لیے
اس فیشن ویک کے سلسلے میں برلن کے سابقہ ہوائی اڈے ٹیمپل ہوف میں جو تجارتی نمائش سجی ہے، اُس میں بچوں کے لیے بھی فیشن مصنوعات رکھی گئی ہیں۔ ’نیچرینو‘ نامی کمپنی کے بچوں کے لیے تیار کردہ سنہری رنگ کے یہ چمکتے دمکتے جوتے یہیں دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Pedersen
دیکھو اور دکھاؤ
اس تجارتی میلے میں لوگ فیشن کی دنیا میں نت نئے رجحانات دیکھ بھی رہے ہیں اور دکھا بھی رہے ہیں۔ لوگ نت نئے انداز کے ملبوسات کے ساتھ خود کو زیادہ سے زیادہ نمایاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے کہ یہ شخص، جس نے ’نونیٹس‘ نامی جرمن کمپنی کی تیار کردہ شیر کی کھال کے ڈیزائن کی یہ چمکتی دمکتی عینک پہن رکھی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Pedersen
مردوں کے ٹخنے
کیٹ واک کرتے ہوئے خواتین ماڈلز تو ٹخنے دکھاتی ہی ہیں لیکن برلن کے ڈیزائنر مشائل مشالسکی کی تیار کردہ مصنوعات میں اب مرد ماڈلز پر بھی جرابوں کی پابندی نہیں۔ اس تصویر میں ایک مرد ماڈل نے اسی جرمن ڈیزائنر کے تیار کردہ جوتے پہن رکھے ہیں۔