مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان پھر لفظی جنگ
17 دسمبر 2025
متنازع خطہ جموں وکشمیر دنیا کے قدیم ترین تنازعات میں سے ایک ہے۔ جوہری صلاحیت رکھنے والے پڑوسی ممالک بھارت اور پاکستان کے درمیان اس تنازع پر کئی جنگیں ہو چکی ہیں۔ دونوں ممالک اقوام متحدہ سمیت متعدد عالمی فورمز پر اس مسئلے کو اٹھاتے رہے ہیں۔ منگل کے روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یہ مسئلہ ایک بار پھر گرم ہو گیا۔
سلامتی کونسل میں 'قیادت برائے امن‘ کے موضوع پر ایک مباحثے کے دوران پاکستان نے دعویٰ کیا کہ جموں و کشمیر بھارتی علاقہ نہیں ہے اور نہ ہی کبھی اسے اس طور پر تسلیم کیا جائے گا۔
پاکستان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے مطابق پاکستانی مشن کے قونصلر اور پولیٹیکل کوآرڈینیٹر گل قیصر سروانی نے بحث کے دوران کہا کہ جموں وکشمیر ایک بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازع علاقہ ہے جو بھارت کا نہ حصہ تھا، نہ ہے، نہ کبھی ہو گا۔
انہوں نے کہا، ''یہ مؤقف صرف پاکستان کا نہیں بلکہ اقوام متحدہ کا بھی ہے، خود بھارت اس معاملے کو سلامتی کونسل میں لے کر گیا تھا اور اس نے کشمیری عوام کو اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کا حق دینے کا وعدہ کیا تھا، جو تقریباً آٹھ دہائیوں بعد بھی پورا نہیں ہوا۔‘‘
گل قیصر سروانی کے مطابق اس کے برعکس بھارت اپنے زیر انتظام کشمیر میں فوج کی بڑی تعداد میں موجودگی برقرار رکھے ہوئے ہے جہاں ''بنیادی آزادی کے حق کو دبایا جا رہا ہے، آزاد آوازوں کو خاموش کیا جا رہا ہے اور آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، جو بین الاقوامی قانون اور قابض طاقت کی حیثیت سے بھارت کی قانونی ذمہ داریوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔‘‘
بھارت کا جواب
بھارت نے پاکستان کے دعوے کو دو ٹوک انداز میں مسترد کر دیا۔
اقوام متحدہ میں بھارت کے مستقل نمائندے پرواتھانینی ہریش نے پاکستانی نمائندے کے بیان کا ذکر کرتے ہوئے کہا،''بھارت ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کرتا ہے کہ جموں و کشمیر اور لداخ کے وفاقی علاقے بھارت کا اٹوٹ اور ناقابلِ تنسیخ حصہ ہیں۔ یہ ماضی میں بھی بھارت کا حصہ تھے، آج بھی ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔‘‘
خبر رساں ایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق بھارتی منددوب نے مزید کہا کہ آج کے مباحثے میں پاکستان کی جانب سے جموں و کشمیر کا بلاجواز حوالہ بھارت اور اس کے عوام کو نقصان پہنچانے پر اس کی ''جنونی توجہ‘‘ کا ثبوت ہے۔
پرواتھانینی کا کہنا تھا کہ سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن ہونے والے کسی ملک کو اقوامِ متحدہ کے اجلاسوں کو تفرقہ انگیز ایجنڈا آگے بڑھانے کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
انہوں نے پاکستان پر طنز کرتے ہوئے کہا، ''پاکستان کے پاس عوام کی خواہشات کا احترام کرنے کا ایک انوکھا طریقہ ہے، ایک وزیرِاعظم کو جیل میں ڈالنا، حکمران سیاسی جماعت پر پابندی لگانا، اور اپنی مسلح افواج کو 27ویں ترمیم کے ذریعے ایک آئینی بغاوت کرانے دینا اور چیف آف ڈیفنس فورسز کو تاحیات استثنیٰ دینا۔‘‘
دہشت گردی کے مسئلے پر بھی تکرار
مباحثے کے دوران دہشت گردی کے مسئلے پر بھی دونوں پڑوسیوں نے ایک دوسرے پر الزامات لگائے۔
پاکستانی نمائندے سروانی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس اس بات کے قابل اعتبار شواہد موجود ہیں کہ بھارت مختلف دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی کر رہا ہے، جن میں ٹی ٹی پی اور بی ایل اے شامل ہیں، جو پاکستان میں حملوں میں ملوث رہے ہیں۔
انہوں نے کہا،''بھارت اپنے زیر انتظام کشمیر میں ریاستی دہشت گردی، اور شمالی امریکہ سمیت مختلف خطوں میں ریاستی سرپرستی میں قتل کی مہم کو نہیں چھپا سکتا۔‘‘
بھارتی نمائندے نے پاکستان کے الزامات کی نہ صرف تردید کی بلکہ اس کے لیے اسے ہی مورد الزام ٹھہرایا۔
پرواتھانینی نے کہا،''گزشتہ چار دہائیوں کے دوران پاکستان کی سرپرستی میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں دسیوں ہزار بھارتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں، جن میں تازہ ترین اپریل 2025 میں ہونے والا پہلگام دہشت گرد حملہ ہے، جس میں مذہب کی بنیاد پر 26 بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنا کر قتل کیا گیا۔‘‘
سروانی نے تاہم یاد دلایا کہ پاکستان نے پہلگام واقعے کی مذمت کے ساتھ ایک آزاد اور شفاف تحقیقات کی پیشکش کی تھی، جسے بھارت نے مسترد کر دیا۔
بھارت نے یہ بھی دہرایا کہ دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کو طے شدہ فریم ورک کے تحت براہِ راست باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔
ادارت: رابعہ بگٹی