’مسائل کے سمندر‘ کا مقابلہ کریں، ہمت نہ ہاریں: پوپ فرانسس
21 اپریل 2019
کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پاپائے روم نے مسیحی تہوار ایسٹر کے موقع پر اپنے ایک خطاب میں کہا ہے کہ انسانیت کو ’مسائل کے سمندر‘ اور ناامیدی کے سامنے ہمت نہیں ہارنا چاہیے بلکہ ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے۔
اشتہار
ایسٹر سنڈے کے مسیحی تہوار کے موقع پر ویٹیکن سٹی کے پیٹرز اسکوائر میں ہفتہ بیس اپریل اور اتوار اکیس اپریل کی درمیانی شب رات بارہ بجے ہزارہا مسیحی عقیدت مندوں سے اپنے خطاب میں پوپ فرانسس نے کہا کہ انسانیت کو اپنی توجہ صرف مسائل اور مشکلات پر ہی مرکوز نہیں رکھنا چاہیے کیونکہ وہ تو کبھی ختم ہی نہیں ہوں گے۔ اس کے برعکس زیادہ اہم بات یہ ہے کہ بنی نوع انسان عدم اطمینان اور ناامیدی کے سامنے کبھی ہار نہ مانے۔
پاپائے روم نے یہ باتیں اپنے جس خطاب میں اور جس موقع پر کہیں، وہ ایسٹر سنڈے کے آغاز کا وہ وقت تھا، جو مسیحی عقیدے کے مطابق یسوع مسیح کے مصلوب ہو جانے اور پھر دوبارہ زندہ ہونے کی علامت ہے۔ اس موقع پر پہلے پوپ فرانسس نے اندھیرے میں ایک شمع جلائی، جس کے بعد ہزارہا مسیحی زائرین نے بھی شمعیں جلائیں اور یوں علامتی سطح پر یسوع مسیح کے دوبارہ زندہ ہو جانے کی وجہ سے پھیلنے والی روشنی کو یاد کیا گیا۔
اس موقع پر اپنے خطاب میں کلیسائے روم کے سربراہ نے کہا کہ ایسٹر کا تہوار امید کی وجہ بھی ہے۔ 82 سالہ پوپ فرانسس نے کہا، ’’ہم جو قدم اٹھاتے ہیں، اکثر ان کے بارے میں محسوس ہوتا ہے کہ وہ کبھی بھی کافی ثابت نہیں ہوں گے۔ پھر ذہن میں یہ سوچ بھی آتی ہے کہ زندگی کا ایک سیاہ ضابطہ یہ بھی ہے کہ ہر امید ناامیدی میں بدل جاتی ہے۔ لیکن اصل میں یہ شکوک و شبہات اور کم اعتمادی ہوتے ہیں، جو انسانی امیدوں کے راستے کی رکاوٹیں ثابت ہوتے ہیں۔‘‘
امید کو دفن نہ کیا جائے
پاپائے روم نے اپنے اس خطاب میں مزید کہا، ’’اگر انسان مسلسل یہی سوچتا رہے کہ سب کچھ غلط ہو جاتا ہے اور برائی کبھی ختم نہیں ہوتی، تو ہم بتدریج سنکی پن اور ایک بیمار کر دینے والی پژمردگی کا شکار ہوتے جاتے ہیں۔ ہم ایک کے بعد ایک پتھر جوڑتے ہوئے اپنے عدم اطمینان کی ایک ایسی یادگار تعمیر کرنے لگتے ہیں، جس میں ہم بالآخر اپنی امیدوں کو دفن کر دیتے ہیں۔‘‘
پاپائے روم نے کہا کہ امید ایک ایسی چیز ہے، جسے کبھی دم نہیں توڑنا چاہیے اور انسانوں کو اپنی امیدوں کو دفنانا نہیں چاہیے کیونکہ اصل میں ایسٹر کے مسیحی تہوار کا حقیقی پیغام بھی یہی ہے۔
پاپائے روم آج ایسٹر سنڈے کے دن ویٹیکن میں منعقدہ مذہبی تقریبات ہی کے سلسلے میں پیٹرز اسکوائر میں جمع ہزارہا مسیحیوں کے ایک اجتماع سے اپنا وہ خطاب بھی کر رہے ہیں، جو ’شہر اور دنیا کے نام‘ کہلاتا ہے۔ روایتی طور پر کوئی بھی پوپ ہر سال اپنا یہ خطاب دو مرتبہ کرتا ہے، ایک کرسمس اور دوسرا ایسٹر کے موقع پر۔
م م / ع ت / روئٹرز، اے ایف پی
ایسٹر کا تہوار: انڈوں کے ساتھ جرمنوں کی خصوصی رغبت
جرمن شہریوں کا انڈوں کے ساتھ غالباً ایک خصوصی تعلق ہے۔ اُن کے لیے خاص قسم کے برتنوں کا استعمال تو ایک طرف رہا، جر من سارا سال اُنہیں نت نئے طریقوں سے پینٹ بھی کرتے رہتے ہیں۔ یہ پکچر گیلری اسی خصوی تعلق کے بارے میں ہے۔
تصویر: Imago
انڈوں کی اہمیت صرف ایسٹر پر ہی نہیں
خرگوشوں اور انڈوں کا آپس میں بظاہر کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن ہر سال ایسٹر کے تہوار کے موقع پر اس طرح کی تصاویر ضرور نظر آتی ہیں۔ جرمن معاشرے میں انڈے ایک خاص مقام اور اہمیت کے حامل ہیں۔ ایسٹر گزر جانے کے بعد بھی جرمن شہری پورا سال ناشتے سے لے کر ڈیکوریشن تک انڈوں کو مختلف طرح سے استعمال میں لاتے رہتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/zb
ناشتے میں استعمال ہونے والا انڈہ
انڈے پوری دُنیا میں کھائے جاتے ہیں: اُبال کر، فرائی کر کے یا پھر آملیٹ کی صورت میں۔ جرمنی میں ہر اتوار کے بڑے ناشتے میں نیم اُبلے ہوئے انڈوں کا ہونا لاز می ہوتا ہے۔ ایسے انڈے کو روٹی کے ساتھ ملا کر نہیں کھایا جاتا بلکہ اس کی حیثیت ایک الگ ڈِش کی سی ہوتی ہے، جس پر ہلکا سا نمک چھڑک کر اُس کا مزہ لیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
انڈے کا ’کپ‘
انڈے چونکہ نہ تو مکمل طور پر گول ہوتے ہیں اور نہ ہی ہموار، اس لیے پلیٹ میں تو اِن کا ٹِکنا مشکل ہوتا ہے۔ ایسے میں نیم اُبلے ہوئے انڈوں کے لیے یہ مخصوص برتن ناشتے کی میز پر رکھا ہوتا ہے، جو ’اَیگ کپ‘ کہلاتا ہے۔ ڈیزائن اور انجینئرنگ کی سرزمین جرمنی میں اس کپ کے نئے نئے ڈیزائن سامنے آتے رہتے ہیں۔ اِن کے ساتھ اِسی ڈیزائن کا ایک چھوٹا سا چمچ اور ویسی ہی نمک دانی بھی ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Xamax
انڈہ توڑنے والا
لیکن جرمنی میں ناشتے والے انڈے کے لیے ایک ’کانٹا‘، ایک بالکل مناسب سائز کا چمچ اور ایک مُنّی سی نمک دانی ہی کافی نہیں۔ نیم اُبلے ہوئے انڈے کو اوپر سے کاٹنے کے لیے ایک انتہائی حساس آلہ بھی تیار کیا گیا ہے، جسے جرمن زبان میں Eierschalensollbruchstellenverursacher کہا جاتا ہے۔ اس آلے میں ننھی سی گیند کو اوپر لے جا کر چھوڑا جاتا ہے اور انڈے کا چھلکا ہر طرف سے یکساں دباؤ پڑنے سے ٹوٹ جاتا ہے۔
تصویر: cc-by-sa/Rotatebot
محبت مسلسل بڑھتی ہوئی
جرمنوں کے ہاں انڈوں کا استعمال مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اس شعبے کی مرکزی تنظیم کے اندازوں کے مطابق 2016ء میں ہر جرمن شہری نے 235 انڈے کھائے جبکہ 2015ء میں یہ تعداد 233 اور 2014ء میں 231 تھی۔ انڈوں کی زیادہ تر پیداوار جرمنی کے اندر ہی ہوتی ہے لیکن اب انڈے پولینڈ اور ہالینڈ سے بھی منگوائے جانے لگے ہیں۔ انڈے سارا سال استعمال ہوتے ہیں، ایسٹر کے تہوار پر تو انڈوں کے استعمال میں بس ہلکا سا ہی اضافہ ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
دوسرے ملکوں کے ساتھ موازنہ
جرمنی میں انڈوں کو دیے جانے والے خصوصی مقام سے لگتا ہو گا کہ جرمن شہری انڈوں کے استعمال کے اعتبار سے دنیا میں پہلے نمبر پر ہیں لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ ہر امریکی سال میں تقریباً 267 انڈے کھاتا ہے یعنی جرمنوں سے کہیں زیادہ۔ برطانیہ میں انڈوں کا سالانہ فی کس استعمال 192 ہے۔
تصویر: Fotolia/Eddie
براؤن یا سفید
مرغی کی نسل کے مطابق انڈوں کا رنگ بھُورا یا سفید ہوتا ہے۔ ستّر اور اَسّی کے عشروں میں جرمنی میں سفید انڈوں کے استعمال کا رجحان زیادہ تھا تاہم زیادہ ماحول دوست مصنوعات کا دور شروع ہوا تو لوگ بھُورے رنگ کے انڈے زیادہ تعداد میں کھانے لگے۔ انہیں زیادہ صحت بخش تصور کیا جاتا ہے حالانکہ رنگ کے سوا ان میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ سفید انڈوں کو پینٹ کرنا لیکن آسان ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سال بھر انڈوں کی قوسِ قزح
جرمنی میں نئے نئے آنے والے لوگ اکتوبر کے مہینے میں سُپر مارکیٹوں میں پینٹ کیے ہوئے ڈھیروں انڈے (جو کسی ریفریجریٹر میں بھی نہیں پڑے ہوتے) دیکھ کر حیران رہ جاتے ہوں گے۔ لیکن یہ آنکھ کا دھوکا نہیں ہے۔ گزشتہ برس 475 ملین انڈے فروخت ہوئے۔
تصویر: cc-by:Daniel Rüd-nc
سینڈ وِچ میں بھی
کبھی کبھی جرمنی میں انڈے آپ کو ایسی جگہ پر بھی ملیں گے، جہاں آپ اُن کی توقع نہیں کر رہے ہوں گے: ایک سینڈ وِچ میں۔ آپ کسی جرمن بیکری میں جا کر پنیر کے سینڈ وِچ کا آرڈر دیں گے تو اُس کے اندر آپ کو ٹماٹر اور کھیرے کے ایک ایک سلائس کے ساتھ اُبلے ہوئے انڈے کا ایک سلائس بھی رکھا ہوا ملے گا۔
تصویر: picture-alliance/Titus E. Czersk
انڈوں کا پیڑ
خرگوش انڈے نہیں دیتے تو کیا انڈے درختوں پر لگتے ہیں؟ یہ دراصل ایک صدیوں پرانی جرمن روایت ہے، جس میں ایسٹر کے موقع پر کرسمس ٹری کی طرح باہر پورے قد کے پیڑوں کو اور گھروں کے اندر چھوٹے سائز کے درختوں کو رنگا رنگ پینٹ کیے ہوئے انڈوں سے سجایا جاتا ہے۔ سن 2015ء میں زال فیلڈ کی کرافٹ فیملی نے سب سے بڑا ایسٹر ٹری بنایا تھا، جس پر دَس ہزار سے زیادہ انڈے لٹکائے گئے تھے۔