مساجد کھولنے کے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں، پاکستانی ڈاکٹرز
22 اپریل 2020
پاکستان میں سینیئر ڈاکٹروں نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ کورونا کی وبا کے دوران باجماعت نماز پڑھنے کی اجازت دینے کے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔
اشتہار
حکومت کو لکھے گئے ایک خط میں طبی ماہرین نے خبردار کیا کہ رمضان میں مساجد میں لوگوں کا رش بڑھتا ہے اور تراویح کے اجتماعات دیر تک جاری رہتے ہیں، ایسے میں ملک میں وائرس پھیلنے اور صورتحال بگڑنے کا خدشہ ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ مساجد میں پچاس سال سے زائد عمر کے لوگ زیادہ جاتے ہیں، جس سے ان کی جان کو زیادہ خطرہ ہو سکتا ہے۔
یہ خط پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کی جانب سے حکومت کو ارسال کیا گیا ہے۔ خط پر آغا خان یونیورسٹی کراچی کے سینیئر ڈاکٹر فیصل محمود اور فلاحی ادارے انڈس ہسپتال کے سربراہ ڈاکٹر عبدالباری خان سمیت تیرہ سرکردہ ڈاکٹروں کے دستخط ہیں۔ پاکستان میں وفاقی حکومت کا موقف ہے کہ لوگوں کو زبردستی مساجد میں جانے سے نہیں روکا جا سکتا۔
منگل کو کورونا وائرس سے متعلق میڈیا بریفنگ میں وزیراعظم عمران خان نے مساجد کھولنے کے حکومتی فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا،''پاکستانی ایک آزاد قوم ہے۔ ماہ رمضان میں عبادات پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے، ہماری قوم مساجد میں جانا چاہتی ہے تو کیا ہم ان لوگوں کو زبردستی کہیں کہ آپ مساجد میں نہ جائیں اور کیا پولیس مساجد میں جانے والوں کو جیلوں میں ڈالے گی؟‘‘
پاکستان میں پچھلے ہفتے دیوبندی، بریلوی اور اہلحدیث علماء کے ایک با اثر گروپ نے دھمکی دی تھی کہ وہ حکومتی لاک ڈاؤن کے تحت مساجد کو مزید بند نہیں رکھ سکتے، جس کے بعد کئی علاقوں میں باجماعت نماز کے لیے مساجد کے دروازے کھول دیے گئے تھے۔
صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے ہفتے کو علماء کے ساتھ مشاورت کے بعد اعلان کیا کہ رمضان کے دوران تراویح اور اجتماعی عبادت کے لیے مساجد کھولی جا رہی ہیں۔ اس موقع پر حکومت نے علماء کی اتفاق رائے سے ایک بیس نکاتی حفاظتی ہدایت نامہ جاری کیا اور لوگوں پر زور دیا کہ اس کی پاسداری وہ خود کریں۔
واضح رہے کہ سعودی عرب سمیت کئی مسلم ممالک نے کورونا وبا کے مدنظر باجماعت نماز اور تراویح پر پابندی کا اعلان کر رکھا ہے۔
منگل کو وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ گو کہ حکومت پاکستان کی طرف سے مشروط طور پر مساجد کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے لیکن لوگوں کو چاہیے کہ رمضان کے دوران گھر پر رہ کر عبادت کریں۔ انہوں نے کہا کہ اگر رمضان کے دوران مساجد میں حفاظتی ہدایات کا خیال نہ رکھا گیا اور بیماری پھیلی تو پھر مساجد کو بند کرنا پڑے گا۔
لیکن ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ رمضان کے اجتماعات کے دوران حکومت کے لیے سماجی دوری اور حفاظتی ہدایات پر عملدرآمد ممکن نہیں ہوگا، جس سے مریضوں کی تعداد میں زبردست اضافے کا خدشہ ہے۔
حکومت کے نام اپنے خط میں طبی ماہرین نے کہا کہ پاکستان کے شہریوں میں تعلیم کی کمی کے باعث ویسے بھی نظم و ضبط کا فقدان ہے اور پچھلے چند ہفتوں کے دوران کراچی میں باجماعت نماز جمعہ کرانے والوں اور پولیس کے درمیان پر تشدد واقعات پیش آچکے ہیں۔ ڈاکٹروں نے خدشہ ظاہر کیا کہ رمضان کے دوران بدانتظامی سے شہریوں اور قانون نافذ کرنے والوں کے درمیان محاذ آرائی کے واقعات پیش آ سکتے ہیں۔
لاک ڈاؤن کو ممکن بنانے کے لیے سکیورٹی اہلکاروں کی کارروائیاں
کورونا وائرس کی وجہ دنیا بھر کے متعدد ممالک میں لاک ڈاؤن کیا گیا ہے تاکہ اس عالمی وبا کے پھیلاؤ کے عمل میں سستی پیدا کی جا سکے۔ کئی ممالک میں اس لاک ڈاؤن کو یقینی بنانے کے لیے سکیورٹی اہلکاروں کی مدد بھی طلب کرنا پڑی ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
لاہور، پاکستان
لاک ڈاؤن کے باوجود پاکستان کے متعدد شہروں میں لوگوں کو سڑکوں پر دیکھا جا سکتا ہے۔ لاہور میں پولیس اہلکاروں کی کوشش ہے کہ لوگوں کو باہر نہ نکلنے دیا جائے تاہم ان کی یہ کوشش کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔
تصویر: DW/T. Shahzad
موغادیشو، صومالیہ
افریقی ملک صومالیہ میں بھی نئے کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا ہے۔ تاہم دارالحکومت موغادیشو میں لوگ معاملے کی نزاکت کو نہیں سمجھ پا رہے۔ اس لاک ڈاؤن کو مؤثر بنانے کے لیے کئی مقامات پر سکیورٹی اہلکاروں نے شہریوں کو اسلحہ دکھا کر زبردستی گھر روانہ کیا۔
تصویر: Reuters/F. Omar
یروشلم، اسرائیل
اسرائیل میں بھی کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر لاک ڈاؤن کیا جا چکا ہے۔ تاہم اس یہودی ریاست میں سخت گیر نظریات کے حامل یہودی اس حکومتی پابندی کے خلاف ہیں۔ بالخصوص یروشلم میں ایسے لوگوں کو گھروں سے باہر نکلنے سے روکنے کی خاطر پولیس کو فعال ہونا پڑا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
برائٹن، برطانیہ
برطانیہ بھی کورونا وائرس سے شدید متاثر ہو رہا ہے، یہاں تک کے اس ملک کے وزیر اعظم بورس جانسن بھی اس وبا کا نشانہ بن چکے ہیں۔ برطانیہ میں لاک ڈاؤن کيا گیا ہے لیکن کچھ لوگ اس پابندی پر عمل درآمد کرتے نظر نہیں آ رہے۔ تاہم پولیس کی کوشش ہے کہ بغیر ضرورت باہر نکلنے والے لوگوں کو واپس ان کے گھر روانہ کر دیا جائے۔
تصویر: Reuters/P. Cziborra
گوئٹے مالا شہر، گوئٹے مالا
گوئٹے مالا کے دارالحکومت میں لوگ کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سڑکوں پر نکلنے سے نہیں کترا رہے۔ گوئٹے مالا شہر کی پولیس نے متعدد لوگوں کو گرفتار بھی کر لیا ہے۔
تصویر: Reuters/L. Echeverria
لاس اینجلس، امریکا
امریکا بھی کورونا وائرس کے آگے بے بس نظر آ رہا ہے۔ تاہم لاک ڈاؤن کے باوجود لوگ سڑکوں پر نکلنے سے گریز نہیں کر رہے۔ لاس اینجلس میں پولیس گشت کر رہی ہے اور لوگوں کو گھروں میں رہنے کی تاکید کی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Grillot
چنئی، بھارت
بھارت میں بھی لاک ڈاؤن کیا گیا ہے لیکن کئی دیگر شہروں کی طرح چنئی میں لوگ گھروں سے باہر نکلنے سے باز نہیں آ رہے۔ اس شہر میں پولیس اہلکاروں نے لاک ڈاؤن کی خلاف وزری کرنے والوں پر تشدد بھی کیا۔
تصویر: Reuters/P. Ravikumar
کھٹمنڈو، نیپال
نیپال میں بھی لوگ حکومت کی طرف سے جاری کردہ حفاظتی اقدامات پر عمل کرتے نظر نہیں آ رہے۔ کھٹمنڈو میں پولیس اہلکاروں کی کوشش ہے کہ لوگ نہ تو گھروں سے نکليں اور نہ ہی اجتماعات کی شکل میں اکٹھے ہوں۔
تصویر: Reuters/N. Chitrakar
احمد آباد، بھارت
بھارتی شہر احمد آباد میں لاک ڈاؤن کو مؤثر بنانے کے لیے خصوصی پولیس کے دستے تعینات کر دیے گئے ہیں۔ یہ اہلکار سڑکوں پر گشت کرتے ہیں اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرتے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Dave
ماسکو، روس
روسی دارالحکومت ماسکو میں بھی جزوی لاک ڈاؤن کیا جا چکا ہے تاکہ نئے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد مل سکے۔ تاہم اس شہر میں بھی کئی لوگ اس لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرتے دیکھے گئے ہیں۔ ریڈ اسکوائر پر دو افراد کو پولیس کی پوچھ گچھ کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
تصویر: Reuters/M. Shemetov
بنکاک، تھائی لینڈ
تھائی لینڈ میں بھی لاک ڈاؤن کر دیا گیا ہے، جہاں گھروں سے باہر نکلنے والے افراد کو پولیس کے سامنے بیان دینا پڑتا ہے کہ ایسی کیا وجہ بنی کہ انہیں گھروں سے نکلنا پڑا۔ ضروری کام کے علاوہ بنکاک کی سڑکوں پر نکلنا قانونی طور پر بند کر دیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/J. Silva
ریو ڈی جینرو، برازیل
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر برازیل میں بھی پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں لیکن موسم گرما کے آغاز پر مشہور سیاحتی شہر ریو ڈی جینرو کے ساحلوں پر کچھ لوگ دھوپ سینکنے کی خاطر نکلتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو وہاں تعینات پولیس اہلکاروں کے سامنے جواب دینا پڑتا ہے۔
تصویر: Reuters/L. Landau
کیپ ٹاؤن، جنوبی افریقہ
جنوبی افریقہ میں بھی حکومت نے سختی سے کہا ہے کہ لوگ بلا ضرورت گھروں سے نہ نکلیں۔ اس صورت میں انہیں خصوصی سکیورٹی اہلکاروں کی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کیپ ٹاؤن میں پولیس اور فوج دونوں ہی لاک ڈاؤن کو موثر بنانے کی کوشش میں ہیں۔
تصویر: Reuters/M. Hutchings
ڈھاکا، بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش میں بھی سخت پابندیوں کے باوجود لوگ سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔ تاہم اگر ان کا ٹکراؤ پوليس سے ہو جائے تو انہیں وہیں سزا دی جاتی ہے۔ تاہم انسانی حقوق کے کارکن اس طرح کی سزاؤں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔