مسافروں سے بھری بھارتی ٹرین کا میلوں تک بغیر انجن کے سفر
8 اپریل 2018
بھارت میں ایک مسافر ریل گاڑی بغیر انجن کے میلوں تک سفر میں رہی۔ اس ٹرین میں کل قریب ایک ہزار مسافر سوار تھے اور پلیٹ فارم سے اچانک کھسک کر رفتار پکڑ لینے والی اس ٹرین کو ریلوے کارکنوں نے پٹری پر بہت سے پتھر رکھ کر روکا۔
اشتہار
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے اتوار آٹھ اپریل کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق یہ واقعہ، جو ایک واقعہ کم اور ناقابل یقین حادثہ زیادہ تھا، مشرقی بھارتی ریاست اوڈیشا میں ہفتہ سات اپریل کی رات پیش آیا۔
اس واقعے کے نتیجے میں ریل گاڑی میں سوار مسافروں کی تعداد قریب ایک ہزار ہونے کی وجہ سے اگر کوئی بڑا حادثہ پیش آ جاتا یا اس ٹرین کی بوگیاں الٹ جاتیں، تو بہت زیادہ جانی نقصان بھی ہو سکتا تھا۔ تاہم خوش قسمتی سے اسٹیشن سے کھسک جانے والی یہ ریل گاڑی کسی بھی حادثے سے محفوظ رہی اور کوئی ایک بھی مسافر زخمی نہ ہوا۔
بھارتی ریلوے کے ایک ترجمان نے بتایا کہ یہ مسافر ریل گاڑی مغربی ریاست گجرات سے مشرقی ریاست اوڈیشا جا رہی تھی اور راستے میں ایک اسٹیشن پر ریلوے کارکنوں نے اس ٹرین سے اس کا انجن علیحدہ کرتے ہوئے اتنی غفلت دکھائی کہ انجن تو پلیٹ فارم پر ہی کھڑا رہ گیا لیکن اس ٹرین کی 22 بوگیاں کھسکتے کھسکتے اس طرح حرکت میں آ گئیں کہ جلد ہی انہوں نے کافی رفتار بھی پکڑ لی تھی۔
اس دوران اس ریل گاڑی نے کم از کم بھی 12 کلومیٹر یا سات میل کا فاصلہ طے کیا اور اسے آخر کار اس طرح روکا گیا کہ ریلوے کے عملے کو ٹریک پر بہت سے پتھر رکھنا پڑے، جس کی وجہ سے یہ ٹرین ایک طاقت ور جھٹکے سے رک گئی اور کوئی جانی نقصان بھی نہ ہوا۔
ریلوے ترجمان جے پی مشرا نے بتایا، ’’اس واقعے کے نتیجے میں ایک تباہ کن اور انتہائی ہلاکت خیز حادثہ بھی پیش آ سکتا تھا، لیکن شکر ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ تاہم ہر کوئی اس وجہ سے شدید دھچکے کی کیفیت میں ہے کہ اس ٹرین کے انجن کو باقی ماندہ ریل گاڑی سے علیحدہ کرتے ہوئے متعلقہ کارکنوں نے بریکیں کیوں نہیں لگائی تھیں؟‘‘
برلن اور میونخ کے درمیان تیز رفتار ٹرین لائن کا افتتاح
پچیس سال کی مسلسل محنت شاقہ اور اربوں یورو کی لاگت سے آخری ’ جرمن یونیٹی ٹرانسمیشن پراجیکٹ‘ بالآخر مکمل ہو گیا ہے۔ جرمنی کے شہروں میونخ اور برلن کے درمیان ہائی سپیڈ ریلوے لائن کھول دی گئی ہے۔
تصویر: Deutsche Bahn/Foto: Detlev Wecke
ایک عظیم الشان منصوبہ
پچیس سال پہلے آغاز ہوئے میونخ برلن ٹرین لائن منصوبے کو بہت تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مثال کے طور پر یہ کہا گیا کہ یہ منصوبہ ٹیکس ادا کرنے والوں کی آمدنی ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ بہرحال اب ’ وی ڈی ای 8‘ نامی یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچ چکا ہے اور دس دسمبر سے اس ٹرین کے ذریعے سفر کا وقت دو گھنٹےکم ہو کر چار گھنٹے کے لگ بھگ ہو گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZB/J. Woitas
مسافروں کے لیے پر کشش
ڈوئچے بان کی کوشش ہے کہ ٹرین کے سفر کو مسافروں کے لیے بجٹ ایئر لائنوں اور بسوں کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ پر کشش بنایا جائے۔ فی الحال اس روٹ پر ٹرین ٹرانسپورٹ کا شیئر بیس فیصد ہے جسے ڈوئچے بان اسے پچاس فیصد تک بڑھانا چاہتی ہے۔
تصویر: Deutsche Bahn AG/Frank Barteld
پُل اور سرنگیں
میونخ اور برلن کے درمین نئے ٹرین روٹ کے لیے قریب ریل کے لیے تین سو جبکہ سڑکوں پر 170 پُل تعمیر کیے گئے۔ اس ریلوے ٹریک پر چلنے والی ٹرینیں سرنگوں سے 300 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Schutt
چند مزید جھلکیاں
اس ریلوے ٹریک پر دن میں تین مرتبہ انٹر سٹی ایکسپریس ٹرینیں دونوں سمتوں میں چلتی ہیں اور دونوں شہروں کے درمیان فاصلہ چار گھنٹے سے بھی کم وقت میں طے کر لیتی ہیں۔ ریگولر انٹر سٹی ایکسپریس ٹرینیں یہ فاصلہ ساڑھے چار گھنٹے میں طے کرتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مہنگے ٹکٹ
ریلوے ٹریک کی تعمیر پر آئی لاگت کو کسی نہ کسی شکل میں وصول کیا جائے گا۔ تیز رفتار ٹرینوں میں مسافروں کے لیے دلچسپی پیدا کرنا ایک حکمت عملی ہے اور ٹکٹ کی قیمتیں بڑھانا دوسری۔ ڈوئچے بان کے تخمینے کے مطابق میونخ اور برلن کے ایک ٹرپ کے لیے مسافروں کو فی کس 150 یورو خرچ کرنے ہوں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
لاکھوں یورو ماحول کے لیے بھی
ماحول کے لیے جرمنی کے وفاقی ادارے نے ریلوے ٹریک کی تعمیر سے ماحول پر پڑنے والے منفی اثرات پر تنقید کی ہے تاہم ڈوئچے بان کا دعوی ہے کہ اُس نے چار ہزار ہیکٹر رقبے پر دوبارہ کاشت کی ہے اور چھ لاکھ درخت لگائے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
زمین کے نیچے چلنے والی مال بردار ٹرینیں
نیورمبرگ مال برادر سرگرمیوں کا بڑا مرکز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیورمبرگ اور فیُورتھ کا درمیانی روٹ جرمنی کا مصروف ترین ٹرین ٹریک ہے۔ اب تیرہ کلو میٹر طویل کارگو ٹرین ٹریک نے اس مشکل کو خاصا آسان بنا دیا ہے۔
تصویر: DB AG
جہاز کے بجائے ٹرین کا سفر
اب ڈوئچے بان کے سامنے بڑا چیلنج لوگوں کو اس پر آمادہ کرنا ہے کہ وہ بسوں اور فضائی سفر کے بجائے ٹرینوں کا انتخاب کریں۔ اگر ٹرینیں اپنے نظام الاوقات کی پابندی کریں تو یہ کام کچھ ایسا مشکل بھی نہیں۔
تصویر: Deutsche Bahn/Foto: Detlev Wecke
8 تصاویر1 | 8
اس واقعے کی سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی فوٹیج کے مطابق بغیر انجن کے سفر کرنے والی ان بائیس بوگیوں میں مسافروں کو علم ہی نہیں تھا کہ ان کی گاڑی بغیر کسی انجن کے سفر میں ہے اور اس دوران بہت سے عام لوگوں نے چیخ چیخ کر مسافروں کو یہ بتانے کی کوشش بھی کی تھی کہ انہیں بوگیوں میں لگی ایمرجنسی بریکیں استعمال کرنا چاہییں۔
بھارت کا ریلوے نیٹ ورک زیادہ تر برطانوی نوآبادیاتی دور کا ہے، جسے بہت اچھی دیکھ بھال کی اشد ضرورت ہے۔ بھارت میں، جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے، روزانہ قریب نو ہزار مسافر گاڑیوں میں تقریباﹰ سوا دو کروڑ مسافر سفر کرتے ہیں۔
م م / ع ب / اے ایف پی
وہ ممالک جہاں ریلوے نظام موجود ہی نہیں
ریلوے نظام کسی بھی ملک میں ذرائع آمد و رفت کا ایک اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور اقتصادی استحکام اور ترقی کے لیے بھی بنیادی ضرورت قرار دیا جاتا ہے، مگر دنیا میں کئی ایسے ممالک بھی ہیں جہاں ریلوے نظام سرے سے موجود ہی نہیں۔