مسافروں کا کتنا فلائٹ ڈیٹا حکام کے پاس، عدالت نے حد طے کر دی
22 جون 2022
یورپی عدالت انصاف نے اس بات کی حد مقرر کر دی ہے کہ فضائی سفر کرنے والے افراد کا کتنا فلائٹ ڈیٹا سکیورٹی حکام کو مہیا کیا جا سکتا ہے۔ عدالت کے مطابق مسافروں کا صرف ’انتہائی لازمی‘ ڈیٹا ہی حکام کو فراہم کیا جانا چاہیے۔
اشتہار
یورپی عدالت انصاف (ای سی جے) نے ایک مقدمے میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ تجارتی فضائی کمپنیاں اس امر کی پابند تو ہیں اور رہیں گی کہ یورپی یونین کے رکن ممالک میں آنے اور وہاں سے یونین سے باہر کے ممالک کے لیے روانہ ہونے والے مسافروں کا فلائٹ ڈیٹا اس بلاک میں سکیورٹی اداروں کو مہیا کیا جائے۔ تاہم اس سے بھی زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے یورپی اداروں کو مسافروں سے متعلق ایسی نجی معلومات صرف 'انتہائی لازمی حد تک‘ ہی مہیا کی جائیں۔
اشتہار
وسیع پیمانے پر نگرانی، امتیازی برتاؤ کا خطرہ
یورپی عدالت انصاف نے منگل اکیس جون کے روز اپنے فیصلے میں کہا کہ اس امر کی بھی ایک حد ہونا چاہیے کہ یورپ کی طرف اور یورپ سے فضائی سفر کرنے والے مسافروں سے متعلق ان کی نجی معلومات اور سفری تفصیلات کتنی اور کس طرح حاصل کی جاتی ہیں اور انہیں کس حد تک سکیورٹی اداروں کو مہیا کیا جانا چاہیے۔
یہ مقدمہ شہری حقوق کے لیے کام کرنے والی کئی یورپی تنظیموں کی طرف سے مشترکہ طور پر دائر کیا گیا تھا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ یورپی یونین میں فضائی سفر کرنے والے باشندوں کے نجی کوائف جمع کرنے کا عمل اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اس کے ذریعے امتیازی برتاؤ اور شہریوں کی وسیع تر پیمانے پر نگرانی کا خطرہ بھی بہت زیادہ ہو چکا ہے۔
اب تک اجازت کس حد تک تھی؟
اس مقدمے کا تعلق بینادی طور پر یورپی یونین کے مسافروں کے ناموں سے متعلق ریکارڈ کا احاطہ کرنے والے اس ہدایت نامے سے تھا، جسے مختصراﹰ پی این آر کہتے ہیں۔ یہ یورپی ہدایت نامہ 2016ء میں جاری کیا گیا تھا۔ اس طریقہ کار کے تحت یونین کے رکن ممالک میں پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں کو یہ حق حاصل ہے کہ انہیں یونین میں آنے جانے والے تمام فضائی مسافروں کے ڈیٹا تک رسائی حاصل ہو۔
یہی نہیں بلکہ کچھ واقعات میں تو ایسے مسافروں کے بارے میں بھی یہی ڈیٹا جمع کر کے حکام کو فراہم کیا جاتا ہے، جو اس بلاک کے اندر ہی فضائی سفر کر رہے ہوں۔ اس طرح مسافروں کے کوائف جمع کرنے کا مقصد شدید نوعیت کے جرائم کی روک تھام کے علاوہ ممکنہ دہشت گردی کا قبل از وقت تدارک بھی بتایا جاتا ہے۔
یوں یورپی سکیورٹی اداروں کو کسی بھی مسافر کے بارے میں یہ سب معلومات مل جاتی ہیں کہ مثلاﹰ کسی مسافر کا نام کیا تھا، اس سے کس طرح رابطہ کیا جا سکتا ہے، اس کی فلائٹ کا نمبر کیا تھا، اس کے پاس سامان کے کتنے بیگ موجود تھے، اس نے اپنے سفر کے لیے مالی ادائیگی کس طرح کی اور کس کے ساتھ سفر کیا۔
ہوائی جہازوں کی نقل و حرکت کے بارے میں اعداد و شمار جمع کرنے والے ادارے او اے جی کے مطابق دنیا کے بیس مصروف ترین فضائی راستوں میں سے چودہ ایشیا میں ہیں۔ دنیا کے مصروف ترین فضائی راستوں پر ایک نظر
تصویر: imago/R. Wölk
۱۔ کوالالمپور تا سنگاپور
مارچ 2017 سے لے کر اس برس فروری کے اواخر تک اس کوالالمپور اور سنگاپور کے مابین 30537 پروازیں چلائی گئیں۔ ان پروازوں میں چار ملین سے زیادہ لوگوں نے سفر کیا۔
تصویر: AFP/Getty Images/F. Mohd
۲۔ ہانگ کانگ تا تائپے
دوسرے نمبر پر ہانگ کانگ سے تائیوانی دارالحکومت تائپے تک کا فضائی راستہ رہا۔ اس روٹ پر مذکورہ بارہ ماہ کے دوران 28887 مسافر ہوائی جہازوں نے سفر مکمل کیا۔ ان پروازوں میں ساڑھے چھ ملین مسافروں نے سفر کیا اور سفر کا اوسط دورانیہ ایک گھنٹہ سینتالیس منٹ رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. B. Tongo
۳۔ جکارتہ تا سنگاپور
انڈونیشیا کے دارالحکومت اور سنگاپور کے مابین فضائی راستہ دنیا کا تیسرا مصروف ترین روٹ قرار پایا جس پر ایک برس کے دوران 27304 پروازیں چلائی گئیں۔ سفر کا اوسط دورانیہ ایک گھنٹہ اڑتالیس منٹ رہا جب کہ مسافروں کی تعداد 4.6 ملین رہی۔
تصویر: Reuters/Beawiharta
۴۔ ہانگ کانگ تا شنگھائی
دنیا کے سب سے گنجان آباد چینی شہر شنگھائی کے پڈونگ ایئرپورٹ اور ہانگ کانگ کے مابین 21888 پروازیں چلائی گئیں۔ دنیا کے اس چوتھے مصروف ترین روٹ پر 3.8 ملین افراد نے سفر کیا اور پروازوں کا اوسط دورانیہ ڈھائی گھنٹے رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/BARBARA WALTON
۵۔ جکارتہ تا کوالالمپور
ایک برس کے دوران جکارتہ اور کوالالمپور کے مابین روٹ پر 19849 مسافر پروازیں چلائی گئیں جن میں 2.7 ملین افراد نے سفر کیا۔ پروازوں کا اوسط دورانیہ دو گھنٹے سے کچھ زائد رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Rasfan
۶۔ سیول تا اوساکا
جاپانی شہر اوساکا اور جنوبی کوریائی کے سب سے بڑے بین الاقوامی ایئرپورٹ سیول انشیون کے مابین مذکورہ عرصے کے دوران قریب ساڑھے سترہ ہزار پروازیں چلائی گئیں۔ 2.8 ملین مسافروں نے اوسطا ایک گھنٹہ چھیالیس منٹ ہوائی سفر کیا۔
تصویر: picture alliance/D. Kalker
۷۔ ہانگ کانگ تا سیول
ساتویں نمبر پر سیول کے انشیون ایئرپورٹ اور ہانگ کانگ کے مابین روٹ قرار پایا۔ اس فضائی راستے پر 17075 مسافر پروازوں نے سفر مکمل کیا جن میں 4.4 ملین افراد نے سفر کیا۔ اس روٹ پر پروازوں کا اوسط دورانیہ ساڑھے تین گھنٹے سے کچھ زائد رہا۔
تصویر: picture-alliance/maxppp/R. Lendrum
۸۔ نیویارک تا ٹورنٹو
نیویارک کے لاگوارڈیا ہوائی اڈے اور کینیڈین شہر ٹورنٹو کے مابین اس عرصے کے دوران 16956 پروازیں چلائی گئیں۔ ایک گھنٹہ چالیس منٹ اوسط دورانیے کے اس ہوائی سفر سے 1.6 ملین مسافر مستفید ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Beck
۱۰۔ ہانگ کانگ سے سنگاپور
ہانگ کانگ اور سنگاپور کے ہوائی اڈوں کے مابین مسافر پروازوں کی تعداد 15029 رہی جن میں 3.2 ملین افراد نے سفر کیا۔ دونوں شہروں کے مابین پروازوں کا اوسط دورانیہ تین گھنٹے اور اٹھاون منٹ رہا۔
تصویر: AFP/Getty Images/F. Mohd
۹۔ دبئی تا کویت
دبئی اور کویت کے مابین بارہ ماہ کے دوران 15332 پروازوں کے ساتھ یہ مشرق وسطیٰ کا مصروف ترین روٹ رہا۔ دونوں ہوائی اڈوں کے مابین 2.8 ملین افراد نے سفر کیا اور پروازوں کا اوسط دورانیہ ایک گھنٹہ باون منٹ رہا۔
تصویر: picture-alliance/ dpa
۱۴۔ ڈبلن سے لندن، یورپ کا مصروف ترین روٹ
یورپی ہوائی اڈوں میں سے کوئی بھی ٹاپ ٹین میں جگہ نہیں بنا پایا۔ یورپ میں سب سے مصروف ہوائی راستہ ڈبلن اور لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ کے مابین رہا جہاں ایک سال کے دوران 14390 پروازیں بھری گئیں۔ مستفید ہونے والے مسافروں کی تعداد 1.9 ملین اور پروازوں کا اوسط دورانیہ ایک گھنٹہ اٹھائیس منٹ رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. Ghirda
۱۶۔ نیویارک تا لندن – طویل ترین اور مصروف روٹ
بین البراعظمی ہوائی راستوں میں سب سے زیادہ مصروف روٹ لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ اور نیویارک کے جے ایف کینیڈی ایئرپورٹ کے مابین رہا۔ اس روٹ پر 13888 پروازیں چلائی گئیں جن میں تین ملین سے زائد افراد نے سفر کیا۔ ان پروازوں کا اوسط دورانیہ سات گھنٹے رہا۔
تصویر: Getty Images/D. Angerer
12 تصاویر1 | 12
ڈیٹا جمع کون کرتا ہے؟
یورپی یونین کے رکن ممالک میں مسافروں سے متعلق یہ ڈیٹا وہ پیسنجر انفارمیشن یونٹ جمع کرتے ہیں، جو تمام رکن ریاستوں نے اپنے ہاں قائم کر رکھے ہیں۔ بعد میں اسی ڈیٹا کو نہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مہیا کیا جاتا ہے بلکہ موازنہ کر کے یہ پتہ لگانے کی کوشش بھی کی جا تی ہے کہ مثلاﹰ کوئی مسافر کس حد تک مشکوک ہو سکتا ہے۔
یورپی کمیشن کے ہدایت نامے کے مطابق اس طرح یہ تمام معلومات یورپی پولیس ادارے یوروپول اور دیگر سکیورٹی ایجنسیوں کو مل جاتی ہیں۔
اب تک نافذ ضوابط کے مطابق اس طرح کا ڈیٹا شروع میں تو پورا محفوظ کیا جاتا ہے۔ مگر چھ ماہ بعد اسے 'پرسنل‘ سے 'ڈی پرسنلائزڈ‘ کر دیا جاتا ہے۔ پھر بھی یہ معلومات پانچ سال تک محفوط رکھی جا سکتی ہیں، جس کے بعد انہیں ڈیلیٹ کرنا لازمی ہوتا ہے۔
بحری جہاز تیار کرنے والی یورپی صنعت کو ایشیائی ملکوں کے اداروں کی طرف سے سخت مقابلے اور دباؤ کا سامنا ہے۔ لیکن بات اگر کروز شپ تیار کرنے کی ہو، تو یورپی برتری ابھی تک مسلمہ ہے، جیسے کہ یہ تصویریں بھی ظاہر کرتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Wagner
تیز رفتار ترقی کرنے والی صنعت
اس سال دنیا کے مختلف ملکوں کے پچیس ملین یا ڈھائی کروڑ سے زائد انسان کروز بحری جہازوں پر سمندری تعطیلات گزاریں گے۔ یہ تعداد 2016ء کے مقابلے میں ایک ملین زیادہ ہے۔ زیادہ مسافروں کا مطلب ہے زیادہ جہازوں کی ضرورت۔ اس سال دنیا بھر میں 448 کروز سپش کے عالمی بیڑے میں 26 نئے شپ شامل کیے جا رہے ہیں۔ ان میں چھوٹے دریاؤں کے لیے بنائے گئے شپ بھی شامل ہوں گے اور گہرے سمندروں کے لیے بہت بڑے بڑے بحری جہاز بھی۔
تصویر: cmm-marketing.com by Bianca Berger, Eus Straver and Marc Hansen
گہرے سمندروں کے لیے بارہ نئے کروز شپ
صرف اسی سال کروز بحری جہازوں کے عالمی بیڑے میں گہرے سمندروں میں سفر کرنے والے جو نئے کروز شپ شامل کیے جا رہے ہیں، ان کی تعداد 12 ہے۔ ان بحری جہازوں پر ایک وقت میں مجموعی طور پر 28 ہزار سے زیادہ مسافر سفر کر سکیں گے۔ بحری جہاز سازی کی صنعت کی تنظیم CLIA کے مطابق عالمی سطح پر ایسا ہر چوتھا نیا کروز شپ کسی نہ کسی جرمن شپ یارڈ یا اس کی کسی ذیلی کمپنی کا تیار کردہ ہو گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Marks
’اوویشن آف دا سیز‘ کا پہلا سمندری سفر
یورپی کمپنیوں کو بہت بڑے بڑے پرتعیش کروز شپ تیار کرنے کا عشروں کا تجربہ ہے۔ یہ کام بہت مہارت رکھنے والی کمپنیاں اپنے بہت ماہر اور تجربہ کار کارکنوں کے ذریعے کرتی ہیں۔ جرمنی میں فولاد کی صنعت کی نمائندہ ٹریڈ یونین آئی جی میٹل کا کہنا ہے کہ یورپی شپ بلڈنگ کمپنیوں کے پاس ایسے باصلاحیت انجینئر اور تکنیکی ماہر موجود ہیں، جو شپ بلڈنگ سے متعلق کسی بھی خواب کو حقیقت کا روپ دے سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Wagner
کروز شپ بلڈنگ پر تین یورپی شپ یارڈ چھائے ہوئے
دنیا بھر میں کروز شپ بلڈنگ کی صنعت پر تین بڑے یورپی شپ یارڈ چھائے ہوئے ہیں۔ ان میں اٹلی کی کمپنی فنکانتیئری، فرانس کی ایس ٹی ایکس اور جرمنی کے شہر پاپن برگ میں قائم مائر شپ یارڈ شامل ہیں۔ 2016ء کے اوائل تک اطالوی کمپنی Fincantieri کے پاس 24 نئے بحری جہازوں کی تیاری کے آرڈر تھے، جرمنی کے مائر شپ یارڈ (تصویر) کے پاس 21 اور فرانس کی STX کے پاس 12 نئے کروز بحری جہازوں کی تیاری کے آرڈر۔
تصویر: Meyer Werft
جاپانی کمپنی کی طرف سے مقابلہ
کروز شپ بلڈنگ کے شعبے میں سرگرم واحد غیر یورپی ادارہ جاپانی کمپنی مِٹسوبیشی ہیوی انڈسٹریز ہے، جس کے پاس 2016ء کے اوائل تک صرف ایک شپ کی تیاری کا آرڈر تھا۔ پھر مِٹسوبیشی نے کروز شپ بلڈنگ کا کام ترک کر دیا۔ جرمنی کا مائر شپ یارڈ 2013ء تک صرف ایک کروز کمپنی آئیڈا کے لیے سات بہت بڑے بڑے لگژری شپ تیار کر چکا تھا۔ آئیڈا نے 2011ء میں مِٹسوبیشی کو دو جہازوں کے آرڈر دیے لیکن یہ کام تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔
تصویر: AP
آئیڈا کی واپسی
2015ء میں آئیڈا نے تصدیق کر دی کہ جرمنی کا مائر شپ یارڈ اس کے لیے دو نئے بحری جہاز تیار کرے گا۔ ہر شپ میں ڈھائی ہزار سے زائد مسافروں کے لیے کیبن ہوں گے اور دونوں شپ مائع قدرتی گیس سے چلیں گے۔ ایک بحری جہاز 2018ء کے موسم خزاں میں آئیڈا کے حوالے کیا جائے گا اور دوسرا 2021ء کے موسم بہار میں۔ یہ جہاز ماحول کے لیے کم نقصان دہ ہوں گے۔
تصویر: picture alliance/dpa/I. Wagner
جدید ترین بحری جہازوں کے برے ماحولیاتی اثرات کم
آج کل اکثر جدید ترین شپ ایسے ڈیزائن کیے جاتے ہیں کہ وہ پٹرول یا ڈیزل کے بجائے مائع قدرتی گیس پر چلتے ہیں۔ یوں ماحول کے لیے ضرر رساں گیسوں کا اخراج کم ہوتا ہے۔ ان دنوں الیکٹرک موٹروں اور کم بجلی استعمال کرنے والی ایل ای ڈی لائٹوں کے استعمال پر بھی زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔ ان جہازوں کی تیاری میں کم وزن بلڈنگ مٹیریل کے استعمال سے توانائی کے شعبے میں ان کی کارکردگی کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/I. Wagner
بہت بڑے جہازوں میں سے بھی سب سے بڑا کروز شپ
’ہارمنی آف دا سیز‘ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا کروز شپ ہے۔ یہ 66 میٹر چوڑا ہے اور 362 میٹر لمبا۔ اس 16 منزلہ بحری جہاز میں 20 ڈائننگ رومز، 23 سوئمنگ پولز اور ایک پارک بھی جس میں 12 ہزار پودے لگے ہیں۔ اس جہاز پر 5,480 مسافروں اور عملے کے 2000 سے زائد ارکان کے لیے گنجائش ہے۔ اس شپ کو ’تیرتا ہوا شہر‘ بھی کہا جاتا ہے، جسے بنانے والی فرانسیسی کمپنی کو ایک بلین یورو سے زائد کی قیمت ادا کی گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F.Dubray
15 اپریل 1912ء ، کروز شپنگ کی تاریخ کا برا دن
’ٹائٹینک‘ 269 میٹر لمبا ایک نو منزلہ کروز شپ تھا۔، جس میں 2687 مسافروں اور عملے کے 860 ارکان کے لیے گنجائش تھی۔ اس کے پہلے اور آخری سفر کے وقت اس میں 2200 مسافر اور عملے کے سینکڑوں ارکان بھی سوار تھے۔ ان میں سے 1500 ہلاک ہو گئے تھے۔ ان سب کو بچایا جا سکتا تھا۔ لیکن تب کارپیتھیا نامی ایک اور کروز شپ صرف ایک گھنٹے اور بیس منٹ کی تاخیر سے سمندر میں اس جگہ پر پہنچا تھا، جہاں ٹائٹینک ڈوبا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کروز شپ بلڈنگ میں نیا ممکنہ حریف ملک چین
چین مستقبل میں یورپی کروز شپ بلڈنگ کمپنیوں کے لیے نیا کاروباری حریف ثابت ہو سکتا ہے۔ گزشتہ برس قریب ایک ملین چینی باشندوں نے کروز شپنگ کی۔ 2030ء تک یہ تعداد آٹھ ملین تک پہنچ سکتی ہے۔ جولائی 2015ء میں اطالوی ادارے Fincantieri نے چینی شپ بلڈنگ کارپوریشن (CSSC) کے ساتھ مل کر ایک نیا منصوبہ شروع کیا، جس کے تحت کروز شپنگ کی چینی منڈی کے لیے بحری جہاز تیار کیے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
10 تصاویر1 | 10
عدالت نے کیا فیصلہ سنایا؟
یورپی عدالت انصاف نے اپنے فیصلے میں کہا کہ یورپی حکام کو فضائی کمپنیوں کے ذریعے ایسا ڈیٹا جمع کرنے کی بنیادی طور پر اجازت تو ہونی چاہیے، تاہم اس عمل کو صرف 'انتہائی ناگزیر معلومات‘ کی حد تک محدود کیا جانا چاہیے، تاکہ شہریوں کے نجی کوائف اور ان کی ذاتی زندگی کے احترام سے متعلق یورپی قوانین کی کوئی خلاف ورزی نہ ہو۔
عدالت نے کہا، ''یورپی یونین کے پی این آر ہدایت نامے کے تحت شہریوں کے بنیادی حقوق کی کوئی نفی نہیں ہونا چاہیے۔ اس ہدایت نامے کی وجہ سے ملنے والے اختیارات کو صرف انتہائی لازمی حد تک ہی استعمال کیا جائے۔‘‘
ای سی جے کے مطابق، ''ستائیس رکنی یورپی یونین میں مسافروں کے فضائی سفر کا ڈیٹا صرف اس حد تک ہی پروسیس کیا جائے کہ اس کی مدد سے فوری یا مستقبل قریب میں دہشت گردی کے خطرات سے نمٹا جا سکے۔‘‘
یورپ کے دس متاثر کُن ریلوے اسٹیشن
ریل کا سفر تیز اور آرام دہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس سفر کے دوران کئی ریلوے اسٹیشن اپنی عمارت کی وجہ سے بھی مسافروں کو لبھاتے ہیں۔ یورپ کے کئی ریلوے اسٹیشن تاریخی ہونے کے ساتھ ساتھ جدید بھی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Kalker
اینٹورپ سینٹرل اسٹیشن: ہیروں کے شہر کا موتی
بیلجیم کا بندرگاہی شہر اینٹورپ ’ہیروں کی عالمی منڈی‘ کا درجہ رکھتا ہے۔ اس کا ریلوے اسٹیشن تعمیراتی شاہکار ہے۔ انتہائی بڑے اسٹیشن کو عام طور پر ’ریلوے کیتھڈرل‘ کہا جاتا ہے۔ گزشتہ صدی کے اوائل میں تعمیر کردہ یہ اسٹیشن سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتا ہے۔
بیلجیم ہی کے ریلوے اسٹیشن لیئیش گیئلمنزکی عمارت بھی فن تعمیر کا شاہکار ہے۔ اس کی عمارت اسٹیل، سفید کنکریٹ اور شیشے سے تعیمر کی گئی ہے۔ روشنی میں یہ ایک اور ہی طرح کا شاہکار دکھائی دیتا ہے۔ روزانہ اس اسٹیشن پر اوسطاً پانچ سو ریل گاڑیاں رکتی ہیں اور آگے بڑھ جاتی ہیں۔ یہ شہر کے مرکز سے قدرے باہر ہے لیکن ایک اہم یورپی جنکشن ہے۔ اس کا ڈیزائن مشہور ہسپانوی ماہر تعمیرات سنتیاگو کالاتراوا نے تیار کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Galuschka
ایمسٹرڈم سینٹرل اسٹیشن: لکڑی کے تختوں پر قائم اسٹیشن
ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈیم کا ریلوے اسٹیشن ایک مصنوعی جزیرے پر تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کی بنیاد آٹھ ہزار چھ سو ستاسی لکڑی کے بھاری تختوں پر رکھی گئی ہے۔ یہ عمارت گوتھک طرز تعمیر کے دوسرے عہد کا شاہکار ہے۔ اسے گرجا گھروں کی ڈیزائننگ کرنے والے ڈچ ماہرِ تعمیرات پیٹروس کیوپرز نے تیار کیا تھا۔ اس ریلوے اسٹیشن کی عمارت قرونِ وسطیٰ کے گرجا گھر جیسی دکھتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/A. Rose
گار ڈی لیوں: دنیا کا پرشکوہ ریلوے اسٹیشن
کہا جاتا ہے کہ فرانسیسی شہر لیوں کے ریلوے اسٹیشن کو دنیا کا سب سے پرشکوہ اور حسین عمارت قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کا اندرونی حصہ بھی انتہائی دلآویز ہے۔ اسی طرح ریلوے اسٹیشن کی دوسری منزل پر خوبصورت ریستوران بھی مسافروں کو سکون بخشتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/imagebroker/S. Randebrock
ہیلسنکی سینٹرل اسٹیشن
فن لینڈ کے دارالحکومت ہیلسنکی کے ریلوے اسٹیشن کو ’ٹیلی وژن کا ایک ستارہ‘ خیال کیا جاتا ہے۔ اس کی عمارت کے باہر چار بڑے مجسمے نصب ہیں اور یہ مختلف اشتہاروں کی عکاسی کے لیے خاص طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس ریلوے اسٹیشن کی عمارت کو فن لینڈ کے گرینائٹ پتھر سے تعمیر کیا گیا ہے۔ یہ فن لینڈ میں تعمیراتی شاہکار تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Photoshot
سینٹ پینکراس: وکٹورین شاہکار
برطانوی دارالحکومت لندن کا ریلوے اسٹیشن سینٹ پینکراس انٹرنیشنل ایک محل جیسا ہے۔ اس کے اندر بڑے ہال اورانواع و اقسام کی دکانیں و ریستوران مسافروں کے لیے خاص کشش رکھتے ہیں۔ اس اسٹیشن پر کئی ریل گاڑیاں اپنی منزل کی جانب سفر شروع کرتی ہیں۔ اس ریلوے اسٹیشن کو ’ہیری پوٹر سیریز‘ میں بھی فلمایا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/Foto Beck
لائپزش: اہم یورپی ریلوے اسیشن
جرمن شہر لائپزش کے ریلوے اسٹیشن کی عمارت باہر سے تقریباً تین سو میٹر چوڑی ہے۔ اس کے تیئیس پلیٹ فارم ہیں۔ یہ اسٹیشن اسی ہزار مربع میٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ اسے یورپ کا سب سے بڑا ریلوے اسٹیشن بھی کہا جا سکتا ہے جو کئی ریل گاڑیوں کی منزل ہے۔ اس اسٹیشن پر ڈیڑھ سو کے قریب دکانیں اور ریستوران ہیں۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/M. Nitzschke
بوڈا پیشٹ کلیٹی (مشرقی) اسٹیشن
ہنگری کے دارالحکومت بوڈا پیشٹ کے مشرقی ریلوے اسٹیشن کو جدید ترین تصور کیا جاتا ہے۔ اسے سن 1884 میں کھولا گیا تھا۔ یہ اپنی سہولیات اور کنٹرول کی وجہ سے جدید ترین خیال کیا گیا تھا۔ آج کل اس کی عمارت کو دیکھنے کے لیے سیاح خاص طور پر جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/chromorange/F. Perc
میڈرڈ اتوچا: جنگل میں انتظار گاہ
ہسپانوی دارالحکومت میڈرڈ کا اتوچا ریلوے اسٹیشن سن 1888 سے سن 1892 کے درمیانی عرصے میں تعمیر کیا گیا۔ یہ میڈرڈ کے دو بڑے اسٹیشنوں میں سے ایک ہے۔ اس کے اندر مسافروں کی انتظار گاہ ایک وسیع جنگلاتی باغ جیسی ہے۔ اس باغ میں کچھوے اور سات ہزار پودے ہیں۔ اس کی بلند چھت شیشے کے تختوں سے بنائی گئی ہے
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/B. Boensch
لزبن کا روسیو اسٹیشن
کسی پرشکوہ ریلوے اسٹیشن کی عمارت کا وسیع و عرض ہونا ضروری نہیں۔ پرتگالی دارالحکومت کا روسیو اسٹیشن شہر کے مرکز میں واقع ہے۔ یہ قدرے چھوٹا اسٹیشن ہے لیکن پھر بھی انتہائی پرشکوہ ہے۔ اس میں داخلی دروازے گھوڑے کے پاؤں جیسے دکھائی دیتے ہیں۔ اسے سن 1880 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ اپنے طرز تعمیر میں پرتگالی تشخص رکھتا ہے۔
یورپی عدالت انصاف کا یہ فیصلہ اس حوالے سے اپنی نوعیت کا اولین اور تاریخی فیصلہ بھی ہے کہ اس کے ذریعے پہلی مرتبہ اس بلاک میں مصنوعی ذہانت کے استعمال کو بھی محدود کر دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس فیصلے کو مستقبل میں ان یا دیگر مقدمات میں بھی مثال کے طور پر پیش کیا جا سکے گا، جن کا کسی نہ کسی طرح تعلق مصنوعی ذہانت یا آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے استعمال سے ہو۔
اس مقدمے کی محرک تنظیموں میں سے ایک بڑی تنظیم بیلجیم کی ہیومن رائٹس لیگ (LDH) نے اپنےردعمل میں کہا کہ اس نے یہ مقدمہ اس حوالے سے بیلجیم میں 2017ء میں متعارف کرائے جانے والے ضوابط کے خلاف دائر کیا تھا اور مقصد عام شہریوں کے نجی کوائف اور ذاتی زندگی کا تحفظ تھا۔
ایل ڈی ایچ کے مطابق عدالت نے اس طریقہ کار کو پوری طرح غیر قانونی تو قرار نہیں دیا، تاہم سکیورٹی اداروں کو مہیا کی جانے والی مسافروں کی نجی معلومات کا محدود کیا جانا یورپی یونین میں عام شہریوں کے ذاتی کوائف کے تحفظ کے بنیادی حق کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے۔
م م / ک م (روئٹرز، ڈی پی اے)
ایئر ہوسٹس ہونا کوئی آسان کام تھوڑے ہی ہے
خوبصورت، نازُک اندام اور نرم گفتار۔ ایسی ہی گلیمرس تصویر ابھرتی ہے نا کسی ایئر ہوسٹس کی؟ بھارت کی سرکاری فضائی کمپنی ایئر انڈیا میں ایئر ہوسٹوں کے حد سے زیادہ وزن پر خوب ہنگامہ مچا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پرواز پر ساتھ جانے کی ممانعت
ایک سال پہلے ایئر انڈیا نے اپنے کیبن عملے کے ساڑھے تین ہزار اہلکاروں میں سے تقریباً 600 کو چھ ماہ کے اندر اندر اپنا وزن کم کرنے کی ہدایت کی تھی۔ ان میں سے تقریباً 130 کو زیادہ وزن کا حامل ہونے کی بناء پر طیاروں کے اندر ڈیوٹی سے ہٹا لیا گیا ہے۔ اب اُنہیں یا تو دیگر دفتری قسم کی ذمے داریاں سونپی جائیں گی یا پھر قبل از وقت ریٹائر کر دیا جائے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جسمانی طور پر فِٹ ہونا انتہائی اہم
کیبن عملے کے جسمانی طور پر فِٹ نہ ہونے کی صورت میں کسی ایمرجنسی کی صورت میں انہیں پرواز کے دوران اپنی ڈیوٹی ٹھیک طریقے سے ادا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے اور یوں مسافروں کی سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
تصویر: starush/Fotolia
باڈی ماس انڈیکس کا پیمانہ
شہری ہوا بازی کا ڈائریکٹوریٹ جنرل کیبن عملے کے لیے باڈی ماس انڈیکس اور صحت سے متعلق دیگر معیارات کا تعین کرتا ہے۔ اگر فلائٹ اٹینڈنٹ کے وزن اور قد کے درمیان تناسب طے کردہ پیمانے کے مطابق نہ رہے تو اسے پرواز کے ساتھ جانے سے منع کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Raveendran
موٹاپا ڈیوٹی کی راہ میں رکاوٹ
ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ ایئر انڈیا نے اپنے کیبن عملے کے کسی رکن کو موٹاپے کی وجہ سے ہوائی جہاز کی ڈیوٹی سے ہٹا دیا ہو۔ 2009ء میں بھی پرواز کے دوران ڈیوٹی انجام دینے والے ایسے دس اٹینڈنٹس کو کیبن ڈیوٹی سے ہٹا دیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Berry
پرواز کے دوران ہمہ وقت چوکس
چین کی اس ایئر لائن میں ایک ایئر ہوسٹس سیٹ بیلٹ باندھنے کا طریقہ بتانے کے ساتھ ساتھ سفر کے دوران سلامتی سے متعلق کئی دیگر معلومات بھی مسافروں کو دے رہی ہے۔ سستے ہوائی ٹکٹ والی ایئر لائنز میں بھی مفت کھانا بھلے ہی نہ ملے لیکن کیبن عملہ تو ہوتا ہی ہے۔
تصویر: Getty Images/China Photos
نیند کی کمی اور گھر سے دوری
طویل فاصلے کے ہوائی سفر میں کیبن عملے کو بھی کافی طویل شفٹیں کرنا پڑتی ہیں۔ اٹینڈنٹس کو نیند کی کمی کے علاوہ کئی دنوں تک گھر سے دور رہنا پڑتا ہے۔ کئی بار ہوائی جہاز میں ہی عملے کو کسی مسافر کی طبیعت خراب ہونے جیسی میڈیکل ایمرجنسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
مسافروں کی مدد کے لیے کمر بستہ
مسافروں کو پرواز سے متعلق حفاظتی معلومات دینا اور پورے سفر کے دوران ان کی سہولت کا خیال رکھنا ان کی اہم ذمہ داریاں ہیں۔ اس کے علاوہ فلائٹ اٹینڈنٹس کو ہر وقت ایمرجنسی میں فوری معلومات فراہم کرنے کے لیے بھی تیار رہنا پڑتا ہے۔
تصویر: picture alliance/abaca/F. Mario
چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ
مسافروں کے لیے ہمیشہ تر و تازہ اور مسکرانے والی ایئر ہوسٹسوں کو تمام تر مشکلات اور مسائل کے باوجود اپنی خوبصورتی، صحت اور فٹنس کا اچھی طرح سے خیال رکھنا ہوتا ہے۔