1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتپاکستان

فرقہ وارانہ تشدد کے بعد صوبائی حکومتی وفد کرم میں

23 نومبر 2024

خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں فرقہ وارانہ تشدد کے نتیجے میں تیس سے زائد افراد ہلاک جبکہ تقریبا دو درجن زخمی ہو گئے ہیں۔ فریقین جدید اسلحہ استعمال کر رہے ہیں۔ قیام امن کی خاطر صوبائی حکومت کا ایک وفد کرم پہنچ گیا ہے۔

Pakistan | Protest in Kurram
کرم کے کچھ علاقوں میں شروع ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات میں بھاری اسلحہ استعمال کیا جا رہا ہےتصویر: REUTERS

ضلع کرم کے ایک مقامی پولیس اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ لوئر کرم میں شروع ہونے والی فرقہ وارانہ لڑائی کے نتیجے میں اب تک کم از کم 37 افراد ہلاک جبکہ پچیس زخمی ہو گئے ہیں۔ تاہم مقامی میڈیا نے سرکاری اعدادوشمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر شروع ہونے والے تشدد کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد اٹھارہ ہے۔ 

مقامی ذرائع نے بتایا ہے کہ لوئر کرم کے کم ازکم تین مقامات پر شیعہ اور سنی مسلح گروپوں کے مابین تصادم جاری ہے۔ اس لڑائی میں بھاری اسلحہ استعمال کیے جانے کی اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں۔ خبریں ہیں کہ تشدد کی وجہ سے لوگوں نے نقل مکانی بھی شروع کر دی ہے۔

ضلع کرم میں یہ نئی کشیدگی ایک ایسے وقت میں شروع ہوئی جب جمعرات کے دن وہاں ایک مسافر قافلے پر حملہ کیا گیا تھا، جس میں کم از کم 45 افراد ہلاک ہوئے۔ ان کا تعلق پاڑہ چنار اور اہل تشیع کمیونٹی سے تھا۔

کرم پاکستان کا ایسا قبائلی ضلع ہے، جہاں شیعہ آبادی اکثریت میں ہے۔ ماضی میں بھی شیعہ افراد کو چن چن کر ہلاک کیا جا چکا ہے۔

پاکستان کی دو سو چالیس ملین آبادی میں شیعہ آبادی کا تناسب تقریبا پندرہ فیصد بنتا ہے۔ ان دونوں فرقوں میں ایک تاریخی دشمنی پائی جاتی ہے تاہم پاکستان میں یہ دونوں بقائے باہمی اور عمومی طور پر پرامن طریقے سے ہی رہتے ہیں۔

ضلع کرم میں پرتشدد واقعات کے بعد لاہور سمیت پاکستان کے متعدد شہروں میں احتجاج کیا گیا۔تصویر: Arif Ali/AFP

شہری اور سرکاری املاک پر حملے

ایک مقامی پولیس اہلکار نے اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ مسافر قافلے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تدفین کے بعد جمعے کی شام مسلح افراد نے بگن اور باچا کوٹ کے علاقوں میں لوٹ مار شروع کر دی اور شہری و حکومتی املاک کو نذر آتش بھی کیا۔ بعد ازاں بگن اور علیزئی قبائل کے مابین جھڑپیں شروع ہو گئیں۔

اس پولیس اہلکار نے مزید بتایا کہ دونوں فریقین خودکار اور جدید اسلحے کا استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ضلع کرم میں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کی خاطر حکومتی سطح پر کوششیں جاری ہیں۔

کرم میں مسافر قافلے پر کیے گئے حملے کی ذمہ داری ابھی تک کسی نے قبول نہیں کی ہے۔ جب کہ پولیس نے بھی اس لرزہ خیز کارروائی کا کوئی محرک بیان نہیں کیا ہے۔

فرقہ وارانہ تشدد شروع ہونے کے بعد صوبائی حکومت نے ایک وفد کرم روانہ کیا ہے، جو قیام امن کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اطلاعات ہیں کہ جب یہ وفد ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے کرم پہنچا تو مسلح افراد نے ہیلی کاپٹر پر بھی فائرنگ کر دی۔ تاہم کسی نقصان کی اطلاع نہیں ملی ہے۔ ادھر صوبائی حکومت نے فائرنگ کی ان خبروں کی تردید کی ہے۔

کرم ضلع میں جولائی سے اب تک ایسے ہی فرقہ وارانہ حملوں کے نتیجے میں درجنوں افراد مارے جا چکے ہیں۔ اُس وقت کرم میں زمین سے متعلق تنازعات نے جنم لیا تھا، جو بعد ازاں فرقہ وارایت کا رنگ اختیار کر گئے تھے۔

ع ب/ ش ر (اے ایف پی، روئٹرز)

ہزارہ کمیونٹی کا احتجاج، تدفین سے انکار

03:50

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں