مساوی حقوق: صرف عورتوں ہی نہیں مردوں کا بھی حق
22 اگست 2015مردوں کی طرف سے عام طور پر یہی باور کرایا جاتا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں خواتین کا جتنا زیادہ احترام کیا جاتا ہے اس میں خاص طور پر خواتین کے لیے ایسی کوئی جدوجہد غیر ضروری ہو جاتی ہے۔
تاہم پاکستان میں عورتوں کی بہبود کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم عورت فاؤنڈیشن کی ڈائریکٹر مہناز رحمان کا مردوں کے اس شکوہ کے جواب میں کہنا ہے کہ عورتوں کا احترام تو ہمارے مشرقی روایات کا حصہ ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس معاشرے میں عورت کو برابر کے حقوق دیے جاتے ہیں، ’’مرد عورتوں کا احترام اس لحاظ سے تو کرتے ہیں کہ انہیں اپنی سیٹ دے دی یا گاڑی کا ٹائر بدل دیا یا جگہ دے دی یا وزن اٹھا لیا، لیکن مجموعی طورپر مردانہ غلبے والے اس معاشرے میں خواتین پر جو ظلم ہوتے ہیں وہ تو اپنی جگہ ہیں جس کے لیے معاشرے کی سوچ بدلنا ضروری ہے۔ خواتین کو فوقیت یا اہمیت دینے کی باتیں تو ظاہری ہیں۔ اصل معاشرہ تو مردوں کا ہے جہاں وہ حاکم ہیں۔‘‘
دوسری طرف مردوں کو اس بات کا بھی شکوہ رہتا ہے کہ اُلٹا انہیں خواتین کے مقابلے میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ٹی وی انڈسٹری سے منسلک ایک اداکار اور ہدایتکار رضا زیدی کہتے ہیں کہ فیلڈ چاہے کوئی بھی ہو، مردوں کو بھی اکثر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ’’اگر میں صرف اپنی انڈسٹری کے حوالے سے بات کروں تو آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ خواتین کو نہ صرف مرد حضرات سے زیادہ تنخواہ دی جا رہی ہوتی ہے بلکہ ان کو مراعات بھی زیادہ ملتی ہیں۔ یہ امتیازی سلوک نہیں تو اور کیا ہے۔‘‘
ایک نجی کمپنی میں کام کرنے والے نوجوان اکبر علی کا کہنا ہے کہ امتیازی سلوک کو صرف خواتین کے ساتھ منسوب کرنا درست نہیں، ’’میں اور میری کولیگ ایک ہی تعلیمی ادارے سے پڑھ کر ایک ہی ادارے میں نوکری کر رہے ہیں۔ ہماری جاب پوزیشن اور تنخواہ بھی برابر ہے لیکن ان کو ملنے والی دیگر مراعات مجھ سے زیادہ ہیں۔ اسی طرح خواتین کی چھٹیوں کی درخواست ہو یا کوئی اور عذر، فوقیت ہمیشہ خواتین کو ہی دی جاتی ہے۔ اگر مساوی حقوق کی بات کی جاتی ہے تو ان سب میں مساوات کیوں نہیں؟ اکثر جگہ خواتین کو پھر کیوں ترجیح دی جاتی ہے؟‘‘
اسی نظریے کو تبدیل کرنے کی ہی کوشش ’ہی فار شی‘ کے نام سے ایک عالمی مہم کر رہی ہے، جس نے پاکستان میں اس حوالے سے آگاہی کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ اس مہم کا مقصد عوام خصوصاً نوجوانوں کو اس بات کی جانب مائل کرنا ہے کہ وہ خواتین کے حقوق کی جدوجہد میں ان کا ساتھ دیں۔
اس مہم کا آغاز گزشتہ برس ستمبر میں اس وقت ہوا جب اقوام متحدہ کی خواتین کی تنظیم کی خیر سگالی سفیر، برطانوی اداکارہ ایما واٹسن نے خواتین کے لیے صنفی مساوات کے حق کی مہم میں مردوں کو اہم کردار ادا کرنے کی پیشکش کی۔ عالمی سطح پر اس خیال کو خاصی پزیرائی ملی اور اسے کئی ممالک میں روشناس کروایا گیا۔ اب اس مہم کا پاکستان میں بھی باقاعدہ آغاز ہو چکا ہے۔
اقوام متحدہ کے تعاون سے پاکستان میں اس مہم کو مختلف پیشوں سے وابستہ افراد اور سول سوسائٹی کے نوجوان آگے بڑھا رہے ہیں اور اس کا پیغام عام کر رہے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ اس مہم میں کوشش کی جا رہی ہے کہ مساوی حقوق کی جدوجہد میں کسی ایک صنف کی اجارہ داری کی بات نہ کی جائے بلکہ دونوں اصناف مل کر مساوی حقوق کے لیے آواز بلند کریں۔
نعمان قادری، اویس خالد، مارینہ مری، شازیہ شاہین، حسن واصف، یحییٰ اقبال اور عباد احمد نامی نوجوان پاکستان میں اس مہم کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے نعمان قادری نے بتایا پاکستان میں اس مہم کو ابتدائی طور پر تعلیمی اداروں میں صنفی مساوات کے پیغام کے ساتھ متعارف کروایا گیا ہے۔
اویس خالد کے مطابق ، ’’ہمارا مقصد ہے کہ ایک صنف کو دوسری صنف کے ساتھ لا کر کھڑا کیا جائے۔ ہمارے مشن کا مقصد کسی صنف کو کمتر یا بالاتر ثابت کرنا نہیں ہے بلکہ انہیں مل کر ایک دوسرے کا ساتھ دینے کی جانب لانا ہے تب ہی صنفی مساوات کی بات کی جا سکتی ہے۔‘‘
پاکستان میں ’ہی فار شی‘ سے قبل کئی تنظیمیں وقتاً وفوقتاً ایسی تحریکیں چلاتی رہتی ہیں جو مساوی حقوق پر بات کرتی ہیں۔ ہی فار شی آخر ایسا کیا نیا خیال لے کر کامیابی کی امید رکھتی ہے؟ اس بارے میں نعمان قادری کا کہنا تھا، ’’اب تک ملک میں جتنی بھی مہمیں چلائی گئیں ان کے لیے یا تو صرف خواتین نے جدوجہد کی یا پھر صرف خواتین کی جدوجہد کو محور بنایا گیا۔ ہم نے دونوں کے برابری کے حقوق اور ان کے لیے برابری کی کوشش کو اہمیت دی ہے۔ اس کے علاوہ اب تک ہوتا یہ آیا ہے کہ ایسی تحریکیں غیر سرکاری تنظیمیں چلاتی رہتی ہیں۔ آپ ان کے کسی پراجیکٹ کا حصہ تو بن سکتے ہیں لیکن اس آرگنائزیشن کا نہیں۔ ہم نے ہی فار شی کے ذریعے لوگوں کو اپنی آرگنائزیشن کا حصہ بنایا ہے۔ جو بھی ہمارا ہم خیال ہے اور اس کے ذہن میں معاشرے میں اس خیال کو مزید بہتر طریقے سے پھیلانے کا کوئی آئیڈیا ہے، ہم اس کو اپنے ساتھ شامل کرتے ہیں۔‘‘
یہ مہم نوجوانوں میں خاصی مقبول ہو رہی ہے اور نعمان کے مطابق اس کے تحت اب تک ہزاروں نوجوان اس مہم کا رضاکارانہ طور پر حصہ بن چکے ہیں، ’’ہم نے اپنی مہم میں کوشش کی ہے کہ محض ڈائیلاگ جیسے روایتی طریقوں پر انحصار کرنے کی بجائے لوگوں کو تخلیقی انداز مثلاً تھیئٹر، میوزک، ڈانس، تصاویر اور ویڈیوز کے ذریعے لوگوں کو اس خیال کی جانب لائیں۔‘‘