جرمن ارکان پارلیمان اسٹیفن کوئٹر اور ڈیٹمار فریڈہوف پاکستان کے دورے پر ہیں۔ ان کا یہ دورہ سرکاری سطح کا ہے اور افغانستان کی صورتحال کے علاوہ دیگر کئی اہم موضوعات پر ان کی توجہ مرکوز رہی۔
اشتہار
پاکستان کے دورے پر پہنچے ہوئے جرمن ارکان پارلیمان اسٹیفن کوئٹر اور ڈیٹمار فریڈہوف نے آج جمعہ 29 جولائی کو کراچی میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی قبر پر پھول چڑھائے۔
اپنے دورہ پاکستان کے حوالے سے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان خطے کا ایک اہم ملک ہے اور اس دورے کے دوران انہوں نے کئی اہم معاملات پر حکام سے بات چیت کی ہے: ''جرمنی اور پاکستان کے روابط کو مضبوط کرنے کے علاوہ ہمیں افغانستان کی صورتحال میں بھی دلچسپی ہے کیونکہ وہاں کی عوام کو اس وقت انتہائی تشویشناک صورتحال کا سامنا ہے اور افغانستان کی صورتحال کا اثر براہ راست پاکستان پر پڑتا ہے۔‘‘
گزشتہ برس 15 اگست کو افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد وہاں سے متعدد بین الاقوامی اداروں نے اپنے مقامی ملازمین کو افغانستان سے باہر نکالا تھا اور ان میں ڈوئچے ویلے بھی شامل تھا۔ فریڈہوف نے ڈی ڈبلیو کی ان کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ انہیں گزشتہ برس کے دوران ہونے والی ان تمام کوششوں کا بخوبی کا علم ہے، ''ہم جمعے کی علی الصبح دو بجے اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر موجود تھے اور ہم نے دیکھا کہ کس طرح 221 افغان شہری جہاز میں سوار ہو کر جرمنی کے لیے روانہ ہوئے۔ ہم افغان شہریوں کی ہر طرح سے مدد کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
اسٹیفن کوئٹر کے بقول کراچی کی کئی فیکڑیوں میں جرمن کمپنیوں کے لیے مصنوعات تیار کی جاتی ہیں اور انہوں نے ایک ایسی فیکڑی کا دورہ بھی کیا ہے، ''تحفظ ماحول، ملازمین کی فلاح وبہبود اور منصفانہ اجرت جیسے موضوعات ہمارے لیے اہم ہیں اور انہی پر ہم نے توجہ مرکوز کی۔‘‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے اس فیکٹری کا دورہ کیا ہے، جو کک کے لیے ملبوسات تیار کرتی تھی تو ان کو جواب نفی میں تھا۔
کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں واقع ملبوسات تیار کرنے والی ایک فیکڑی میں آگ لگنے کے سبب کم از کم 260 مزدور ہلاک ہوئے تھے۔ یہ واقعہ ستمبر 2012ء کا ہے۔ بلدیہ ٹاؤن کی اس فیکڑی میں جرمن کمپنی کِک کے لیے کپڑے تیار کیے جاتے تھے۔
کابل سے انخلا کا مشن، تصویروں میں
افغان طالبان کے پندرہ اگست کو ملکی دارالحکومت پر قبضے کے بعد سے ایک لاکھ سے زائد افراد کو کابل سے نکالا جا چکا ہے۔ لیکن اس مشن کے بعد بھی لاکھوں افغان شہری طالبان کے رحم و کرم پر ہیں۔
تصویر: U.S. Air Force/Getty Images
سفارتی عملے کا امریکی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے انخلا
جیسے ہی افغان طالبان نے کابل کا محاصرہ کیا، شہر میں واقع امریکی سفارت خانے سے اس کا عملہ نکال لیا گیا۔ یہ تصویر پندرہ اگست کی ہے، جب امریکی چینوک ہیلی کاپٹر ملکی سفارتی عملے کے انخلا کے لیے روانہ کیے گئے۔ جرمنی نے بھی انخلا کے اس مشن کے لیے ہیلی کاپٹر اور چھوٹے طیارے روانہ کیے تھے۔
تصویر: Wakil Kohsar/AFP/Getty Images
کابل ایئر پورٹ تک پہنچنے کی دوڑ
سولہ اگست کو کابل کے حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر مقامی لوگوں کا جم غفیر دیکھا گیا۔ یہ لوگ طالبان کے خوف سے ملک سے فرار ہونے کی کوشش میں ایئر پورٹ کی حدود میں داخل ہونا چاہتے تھے۔ ان افغان باشندوں کا کہنا تھا کہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کو جان و مال کے خطرات لاحق ہو جائیں گے۔
تصویر: Reuters
کابل سے نکلنے کے لیے بے چین
یہ ڈرامائی منظر بھی کابل ایئر پورٹ کا ہے، جہاں لوگوں کا ہجوم ایک امریکی فوجی طیارے میں سوار ہونے کی ناکام کوششوں میں ہے۔ جہاز میں داخل ہونا تو ممکن نہیں تھا، لیکن متعدد افراد اس جہاز کے لینڈنگ گیئر اور پہیوں سے لپٹ گئے کہ شاید اسی طرح وہ کابل سے نکلنے میں کامیاب ہو جائیں۔ جب جہاز اڑا تو ان میں سے کئی افراد زمین گر کر ہلاک بھی ہو گئے۔
تصویر: AP Photo/picture alliance
دو دہائیوں بعد طالبان کی واپسی
افغانستان میں امریکی اتحادی فوجی مشن کے خاتمے سے قبل ہی افغان طالبان نے ملک بھر کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اب کابل کی سڑکوں پر بھی یہ جنگجو سکیورٹی کے پیش نظر گشت کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ لوگوں کو خوف ہے طالبان اپنے وعدوں کے برخلاف انتقامی کارروائیاں کریں گے۔
تصویر: Hoshang Hashimi/AFP
تحفظ کی تمنا
افغان لوگوں کے ہاتھ جو بھی لگا، انہوں نے سمیٹ کر کابل سے فرار کی کوشش شروع کر دی۔ ان کا رخ ایئر پورٹ کی طرف ہی تھا۔ جرمن ایئر فورس کا یہ طیارہ افغان باشندوں کو لے کر ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند پہنچا۔ انخلا کے مشن میں شریک زیادہ تر فوجی طیارے لوگوں کو لے کر تاشقند، دوحہ یا اسلام آباد اترے، جہاں سے ان افراد کو مسافر پروازوں کے ذریعے ان کی حتمی منزلوں تک لے جایا جائے گا۔
تصویر: Marc Tessensohn/Bundeswehr/Reuters
مدد کی کوشش
جرمنی میں امریکا کی رمشٹائن ایئر بیس پر پہنچنے والے افغان مہاجرین کو بنیادی اشیائے ضرورت کے اشد ضرورت تھی۔ اس ایئر بیس نے ایسے ہزاروں افغان شہریوں کو شیلٹر فراہم کیا جبکہ خوراک اور دیگر بنیادی ایشا بھی۔ لیکن ان کی آباد کاری کا معاملہ آسان نہیں ہو گا۔
تصویر: Airman Edgar Grimaldo/AP/picture alliance
طالبان کے دور میں زندگی
طالبان کی عملداری میں افغانستان کو چلانا آسان نہیں ہو گا۔ اب تک طالبان حکومت سازی کے کسی فارمولے کو طے نہیں کر سکے جبکہ اس شورش زدہ ملک کے لیے عالمی امداد بھی روک دی گئی ہے۔ اس ملک میں بے گھر پانچ ملین افراد کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے آئی او ایم نے چوبیس ملین ڈالر کی ہنگامی مدد کی اپیل کی ہے تاکہ ابتر صورت حال سے نمٹا جا سکے۔
تصویر: Hoshang Hashimi/AFP
محفوظ راستہ
چوبیس اگست کو لی گئی اس تصویر میں ایک امریکی فوجی ایک بچے کو حامد کرزئی ایئر پورٹ کی طرف لے جا رہا ہے تاکہ اس کو اس کے کنبے سے ملایا جا سکے۔ اکتیس اگست کو امریکی افواج کے انخلا کی تکمیل کے بعد یہ صورتحال زیادہ پیچیدہ ہو جائے گی۔
تصویر: Sgt. Samuel Ruiz/U.S. Marine Corps/Reuters
ہزاروں پیچھے رہ جائیں گے
اگرچہ افغان عوام کے انخلا کا یہ آپریشن ختم ہو چکا ہے لیکن پھر بھی ہزاروں افراد کابل ایئر پورٹ کے گرد جمع ہیں۔ دہشت گردانہ حملوں کے باوجود یہ لوگ ہوائی اڈے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہتے۔ ایسی خفیہ رپورٹیں ہیں کہ کابل کے ہوائی اڈے کو مزید حملوں کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
تصویر: REUTERS
خوش قسمت لیکن مایوس
افغانستان سے فرار ہونے میں کامیاب ہو جانے والے افراد کی کیفیات ملی جلی ہیں۔ وہ خود کو خوش قسمت بھی تصور کر رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ایک مایوسی کا شکار بھی ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے پیچھے کئی ملین ایسے ہم وطنوں کو چھوڑ کر اپنے ملک سے فرار ہوئے، جن کے حکمران طالبان ہیں۔
تصویر: Anna Moneymaker/AFP/Getty Images
اکتیس تاریخ آخری دن
افغانستان سے انخلا کے مشن کا آخری دن اکتیس اگست ہے۔ انخلا کے اس مشن میں شریک امریکی فوجی بھی منگل اکتیس اگست کو افغانستان سے نکل جائیں گے۔ جرمنی سمیت کئی دیگر اتحادی ممالک کی ریسکیو ٹیمیں گزشتہ ہفتے ہی اپنے مشن مکمل کر چکی ہیں۔
تصویر: picture alliance / newscom
11 تصاویر1 | 11
ابھی حال میں میں جرمن وزیر خارجہ انا لینا بیئر بوک اپنے دورہ پاکستان کے دوران کورونا کا شکار ہو گئی تھیں اور انہیں اپنا دورہ مختصر کرنا پڑ گیا تھا۔ اس تناظر میں جب اسٹیفن کوئٹر سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں کوئی ڈر نہیں لگا؟ '' ہمیں کسی طرح کا خوف نہیں ہے۔ میں انتظامیہ اور خاص طور پر پاکستانی فوج کا بے حد شکر گزار ہوں کہ انہوں نے ہمیں ہر طرح کی سہولت فراہم کی۔ پاکستان اور افغنستان کی سرحد کے دورے کے دوران بھی ہماری سلامتی کا بھرپور انتظام کیا گیا۔‘‘
اسٹیفن کوئٹر اور ڈیٹمار فریڈہوف کے مطابق اس دورے کے دوران ان کی پاکستانی ارکان پارلیمان کے علاوہ وزارت داخلہ اور خارجہ کے حکام سے بھی ملاقاتیں ہوئیں اوران کا یہ دورہ انتہائی مصروف رہا۔
جرمنی کی اسلام اور مہاجرین مخلاف جماعت سے تعلق رکھنے والے یہ دونوں جرمن ارکان پارلیمان اس بات پر متفق تھے کہ پاکستان سیاحت کے لیے ایک بہت ہی پرکشش اور دلچسپ ملک ہے۔