مسترد شدہ پناہ کے متلاشی افراد کی ملک بدری، مسئلہ کیا ہے؟
عاطف بلوچ، روئٹرز
2 اگست 2017
گزشتہ ہفتے ہیمبرگ میں پناہ کے متلاشی ایک فلسطینی حملہ آور کی کارروائی کے نتیجے میں میرکل کی مہاجر پالیسی ایک مرتبہ پھر زیر بحث آ گئی ہے۔ کیا یہ نئی بحث ستمبر کے وفاقی پارلیمانی انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہو سکتی ہے؟
اشتہار
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ جرمن الیکشن سے دو ماہ قبل رونما ہونے والے ہیمبرگ حملے کے باعث مہاجرین کی حکومتی پالیسی پر ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔
یہ حملہ ایک ایسے فلسطینی نے سر انجام دیا تھا، جس کی جرمنی میں پناہ کی دراخواست مسترد ہو چکی تھی۔ اب یہ مطالبہ شدید ہوتا جا رہا ہے کہ ملک بدری کے قوانین میں زیادہ سختی کر دی جائے۔
جرمنی کے وفاقی دفتر استغاثہ کے مطابق مشتبہ فلسطینی حملہ آور کے خلاف فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔ میڈیا میں اس شخص کی شناخت احمد اے کے نام سے کی گئی ہے اور اس کی عمر چھبیس برس بتائی گئی ہے۔
جب راہ گیر نے شدت پسند حملہ آور کو روکا
00:51
یہ فلسطینی مارچ سن دو ہزار پندرہ میں ناروے سے جرمنی آیا تھا۔ ابھی تک اس حملے کے محرکات معلوم نہیں ہو سکے ہیں تاہم جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے زور دیا ہے کہ حملے کی وجوہات عام کی جانا چاہییں۔
متعلقہ حکام کو شک تھا کہ وہ شدت پسندی کی طرف مائل ہو چکا ہے تاہم ضروری شناختی دستاویزات نہ ہونے کے باعث اسے ملک بدر نہیں کیا جا سکا تھا۔
اس تناظر میں جرمنی کی مرکزی سیاسی جماعتوں نے اعتراض کیا ہے کہ مسترد شدہ پناہ کے متلاشی افراد کی ملک بدری کے قوانین بہتر بنائے جا سکتے ہیں۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین ( سی ڈی یو) کی مرکزی حریف سوشل ڈیموکریٹ پارٹی (ایس پی ڈی) کے سینیئر سیاستدان Burkhard Lischka کے مطابق، ’’اگر صورتحال واضح نہیں بھی تھی، تو بھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ اسے تحویل میں کیوں نہیں لیا گیا تھا۔‘‘
میرکل کی سیاسی پارٹی کی باویریا میں ہم خیال سیاسی جماعت کرسچن سوشل یونین (سی ایس یو) سے وابستہ Andreas Scheuer نے ہیمبرگ حملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اب وقت آ چکا ہے کہ ایسے مہاجرین اور تارکین وطن افراد کی ملک بدری میں حائل ’افسر شاہی کے نہ سمجھ آنے والے مظاہر‘ کا خاتمہ کر دیا جائے۔ سی ایس یو کے جنرل سیکرٹری کا مزید کہنا ہے کہ اگر معلوم ہو جائے کہ کوئی انتہاپسند ہو چکا ہے، تو ایسے افراد کے جرم سرزد کرنے سے پہلے ہی ان کے خلاف کارروائی کر لینی چاہیے۔
یہ امر اہم ہے کہ جرمن حکومت کو مسترد شدہ پناہ کے متلاشی افراد کو ملک بدر کرنے میں کئی مشکلات کا سامنا ہے۔ برلن حکومت اس قانون میں بہتری کی کوشش کر چکی ہے لیکن اب بھی انتظامی مسائل کے باعث متعلقہ حکام اس تناظر میں مؤثر کارروائی کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ ناقدین کے مطابق جرمنی کے آئندہ وفاقی پارلیمانی انتخابات میں مہاجرین اور سلامتی کا معاملہ انتہائی اہم ثابت ہو سکتا ہے۔ تاہم میرکل پرعزم ہیں کہ وہ جرمنی میں مہاجرین کی آمد کے حوالے سے کسی حد کا تعین نہیں کریں گی۔
جرمن الیکشن 2017، کب کیا ہو گا؟ ایک مختصر جائزہ
رواں برس جرمن سیاست کے لیے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ اسی سال فیصلہ ہو گا کہ اگلا جرمن چانسلر کون ہو گا؟ اس مرتبہ چوبیس ستمبر کے وفاقی الیکشن میں 61.5 ملین اہل ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں گے۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
وفاقی الیکشن کا سال
کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ انگیلا میرکل چوتھی مرتبہ جرمنی کی چانسلر بننے کی دوڑ میں شامل ہیں تو دوسری طرف عوامیت پسند سیاسی پارٹی اے ایف ڈی مہاجرت کے بحران کا فائدہ اٹھا کر زیادہ سے زیادہ عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔ اس الیکشن کا نتیجہ کچھ بھی نکلے لیکن ایک بات یقینی ہے کہ سن دو ہزار سترہ کے اختتام تک جرمن سیاست کا منظر نامہ بدل جائے گا۔
تصویر: Getty Images
چھبیس مارچ، زارلینڈ کے صوبائی الیکشن
فرانس کے ساتھ متصل چھوٹے سے جرمن صوبے زارلینڈ کے عوام نے چھبیس مارچ کو اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ اکاون نشستوں پر مشتمل اس صوبے کی پارلیمان کی وزیر اعلیٰ کرسچن ڈیموکریٹ Annegret Kramp Karrenbauer ہیں۔ وہ تیسری مرتبہ بھی اس عہدے پر فائز ہونے میں کامیاب ہوئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Becker&Bredel
سات مئی، وفاقی جرمن ریاست شلیسوِگ ہولسٹائن کے الیکشن
شلیسوِگ ہولسٹائن کے الیکشن میں میرکل کی جماعت سب سے بڑی سیاسی پارٹی بن کر ابھری جبکہ اس مرتبہ اے ایف ڈی پہلی مرتبہ اس صوبے کی پارلیمان میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اس صوبے میں سکونت پذیر ڈینش شہریوں کو بھی اس الیکشن میں حصہ لینے کا حق حاصل ہے۔ گزشتہ انتخابات میں 69 نشستوں پر مشتمل اس صوبے کی پارلیمان میں ایک ڈینش اقلیتی پارٹی تین نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Rehder
چودہ مئی، نارتھ رائن ویسٹ فلیا میں انتخابات میں میرکل کی غیر معمولی کامیابی
جرمنی کی مغربی ریاست نارتھ رائن ویسٹ فلیا میں چودہ مئی کے علاقائی الیکشن میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت نے میدان مار لیا۔ یہ جرمنی کا سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے، جہاں سترہ اعشاریہ پانچ ملین نفوس آباد ہیں۔ اس صوبے کے الیکشن وفاقی انتخابات پر بہت زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں۔ جو پارٹی اس صوبے میں اچھی کارکردگی دکھاتی ہے، اس کے وفاقی الیکشن میں کامیابی کے امکانات بھی روشن ہو جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Gambarini
انیس جون، ’کون سی پارٹیاں الیکشن لڑنا چاہتی ہیں‘
وفاقی الیکشن سے ستانوے دن قبل ایسی تمام سیاسی پارٹیوں کو وفاقی ریٹرننگ آفیسر کو باقاعدہ طور پر بتانا ہوتا ہے کہ وہ الیکشن میں حصہ لینا چاہتی ہیں۔ اس مرتبہ انیس جون کی شام چھ بجے تک الیکشن میں حصہ لینے کی خواہمشند تمام پارٹیوں نے اپنی درخواستیں جمع کرا دیں۔ جرمن دفتر شماریات کے سربراہ Roderich Egeler الیکشن کی عمل کی نگرانی بھی کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Burgi
سات جولائی فیصلے کا دن، ’کون سی سیاسی جماعتیں اہل ہیں‘
اس مرتبہ جرمن وفاقی انتخابات سے 79 دن قبل ایسی سیاسی پارٹیوں کے ناموں کا اعلان کر دیا گیا، جو الیکشن لڑنے کی اہل ہیں۔ اگر کسی پارٹی کو وفاقی ریٹرننگ آفیسر کے اس فیصلے پر اعتراض ہوتا تو وہ چار دنوں کے اندر اندر آئینی عدالت سے رجوع کر سکتی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
سترہ جولائی، امیدواروں کی فہرست کی تیاری کا آخری دن
وفاقی الیکشن سے 69 دن پہلے تمام سیاسی جماعتوں فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ ان کا کون سا امیدوار کون سے حلقے سے انتخابات میں حصہ لے گا۔ اس مرتبہ سترہ جولائی تک تمام پارٹیوں نے اس تناظر میں اپنی فہرستیں الیکشن حکام کے حوالے کر دیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
ستائیس جولائی، آئینی عدالت کے فیصلے کا دن
وفاقی ریٹرننگ آفیسر نے اگر کسی چھوٹی سیاسی پارٹی کو الیکشن میں حصہ لینے سے روکا تھا اور اس نے آئینی عدالت سے رجوع کیا تھا تو ستائیس جولائی کو جرمنی کی آئینی عدالت فیصلہ سنانا تھا کہ وہ پارٹی انتخابات میں حصہ لینے کی اہل ہے یا نہیں۔ تاہم اس مرتبہ کسی پارٹی الیکشن میں حصہ لینے سے نہیں روکا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Steinberg
تیرہ اگست، انتخابی مہم کے باقاعدہ آغاز کا دن
جرمنی میں سیاسی پارٹیاں اپنی انتخابی مہموں کا آغاز صرف تبھی کر سکتی ہیں جب الیکشن کی تاریخ میں چھ ہفتوں سے ایک دم کم رہ جائے۔ کئی ممالک میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہے۔ جرمنی میں اس مرتبہ تیرہ اگست سے سیاسی پارٹیوں نے باقاعدہ طور پر اپنی اپنی انتخابی مہموں کا آغاز کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
بیس اگست، کون ووٹ ڈالنے کا اہل ہے؟
جرمنی میں وفاقی الیکشن سے قریب ایک ماہ قبل ووٹر لسٹ تیار کر لی جاتی ہے۔ جرمنی میں اٹھارہ برس یا اس سے زائد عمر کا ہر شہری جنرل الیکشن میں ووٹ ڈالنے کا اہل ہوتا ہے۔ یوں جرمنی میں اہل ووٹرز کی تعداد تقریبا 61.5 ملین بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K.-D. Gabbert
تین ستمبر، الیکشن سے تین ہفتے قبل
جرمنی میں وفاقی الیکشن سے تین ہفتے قبل تمام ووٹرز کو بذریعہ ڈاک مطلع کر دیا جاتا ہے کہ وہ ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ ایسے شہری جنہوں نے ابھی تک اپنا اندارج نہیں کرایا، وہ اس موقع پر ووٹر لسٹ میں اپنا نام درج کرانے کی درخواست کر سکتے ہیں۔ اسی دوران ایسے ووٹر جو ڈاک کے ذریعے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنا چاہتے ہیں، انہیں بھی الیکشن حکام کو مطلع کرنا ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/R. Goldmann
اٹھارہ ستمبر، ووٹنگ کے عمل کی تیاری شروع
الیکشن سے ایک ہفتہ قبل بیلٹ پیپرز کی تقسیم، پولنگ بوتھوں کے قیام اور دیگرسازوسامان کے حوالے سے کام میں تیزی آ جاتی ہے۔ تربیت یافتہ عملہ ان تمام کاموں کی نگرانی کرتا ہے۔ اسی دوران مقامی انتظامیہ کو ووٹرز کو مطلع کرنا ہوتا ہے کہ انہیں ووٹ ڈالنے کے لیے کس مقام پر پہنچنا ہے۔ پولنگ کے 36 گھنٹے قبل تک شہریوں کو حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ ووٹر لسٹ میں اپنا نام درج کرا لیں۔
تصویر: picture-alliance/R. Goldmann
چوبیس ستمبر، ووٹنگ کا دن
اس برس چوبیس ستمبر کے دن جرمنی میں وفاقی انتخابات کے سلسلے میں پولنگ کی جائے گی۔ اس دن اسکول، کمیونٹی سینٹرز اور بڑے بڑے ہالوں کے علاوہ دیگر کئی مقامات کو بھی پولنگ اسٹیشنوں میں بدل دیا جائے گا۔ پولنگ کا یہ عمل صبح آٹھ بجے تا شام چھ بجے جاری رہے گا۔ اسی رات ہی الیکشن کے غیر حتمی نتائج کا اعلان کر دیا جائے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پچیس ستمبر، خوشیاں اور غم
الیکشن حکام کی طرف سے تمام ووٹوں کی حتمی گنتی کے بعد الیکشن کے اگلے دن ہی باضابطہ سرکاری نتائج کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس موقع پر کامیابی حاصل کرنے والی سیاسی جماعتیں خوشیاں مناتی ہیں جبکہ شکست خوردہ کچھ افسردہ ہو جاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
چوبیس اکتوبر، نئی جرمن پارلیمان کا اجلاس
جرمنی میں نئی منتخب پارلیمان کا پہلا اجلاس الیکشن کے دن کے ایک ماہ کے اندر اندر ہونا ہوتا ہے۔ اس مرتبہ نئی پارلیمان کا اجلاس چوبیس اکتوبر سے قبل ہی منعقد کیا جائے گا۔ اس کے بعد پھر حکومت سازی کا عمل شروع ہوتا ہے۔ مختلف سیاسی پارٹیاں اتحاد کی خاطر مذاکرات شروع کرتی ہیں اور اس عمل کے مکمل ہونے کے بعد ممبر پارلیمان چانسلر کے عہدے کے لیے خفیہ طور پر رائے شماری کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
چوبیس نومبر، اگر کوئی شکایت ہے تو؟
جرمنی میں اگر کسی پارٹی نے الیکشن کے نتائج کو چیلنج کرنا ہوتا ہے تو اس کے لیے دو ماہ کا وقت ہوتا ہے۔ اس مرتبہ ایسی کسی شکایت کو چوبیس نومبر سے قبل ہی درج کرانا ہو گا۔ جرمن وفاقی صدر، سیاسی پارٹیوں، الیکشن کمشنر (تصویر میں دیکھے جا سکتے ہیں) یا کوئی بھی ووٹر انتخابات کے نتائج کو چیلنج کر سکتا ہے۔