مستعفی ہونے کو تیار ہوں، حسین حقانی
17 نومبر 2011برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک کالم میں ایک پاکستانی کاروباری شخصیت منصور اعجاز نے الزام لگایا تھا کہ پاکستان کے ایک اعلٰی سفارت کار نے صدر زرداری کا پیغام اس وقت کے امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ایڈمرل مائیک مولن تک پہنچانے کے سلسلے میں مدد طلب کی تھی۔ منصور اعجاز نے مزید کہا کہ مئی میں اسامہ بن لادن کی امریکی کمانڈوز کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد صدر زرداری کو ڈر تھا کہ فوج حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قابض ہو جائے گی۔
بن لادن کی ہلاکت کے بعد گزرے چند مہینوں میں آصف علی زرداری کی صدارت اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی قیادت میں پاکستان کی کمزور سویلین حکومت اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کی زیر سربراہی فوجی قیادت کے درمیان تعلقات کافی کشیدہ تصور کیے جا رہے ہیں۔
حسین حقانی نے کہا، ’’میں پاکستان کے صدر اور وزیر اعظم کے احکامات پر کام کر رہا ہوں۔ میں نے مستعفی ہونے یا ہر اس طرح کی تحقیقات میں شرکت پر آمادگی ظاہر کی ہے جس کے ذریعے ملک میں موجود بعض عناصر کی جانب سے پاکستان کی جمہوری حکومت کو بدنام کرنے کی کوششوں کا خاتمہ کیا جا سکے۔‘‘
پاکستانی ذرائع ابلاغ میں اس بات پر قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ حسین حقانی مائیک مولن کو دیے جانے والے مراسلے کی تیاری یا اسے ارسال کرنے کے عمل میں شامل تھے۔
پاکستانی حکام نے اس صورت حال پر ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
حسین حقانی نے کہا، ’’ابھی تک اس الزام کے علاوہ مجھے کسی چیز میں نامزد نہیں کیا گیا ہے۔ ذرائع ابلاغ میں جس مراسلے کا ذکر ہو رہا ہے، وہ نہ تو میں نے تیار کیا ہے اور نہ ہی اسے آگے پہنچایا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ جب سے وہ 2008ء میں سفیر بنے ہیں، بعض لوگوں نے ان کے خلاف ایک مسلسل مہم شروع کر رکھی ہے کہ وہ پاکستانی مسلح افواج کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کہ ایک بالکل غلط بات ہے۔
جب مولن کے سابق ترجمان کیپٹن جان کربی سے فنانشل ٹائمز میں شائع ہونے والی مراسلے کی تفصیلات کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ شروع میں مولن کو اس مراسلے کا پتا نہیں تھا لیکن بعد میں اس کا سراغ لگا لیا گیا۔ انہوں نے کہا، ’’نہ تو اس مراسلے کے مندرجات اور نہ ہی اس کی موجودگی کے ثبوت کو کسی بھی طریقے سے تبدیل یا متاثر کیا گیا ہے، جس سے ایڈمرل مائیک مولن کے جنرل کیانی اور پاکستانی حکومت کے ساتھ تعلقات مختلف رہے ہوں۔‘‘ انہوں نے اس بارے میں مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: مقبول ملک