ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ کسانوں کے لیے حل فش فارمنگ
22 جنوری 2023
موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ کینیا کے کسان اپنی زرعی پیداوار سے جڑے مسائل کے حل کے لیے اب اس نتیجے پر پہنچ رہے ہیں کہ وہ فش فارمنگ کر کے پانی ذخیرہ کر سکتے، اپنی غذا کو بہتر بنا سکتے اور آمدنی میں اضافہ بھی کر سکتے ہیں۔
اشتہار
وسطی کینیا کی کیرِنیاگا کاؤنٹی سے تعلق رکھنے والے ایلائجا موریتھی کو طویل عرصے تک غیر یقینی موسمیاتی حالات اور ان کے نتیجے میں غیر مستحکم آمدنی کے مسئلے کا سامنا رہا۔ موریتھی 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں کیلے کی فارمنگ کرتے تھے لیکن بے ربط موسمی تبدیلیوں کے باعث انہیں اکثر نقصان اٹھانا پڑتا تھا۔
تب اگر خشک سالی بہت طویل ہو جاتی تو کیلوں کے نئے لگائے گئے چھوٹے چھوٹے پودے مر جاتے اور اگر لمبے عرصے تک بہت زیادہ بارشیں ہوتیں تو کیلے کی پیداوار اتنی زیادہ ہو جاتی کہ انہیں اپنی فصل مجبوراﹰ سستے داموں بیچنا پڑتی۔ اس کے بعد انہوں نے کافی کے پودے کاشت کرنا شروع کیے جن کے لیے پانی کم درکار ہوتا ہے، مگر ان کی آمدنی پھر بھی کم اور غیر مستحکم ہی رہنے لگی۔
کھیتوں میں بنائے گئے فش فارم
موریتھی کو اپنے اس مسئلے کا ایک حل 2021ء میں سوجھا اور انہوں نے اپنے ایک کھیت کو مچھلیوں کے تالاب میں بدل دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اب ان کے اس تالاب میں ڈیڑھ ہزار سے زائد تیلاپیا مچھلیاں ہیں۔ اسی تالاب میں وہ بارشوں کے موسم میں پانی ذخیرہ بھی کر لیتے ہیں اور پھر خشک سالی کے دنوں میں وہ اسی پانی سے بوقت ضرورت اپنے دوسرے کھیت سیراب بھی کر لیتے ہیں۔ اس طرح انہیں اس کھیت سے دوہرا فائدہ حاصل ہو جاتا ہے۔
موریتھی کا کہنا ہے کہ اب چاہے زیادہ بارشیں ہوں یا خشک سالی، وہ سارا سال کافی اور سبزیاں اگا کر اچھی خاصی آمدنی حاصل کرتے ہیں اور مچھلیوں کی فروخت ان کے لیے اضافی آمدنی کا ذریعہ بنتی ہے۔
کینیا کے اس کسان نے بارش کے پانی کے اس منفرد استعمال کے فوائد کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا دس میٹر چوڑا اور پچیس میٹر طویل مچھلیوں کا تالاب کافی کے درختوں والے زرعی علاقے سے کچھ اونچائی پر واقع ہے۔
موریتھی کے پاس کل زرعی رقبہ 1.25 ایکٹر یا 0.5 ہیکٹر بنتا ہے، جو نیروبی سے 130 کلومیٹر کے فاصلے پر کیبِنگو نامی قصبے میں واقع ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ جب بھی آبپاشی کے لیے مچھلیوں کے تالاب سے پانی چھوڑتے ہیں، تو وہ نیچے کی طرف بہتا ہوا خود بخود کافی کے درختوں والے علاقے کو سیراب کر دیتا ہے۔
ایک سال میں آمدنی تین گنا
ایلائجا موریتھی اب بہت خوش ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے کھیتوں میں سے ایک میں فش فارمنگ ابھی گزشتہ سال اپریل میں ہی شروع کی تھی اور اب تک ان کی کافی کی پیداوار دگنی سے زیادہ اور آمدنی تو تین گنا ہو چکی ہے۔
شدید خونریز موسم، کرہ ارض کے لیے دھچکا
براعظم یورپ سے لے کر امریکا اور ایشیا و افریقہ کے کئی ممالک میں شدید موسموں کی وجہ سے قدرتی آفات خبروں کی سرخیوں میں ہیں۔ کیا یہ سب ماحولیاتی تبدیلیوں کا شاخسانہ ہیں۔
تصویر: Noah Berger/AP Photo/picture alliance
یورپ میں شدید سیلاب
یورپ کی جدید تاریخ میں غیرمعمولی سیلاب کی وجہ دو ماہ سے ہونے والا شدید سیلابی سلسلہ بنا۔ یوں بالخصوص مغربی یورپ میں شدید تباہی ہوئی اور صرف جرمنی اور بیلجیم میں کم از کم دو سو نو افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ ان تباہ حال علاقوں کی تعمیر نو اور بحالی پر لاکھوں یورو خرچ ہوں گے۔
تصویر: Thomas Lohnes/Getty Images
بارش کا غیر معمولی سلسلہ
حالیہ ہفتوں میں بھارت اور چین میں بھی غیر معمولی سیلاب آئے۔ چین کے صوبہ ہینان کے شہر ژانگژو میں سیلابی ریلے انڈر گراؤنڈ ٹرین سب وے میں داخل ہو گئے، جہاں درجنوں مارے بھی گئے۔ موسمیاتی سائنسدانوں کا کہنا ہے کلائمیٹ چینج کی وجہ سے مستقبل میں زیادہ شدید بارشوں کا خدشہ ہے۔ زیادہ گرم موسم پانی کی بڑی مقدار کو بخارات بنائے گا، جو بادل بن کر برسیں گے۔
تصویر: AFP/Getty Images
امریکا اور کینیڈا میں ریکارڈ گرمی
جون کے اواخر میں کینیڈا اور امریکا میں بھی شدید گرمی پڑی۔ بالخصوص کینیڈین صوبے برٹش کولمبیا میں ریکارڈ گرم درجہ حرارت بھی نوٹ کیا گیا جبکہ گرم موسم کی وجہ سے کئی اموات بھی ہوئیں۔ اسی باعث دونوں ممالک میں جنگلاتی آگ بھی بھڑکی، جو بڑے پیمانے پر مالی نقصان کا باعث بنی۔
تصویر: Ted S. Warren/AP/picture alliance
جنگلاتی آگ سے تباہی
گرمی کی لہر شاید ختم ہونے والی ہے لیکن انتہائی خشک موسم سے جنگلاتی آگ بھڑکنے کا خطرہ نہیں ٹلا۔ امریکی ریاست اوریگن میں بھڑکی جنگلاتی آگ کی وجہ سے دو ہفتوں میں ہی ایک بڑا رقبہ راکھ ہو گیا۔ یہ آگ اتنی شدید ہے کہ اس کا دھواں نیو یارک شہر تک پہنچ رہا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق موسموں میں یہ شدت انسانوں کی طرف سے پیدا ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کے بغیر ممکن نہیں ہیں۔
تصویر: National Wildfire Coordinating Group/Inciweb/ZUMA Wire/picture alliance
ایمیزون میں بگڑتی صورتحال
برازیل کا وسطی اور جنوبی حصہ شدید خشک سالی کا شکار ہے۔ گزشتہ سو برس بعد ان علاقوں میں یہ صورتحال دیکھی جا رہی ہے۔ یوں جنگلاتی آگ بھڑکنے کے علاوہ ایمیزون کے جنگلات کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
تصویر: Andre Penner/AP Photo/picture alliance
فاقہ کشی کے دہانے پر
مڈغاسکر میں گزشتہ کئی برسوں کی خشک سالی کے باعث 1.14 ملین نفوس فاقہ کشی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ اس افریقی ملک میں نا تو کوئی قدرتی آفت آئی اور نا ہی فصلوں کو نقصان پہنچا۔ یہاں تو کوئی سیاسی تنازعہ بھی پیدا نہیں ہوا لیکن اس کے باوجود وہاں قحط سالی کا خطرہ ہے، جس کی وجہ صرف ماحولیاتی تبدیلیوں کو قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: Laetitia Bezain/AP photo/picture alliance
قدرتی آفات سے مہاجرت
گزشتہ برس قدرتی آفات اور مسلح تنازعوں سے اپنے ہی ملکوں میں بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد پچپن ملین رہی، جو گزشتہ دہائی کا ایک نیا ریکارڈ بن گیا ہے۔ اس کے علاوہ چھیبس ملین افراد غیر ممالک مہاجرت پر بھی مجبور ہوئے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اپنے ہی ممالک میں بے گھر ہونے والے افراد کی تین چوتھائی شدید موسموں کی وجہ سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئی۔
تصویر: Fabeha Monir/DW
7 تصاویر1 | 7
موریتھی کینیا کے ان بہت سے کسانوں میں سے ایک ہیں، جنہیں موسمیاتی تبدیلیوں اور ان کے نقصان دہ نتائج کا سامنا تھا، مگر جو اپنے کھیتوں میں فش فارمنگ جیسے طریقے اپنا کر اپنے مسائل کا حل دریافت کر چکے ہیں۔ اب پانی کی کمی ان کسانوں کا مسئلہ نہیں رہی، انہیں غذا بھی بہتر میسر آتی ہے اور یوں آمدنی بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے زرعی شعبے کو پہنچنے والے مجموعی نقصانات کی بنیاد پر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ایسے کسانوں کے لیے فش فارمنگ دراصل مستقبل کی ایک ایسی فائدے مند فصل کی حیثیت اختیار کرتی جا رہی ہے، جس پر وہ باقاعدہ انحصار کر سکتے ہیں۔
اشتہار
مقامی حکومت کا معاشی پیکج
موریتھی اور کیرِنیاگا کاؤنٹی کے کئی دیگر کسانوں کے لیے یہ کامیابی اس وجہ سے بھی ممکن ہو سکی کہ وہاں کی مقامی حکومت نے ایک معاشی پیکج کے تحت کسانوں کی مچھلیوں کے ایسے تالاب بنانے میں مدد کا کام 2019ء میں ہی شروع کر دیا تھا۔
اس کاؤنٹی کے ماہی گیری کے محکمے کے مطابق وہ اب تک ایسے فش فارمز کی تیاری میں جن مقامی پارٹنرز کی مدد کر چکا ہے، ان میں تقریباﹰ 20 فارمنگ گروپ اور انفرادی سطح پر 1350 سے زائد کسان شامل ہیں۔
نائجیریا سے پاکستان تک، عالمی سطح پر سیلاب کی تباہ کاریاں
سیلاب جیسے تباہ کُن موسمی آفات میں اضافہ انسانوں کی وجہ سے رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلیاں بن رہی ہیں۔
تصویر: Pedro Rances Mattey/AA/picture alliance
نائجیریا کو انسانی تباہی کا سامنا
نائجیریا میں سیلاب سے 600 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، لاکھوں افراد ہنگامی امداد کے منتظر ہیں۔ 36 ریاستوں میں سے 33 متاثر ہوئی ہیں۔ ملک کو بیماریوں اور خوراک کی کمی کے المیے کا سامنا ہے۔ نائجیریا کے ساحلی علاقوں میں سیلاب ایک معمول کی بات ہے، لیکن اس بار کا سیلاب ایک دہائی سے زیادہ عرصے میں بدترین ثابت ہوا۔ حکام نے اس کا ذمہ دار شدید بارشوں اور کیمرون کی طرف سے ڈیم کا پانی چھوڑنے کو ٹھہرایا ہے۔
تصویر: Ayodeji Oluwagbemiga/REUTERS
چاڈ کی خُشک سالی کو سیلاب نے دور کیا
طویل خشک سالی کے بعد، 30 سالوں میں ہونے والی سب سے زیادہ بارشوں نے وسطی افریقی ملک چاڈ کے بڑے حصے کو صرف کشتیوں کے ذریعے سفر کرنے کے قابل چھوڑا ہے۔ ہزاروں لوگ اپنے گھروں سے بھاگنے پر مجبور ہوئے۔ چرواہے جانوروں کو چارہ نہیں دے پا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اداروں کا تخمینہ ہے کہ خشک سالی اور سیلاب نے 2.1 ملین افراد کو شدید بھوک سے دوچار کردیا ہے، غذائی اجزا کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔
تصویر: Mahamat Ramadane/REUTERS
سری لنکا ڈوب گیا
سری لنکا میں سیلاب سے کم از کم تین افراد ہلاک ہو گئے ہیں، دارالحکومت کولمبو خاص طور پر شدید متاثر ہوا ہے۔ سیلاب سے ملک کے کچھ حصوں میں لینڈ سلائیڈنگ کے زیادہ خطرات پیدا ہو گئے ہیں۔ جب کہ آنے والے دنوں میں مزید شدید بارشوں کی توقع ہے۔
پاکستان کو گوناگوں بیماریوں اور غذائی قلت کا سامنا
مون سون کی بے مثال بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے پاکستان بھر میں ڈیڑھ ملین سے زائد افراد کو خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں جبکہ اس دوران 1,700 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ سیلاب کا پانی آہستہ آہستہ کم ہو رہا ہے، لیکن سندھ اور بلوچستان کو اب پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے خطرے کا سامنا ہے۔ اس کی وجہ صحت کی سہولیات کی ابتر صورتحال، کھڑا پانی، ادویات کا کم ذخیرہ اور صفائی کی سہولیات کا فقدان ہے۔
تصویر: Sabir Mazhar/AA/picture alliance
وینیزویلا کے کئی قصبے لینڈ سلائیڈنگ کی نذر
وینیزویلا میں رواں ماہ سیلاب کے نتیجے میں لینڈ سلائیڈنگ اور دریا میں طغیانی کے سبب 50 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ ملکی حکومت کا کہنا ہے کہ شدید بارشوں نے گزشتہ کم از کم ایک دہائی کے دوران بدترین آفات کو جنم دیا ہے، جس کی ذمہ دار موسمیاتی تبدیلی ہے۔ مشکل سے متاثرہ ریاست اراگوا سمیت پورے ملک میں مزید بارش کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
تصویر: Pedro Rances Mattey/AA/picture alliance
فلپائن میں سیلاب زندگی کی ایک حقیقت
فلپائن کے کچھ حصوں میں بار بار آنے والے سیلاب سے نمٹنے کے لیے موٹر سائیکل ٹیکسی مالکان نے اپنی موٹر سائیکلوں میں شدید موسم سے نمٹنے کے لیے تبدیلیاں لانا شروع کر دی ہیں۔ دارالحکومت منیلا کے باہر ہاگونوئے میں، مون سون کے موسم میں بارش کی سطح دو میٹر (6.5 فٹ) تک رہی۔ اس ہفتے کے شروع میں ایک طوفان نے ملک کے شمال میں دیہاتوں اور کھیتوں کو مکمل غرق کر دیا۔
تصویر: Eloisa Lopez/REUTERS
کیا ان تباہیوں کی ذمہ دار موسمیاتی تبدیلیاں ہیں؟
تباہ کن موسمی واقعات انسانوں کی لائی ہوئی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آئے دن رونما ہو رہے ہیں اور ان میں شدت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ گرم ماحول کی وجہ سے آب و ہوا میں نمی بڑھتی ہے اور اس کے نتیجے میں شدید بارش ہو سکتی ہے۔ اگرچہ یہ کہنا مشکل ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں نے کسی ایک واقعہ میں کتنا حصہ ڈالا، لیکن مجموعی رجحان واضح ہے۔ المیہ یہ کہ اقتصادی طور پر کمزور ممالک اس مسئلے کے سب سے کم ذمہ دار ہیں۔
تصویر: Sanjev Gupta/dpa/picture alliance
دنیا اس بارے میں کیا کر سکتی ہے؟
پیرس معاہدے کے تحت طے شدہ اہداف تک پہنچنے کے لیے تمام ممالک کو ضرر رساں گیس کے اخراج میں تیزی سے کمی کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ رواں صدی کے وسط تک درجہ حرارت کو صفر کے قریب لایا جاسکے۔ سیلاب جیسی آفت کے خطرے سے دوچار ممالک کو سیلاب سمیت دیگر موسمیاتی آفات کے اثرات کو کم کرنے کے لیے انتباہی نظام کی ضرورت ہے۔ اس طرح کے نظاموں کی ادائیگی اقوام متحدہ کی آئندہ آب و ہوا کانفرنس کا ایک اہم مرکزی موضوع ہوگا۔
تصویر: Branden Camp/AP Photo/picture alliance
8 تصاویر1 | 8
حکومت مدد کیسے کرتی ہے؟
کیرِنیاگا کاؤنٹی کی حکومت اپنے معاشی پیکج کے تحت کسانوں کو 'پونڈ لائنر‘ کا خرچہ فراہم کرتی ہے۔ 'پونڈ لائنر‘ سے مراد پلاسٹک کی ایک ایسی موٹی اور بہت بڑی شیٹ ہوتی ہے، جو کھیت میں کھدائی کر کے اس کی تہہ میں بچھا دی جاتی ہے اور پانی چھوڑے جانے پر کھیت تالاب کی شکل اختیار کر لیتا یے۔
یہی نہیں پہلی مرتبہ کھیتوں میں چھوڑنے جانے کے لیے بہت چھوٹی چھوٹی مچھلیاں بھی حکومت ہی مہیا کرتی ہے۔ اس کے علاوہ پہلے سال کے دوران ان مچھیلوں کے لیے خوراک کا اہتمام بھی اسی حکومتی پیکج کے تحت کیا جاتا ہے۔ یہ تمام سہولتیں مقامی کسانوں کے لیے پرکشش ثابت ہوتی ہیں۔
کاؤنٹی حکومت کے مطابق گزشتہ برس اکتوبر تک اس علاقے میں ایسے فش فارموں سے حاصل ہونے والی مچھلی کی مجموعی پیداوار 29 ٹن سالانہ بنتی تھی۔ لیکن اب حکومت کا ارادہ ہے کہ اس پیداوار میں اضافہ کر کے اسے 62 ٹن سالانہ تک کر دیا جائے۔