1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مستقبل کی لائبریری، جہاں کوئی کتاب نہیں

امتیاز احمد7 جنوری 2014

امریکا کی سب سے پہلی عوامی ڈیجیٹل لائبریری ریاست ٹیکساس میں قائم کی گئی ہے۔ یہ اس ملک کی وہ پہلی لائبریری ہے، جہاں کوئی بھی کتاب موجود نہیں۔ اس میں صرف اور صرف ٹچ اسکرین ٹیبلیٹس اور کمپوٹر رکھے گئے ہیں۔

تصویر: picture alliance/AP Photo

امریکی ریاست ٹیکساس میں 2.3 ملین ڈالر کی لاگت سے تعمیر کی گئی اس ’بُک لیس‘ اور ڈیجیٹل لائبریری کا نام ’بیبلیو ٹیک‘ رکھا گیا ہے۔ یہ امریکا کی وہ واحد پبلک لائبریری ہے، جس نے ہانگ گانگ تک لوگوں کی توجہ حاصل کی ہے۔ ہانگ کانگ کے حکام بھی اسی طرح کی ایک لائبریری بنانا چاہتے ہیں۔ امریکن لائبریری ایسوسی ایشن کے مطابق یورپی ممالک اور امریکا کے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تو پہلے ہی ڈیجیٹل لائبریریاں موجود ہیں لیکن یہ پہلی عوامی ڈیجیٹل لائبریری ہے۔

تصویر: picture alliance/AP Photo

ریاست ٹیکساس کا شہر سان انتونیو ملک کا ساتواں سب سے بڑا شہر ہے لیکن خواندگی کی شرح کے لحاظ سے اس کا نمبر ساٹھواں ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس ڈیجیٹل لائبریری کے قیام کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ عوامی سطح پر کتابیں پڑھنے کے شوق میں اضافہ ہو۔ اس لائبریری میں قطار اندر قطار سینکڑوں اسمارٹ کمپیوٹرز اور ٹیبلیٹس رکھے گئے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق اس کے قیام کے پہلے سال ہی میں ایک لاکھ سے زائد افراد نے اس سے استفادہ حاصل کیا ہے۔

اس لائبریری کی سربراہ ایشلے ایلکوف کا تعلق ماضی میں ایک روایتی لائبریری سے تھا۔ کتابوں سے بھری ہوئی ایک روایتی لائبریری میں انہیں کیا مشکلات پیش آتی تھیں، اس بارے میں وہ کہتے ہیں، ’’بہت سی کتابوں کے حاشیوں پر کچھ نہ کچھ لکھا ہوا ملتا تھا، بعض اوقات کتاب کے اندر سے صفحات ہی غائب ہوتے تھے۔ پرانی کتابوں کی دوبارہ مرمت کرنے کا بھی مسئلہ ہوتا تھا۔ اگر کوئی کتاب وقت پر واپس نہیں کرتا تھا، تو اسے جرمانہ ادا کرنا ہوتا ہے لیکن بہت سے لوگ اس کی بھی پروا نہیں کرتے۔‘‘

اس لائبریری میں ای بُکس کی بھی بہت وسیع تعداد موجود ہے اور ایک وقت میں کم از کم پانچ کتابیں ڈاؤن لوڈ کی جاسکتی ہیں۔

ایشلے ایلکوف کے مطابق ان کی ڈیجیٹل لائبریری روایتی لائبریری کی نسبت زیادہ سودمند ثابت ہو رہی ہے۔ انتظامیہ نے دس ہزار ڈیجیٹل کتابوں کا ایک مجموعہ خریدا ہے۔ انتظامیہ کو ان ڈیجیٹل کتابوں کے لیے وہی قیمت ادا کرنا پڑی ہے، جو کہ ایک پرنٹیڈکتاب کے لیے ادا کی جاتی ہے لیکن اُن ملین ڈالرز کی بچت کر لی گئی ہے، جو عمارت کی تعمیر اور کتابیں رکھنے کے لیے بندوبست کرنے پر خرچ ہونا تھے۔

ایلکوف کہتی ہیں، ’’ اگر کتابوں کی الماریاں نہ بنائی جائیں تو عمارت کی مضبوطی پر خرچ ہونے والی رقم بچائی جا سکتی ہے۔‘‘

نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق اسی شہر میں ایک روایتی لائبریری تعمیر کی جا رہی ہے اور اس پر 120 ملین ڈالر کی لاگت آئے گی، جو ڈیجیٹل لائبریری پر آنے والی لاگت سے کہیں زیادہ ہے۔

ڈیجیٹل لائبریری میں پہلی مرتبہ آنے والوں کو سب سے پہلے ہدایات دی جاتی ہیں کہ انہیں کس طرح کتابوں کو تلاش کرنا ہے۔ تاہم متعدد افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ کوئی ڈیجیٹل کتاب کی بجائے روایتی کتاب پڑھنا پسند کرتے ہیں کیونکہ کمپیوٹر اور ٹیبلیٹس کی لائٹ ان کی آنکھوں کے لیے نقصان دہ ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں