مستقبل کے جرمن وزیر داخلہ مہاجرین کی ملک بدریاں بڑھا دیں گے
11 مارچ 2018
نامزد جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے کہا ہے کہ اُن کے پاس مہاجرین کی درخواستوں پر عمل درآمد کا تیز رفتار طریقہ کار اور زیادہ مستقل بنیادوں پر ملک بدریوں کا ماسٹر پلان موجود ہے۔
اشتہار
نئے نامزد جرمن وزیر داخلہ زیہوفر نے ایک بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ لبرل جرمن اقدار کی حفاظت کے لیے ایک مضبوط ریاست کا قیام ضروری ہے۔ آج بروز اتوار شائع ہوئے اپنے ایک تبصرے میں ہورسٹ زیہوفر کا کہنا تھا کہ وہ سیاسی پناہ کے طریقہ کار کو تیز رفتار اور تارکین وطن کی ملک بدریوں کو مستقل بنیادوں پر جاری رکھنے کے عمل کو یقینی بنانے کے ’ماسٹر پلان‘ کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
زیہوفر کا یہ تبصرہ جرمن اخبار ’بلڈ اَم زونٹاگ‘ میں شائع ہوا ہے۔ تبصرے میں زیہوفر کا مزید کہنا تھا، ’’مہاجرین کی ڈی پورٹیشن کی رفتار میں واضح اضافہ ہونا چاہیے۔ ہمیں پناہ گزینوں کے درمیان جرائم پیشہ افراد کے حوالے سے خاص طور پر سخت کارروائی کی ضرورت ہے۔‘‘
زیہوفر جو تارکین وطن کے حوالے سے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے سخت ناقد رہے ہیں، مزید کہا کہ پناہ کی درخواستوں پر فیصلے سالوں کے بجائے مہینوں میں ہونے چاہئیں۔
قدامت پسند جماعت کرسچین سوشل یونین یا سی ایس یو کے سربراہ نے یہ بھی واضح کیا کہ مجرموں کے لیے مکمل طور پر عدم برداشت کی پالیسی اپنائی جائے گی۔
زیہوفر کا مزید کہنا تھا،’’ ہم کشادہ دل اور آزاد خیال ملک رہنا چاہتے ہیں۔ لیکن جب بات ہمارے شہریوں کی حفاظت کی ہو تو اُس کے لیے ہمیں مضبوط ریاست درکار ہے۔ میں اسے یقینی بناؤں گا۔‘‘
نامزد جرمن وزیر داخلہ نے ملک کے ہر حساس مقام پر ویڈیو کیمروں کے ذریعے موثر نگرانی کا مطالبہ بھی کیا۔ زیہوفر امکاناً نئے حکومتی اتحاد میں ملک کے وزیر داخلہ کا قلمدان سنبھالیں گے۔
2017ء: کس ملک کے کتنے شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے؟
جرمنی میں سن 2017 کے دوران مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ 2017 میں ایک لاکھ اسی ہزار، 2016 میں دو لاکھ اسی ہزار جب کہ سن 2015 میں قریب ایک ملین افراد پناہ کی تلاش میں جرمنی آئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
۱۔ شام
2017ء میں بھی جرمنی میں سب سے زیاد مہاجرین خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے آئے۔ بی اے ایم ایف کے مطابق سن 2017ء میں شام کے پچاس ہزار سے زائد شہریوں نے جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ قریب 92 فیصد شامیوں کو پناہ دی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
۲۔ عراق
عراقی مہاجرین دوسرے نمبر پر رہے اور گزشتہ برس تئیس ہزار چھ سو سے زائد عراقیوں نے جرمنی میں حکام کو پناہ کی درخواستیں دیں۔ چھپن فیصد سے زائد عراقی شہریوں کو پناہ کا حقدار سمجھا گیا۔
۳۔ افغانستان
گزشتہ برس افغان شہریوں کی جرمنی آمد اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں آٹھ فیصد کم ہونے کے باوجود افغان تارکین وطن اٹھارہ ہزار سے زائد درخواستوں کے ساتھ تعداد کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر رہے۔ چوالیس فیصد افغان درخواست گزار پناہ کے حقدار قرار پائے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
۴۔ اریٹریا
افریقی ملک اریٹریا کے دس ہزار سے زائد شہریوں نے بھی جرمنی میں پناہ کی درخواستیں دیں۔ اریٹرین باشندوں کو جرمنی میں پناہ ملنے کی شرح 83 فیصد رہی۔
تصویر: picture alliance/dpa/U. Zucchi
۵۔ ایران
2017ء میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نو ہزار سے زائد شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے اور ان کی درخواستوں کی کامیابی کا تناسب پچاس فیصد کے لگ بھگ رہا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
۶۔ ترکی
ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد حکومتی کریک ڈاؤن کے بعد ساڑھے آٹھ ہزار ترک شہریوں نے جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ ترک شہریوں کو پناہ ملنے کا تناسب اٹھائیس فیصد رہا۔
تصویر: Imago/Chromeorange/M. Schroeder
۷۔ نائجیریا
افریقی ملک نائجیریا سے بھی مزید آٹھ ہزار تین سو تارکین وطن گزشتہ برس جرمنی پہنچے۔ اس برس محض 17 فیصد نائجیرین باشندوں کو جرمنی میں پناہ ملی۔
تصویر: A.T. Schaefer
۸۔ صومالیہ
ساتویں نمبر پر ایک اور افریقی ملک صومالہ رہا، جہاں سے ساڑھے سات ہزار سے زائد نئے تارکین وطن گزشتہ برس پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے۔ دیگر افریقی ممالک کے مقابلے میں صومالیہ کے شہریوں کو پناہ ملنے کا تناسب بھی زیادہ (اسی فیصد سے زائد) رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Skolimowska
۹۔ روس
سن 2017 میں روس سے تعلق رکھنے والے چھ ہزار شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی آئے۔ تاہم روسی شہریوں کو پناہ ملنے کی شرح محض نو فیصد رہی۔
تصویر: Dimitriy Chunosov
۱۰۔ جن کی قومیت معلوم نہیں
اس برس دسویں نمبر پر ایسے تارکین وطن رہے جن کی قومیت شناخت کے بارے میں جرمن حکام کو علم نہیں۔ بی اے ایم ایف کے مطابق ایسے افراد کی تعداد قریب ساڑھے چار ہزار سے کچھ رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
۱۱۔ پاکستان
سن 2011 کے بعد اس برس پاکستانی تارکین وطن تعداد کے اعتبار سے پہلی مرتبہ ٹاپ ٹین ممالک میں شامل نہیں تھے۔ سن 2017 میں قریب ساڑھے چار ہزار پاکستانیوں نے جرمنی میں حکام کو پناہ کی درخواستیں دیں۔