1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی ولی عہد اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے

عاطف توقیر
6 نومبر 2017

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے انسداد دہشت گردی کی کارروائی کرتے ہوئے متعدد شہزادوں، وزراء اور سرمایہ کاروں کو گرفتار کر لیا ہے، جن میں ارب پتی الولید بن طلال جیسی مشہور کاروباری شخصیت بھی شامل ہے۔

Mohammed bin Salman
تصویر: picture-alliance/abaca/Balkis Press

شہزادہ الولید، جو سعودی بادشاہ کے بھتیجے اور ملک کی مشور کنگڈم ہولڈنگ نامی سرمایہ کار کمپنی کے مالک ہیں، ان گیارہ شہزادوں، چار وزراء  اور متعدد سابقہ وزرا میں سے ایک ہیں، جنہیں حراست میں لیا گیا ہے۔

سعودی خواتین اسٹیڈیم میں داخل ہو سکیں گی

محمد بن سلمان: ایک اصلاحات پسند لیکن سخت گیر لیڈر

کیا نئے سعودی ولی عہد کی پاکستان پالیسی زیادہ سخت ہو گی؟

سعودی عرب کی اس سیاسی اور کاروباری اشرافیہ کے خلاف اس انداز کی کارروائی اس سے پہلے نہیں دیکھی گئی۔ حراست میں لیے جانے والے افراد میں نیشنل گارڈ کے سربراہ شہزادہ معطِب بن عبداللہ بھی شامل ہیں، جن سے یہ عہدہ واپس لے کر ان کی جگہ شہزادہ خالد بن ایاف کو نیشنل گارڈ کی وزیر مقرر کیا گیا ہے۔

ایک ذریعے نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ہے کہ پرنس الولید پر منی لانڈرنگ، رشوت ستانی، حکام کو دھمکانے جیسے االزامات عائد کیے گئے ہیں۔ اسی طرح شہزادہ معطب پر الزامات ہیں کہ انہوں نے غیرقانونی طور پر اپنی ہی کمپنیوں کو کانٹریکٹ دیے اور اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ ملازمین کی بھرتی میں غلط بیانی سے کام لیا۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے واکی ٹاکی اور بلٹ پروف عسکری ساز و سامان کی ایک ڈیل میں دس ارب ڈالر کا کانٹریکٹ اپنی کمپنی کو دیا۔

روئٹرز کے مطابق ان الزامات کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں ہو سکی ہے اور زیرحراست افراد کے اہل خانہ سے رابطہ بھی ممکن نہیں ہے۔

معروف اور بااختیار سعودی اشرافیہ کے ان افراد کے خلاف اس کارروائی سے قبل شاہ سلمان نے ایک حکم نامہ جاری کیا تھا، جس میں انسدادِ بدعنوانی کی ایک کمیٹی بنائی گئی تھی، جس کی سربراہی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کر رہے ہیں۔

’سعودی عرب میں خواتین اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو رہی ہیں‘

07:23

This browser does not support the video element.

اس کمیٹی کو بے انتہا اختیارات دیے گئے ہیں، جن میں مقدمات کی تفتیش کرنا، گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنا، سفری پابندیاں عائد کرنا اور اثاثے ضبط کرنا جیسے اختیارات شامل ہیں۔

حکم نامے کے مطابق، ’’اگر ملک سے کرپشن کا خاتمہ نہ کیا گیا اور احتساب کا عمل نافذ نہ ہوا، تو ملک قائم نہیں رہ سکے گا۔‘‘

ماہرین کا تاہم کہنا ہے کہ یہ گرفتاریاں ولی عہد کی جانب سے ملکی اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط بنانے اور اپنے راستے میں حائل تمام مضبوط افراد اور شخصیات کا اثرورسوخ ختم کرنے کی ایک کارروائی ہو سکتی ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں