مستونگ حملہ ایک بزدلانہ کارروائی تھا، چانسلر میرکل
شمشیر حیدر اے پی کے ساتھ
14 جولائی 2018
چانسلر انگیلا میرکل نے مستونگ میں ایک انتخابی ریلی پر کیے گئے خونریز دہشت گردانہ حملے کو بزدلانہ کارروائی قرار دیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پاکستانی وزیر اعظم اور حملے کے متاثرین کے نام ایک تعزیتی پیغام میں کیا۔
اشتہار
مستونگ میں دہشت گردانہ حملے کے بعد پاکستان کے نگران وزیر اعظم ناصرالملک نے اتوار کے دن قومی سطح پر سوگ منانے کے اعلان کیا ہے۔ انتخابی ریلی پر کیے گئے اس حملے میں صوبائی اسمبلی کی ایک نشست کے لیے امیدوار سراج رئیسانی سمیت ایک سو چالیس افراد ہلاک ہوئے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں انتخابی ریلیوں پر حملوں اور ان کے نتیجے میں بڑی تعداد میں انسانی ہلاکتوں کے بعد عالمی سطح پر ان واقعات کی مذمت کی جا رہی ہے۔
پاکستانی نگران وزیر اعظم ناصرالملک کو بھیجے گئے اپنے ایک تعزیتی پیغام میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے لکھا، ’’صوبہ بلوچستان میں ایک انتخابی ریلی پر کیے گئے خوفناک دہشت گردانہ حملے کی خبر نے مجھے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ میں اس بزدلانہ حملے، جس میں کئی انسانی جانیں ضائع ہوئیں، کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہوں۔ یقین رکھیے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جرمنی آپ (پاکستان) کے ساتھ کھڑا ہے۔‘‘
چانسلر میرکل نے پاکستانی وزیر اعظم کے نام اپنے تعزیتی پیغام میں اس حملے میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین سے بھی اظہار تعزیت کیا۔ علاوہ ازیں جرمن وزارت خارجہ کی جانب سے بھی مستونگ حملے کی شدید مذمت کی گئی ہے۔
جرمنی کی علاوہ جاپانی وزارت خارجہ کی جانب سے بھی اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مستونگ اور بنوں میں ہونے والے حملوں میں بڑی تعداد میں انسانی ہلاکتوں پر جاپان بھی صدمے میں ہے۔ جاپان نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستانی حکومت اور عوام کی کوششوں کے ساتھ اظہار یکجہتی بھی کیا ہے۔
ترک وزارت خارجہ نے بھی مستونگ میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہا، ’’ہماری دعا ہے کہ اللہ اس حملے میں ہلاک ہونے والوں پر رحم کرے اور زخمیوں کو جلد صحت یاب کرے۔‘‘
امریکا نے بھی بنوں اور مستونگ میں دہشت گردانہ حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملے پاکستانی عوام کو ان کے جمہوری حقوق سے محروم کرنے کی بزدلانہ کوششیں ہیں۔
ایرانی دفتر خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے بھی اپنے ایک پیغام میں مستونگ دہشت گردانہ حملے میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔
بحرین، متحدہ عرب امارات، مصر، آسٹریلیا اور تنظیم برائے اسلامی تعاون کی جانب سے بھی پاکستان میں حالیہ دہشت گردانہ حملوں کی مذمت کی گئی ہے۔
یہ امر بھی اہم ہے کہ مستونگ حملے کی ذمہ داری دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے قبول کی ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق داعش نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے یہ نہیں بتایا کہ یہ حملہ کیوں کیا گیا۔
دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ دس ممالک
سن 2017 کے ’گلوبل ٹیررازم انڈیکس‘ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 59 فیصد کم رہی۔ اس انڈیکس کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ دہشت گردی کےشکار ممالک یہ رہے۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
عراق
عراق دہشت گردی کے شکار ممالک کی فہرست میں گزشتہ مسلسل تیرہ برس سے سر فہرست ہے۔ رواں برس کے گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق گزشتہ برس عراق میں دہشت گردی کے قریب تین ہزار واقعات پیش آئے جن میں قریب 10 ہزار افراد ہلاک جب کہ 13 ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ دہشت گرد تنظیم داعش نے سب سے زیادہ دہشت گردانہ کارروائیاں کیں۔ عراق کا جی ٹی آئی اسکور دس رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP
افغانستان
افغانستان اس فہرست میں دوسرے نمبر پر رہا جہاں قریب ساڑھے تیرہ سو دہشت گردانہ حملوں میں ساڑھے چار ہزار سے زائد انسان ہلاک جب کہ پانچ ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ افغانستان میں دہشت گردی کے باعث ہلاکتوں کی تعداد، اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں چودہ فیصد کم رہی۔ زیادہ تر حملے طالبان نے کیے جن میں پولیس، عام شہریوں اور حکومتی دفاتر کو نشانہ بنایا گیا۔ افغانستان کا جی ٹی آئی اسکور 9.44 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
نائجیریا
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں جی ٹی آئی اسکور 9.00 کے ساتھ نائجیریا تیسرے نمبر پر ہے۔ اس افریقی ملک میں 466 دہشت گردانہ حملوں میں اٹھارہ سو سے زائد افراد ہلاک اور ایک ہزار کے قریب زخمی ہوئے۔ سن 2014 میں ایسے حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد ساڑھے سات ہزار سے زائد رہی تھی۔
تصویر: Reuters/Stringer
شام
جی ٹی آئی انڈیکس کے مطابق خانہ جنگی کا شکار ملک شام دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ شام میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں زیادہ تر داعش اور النصرہ کے شدت پسند ملوث تھے۔ شام میں سن 2016 میں دہشت گردی کے 366 واقعات رونما ہوئے جن میں اکیس سو انسان ہلاک جب کہ ڈھائی ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں شام کا اسکور 8.6 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP
پاکستان
پاکستان اس فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے جہاں گزشتہ برس 736 دہشت گردانہ واقعات میں ساڑھے نو سو افراد ہلاک اور سترہ سو سے زائد زخمی ہوئے۔ دہشت گردی کی زیادہ تر کارروائیاں تحریک طالبان پاکستان، داعش کی خراسان شاخ اور لشکر جھنگوی نے کیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کے باعث ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 59 فیصد کم رہی جس کی ایک اہم وجہ دہشت گردی کے خلاف ضرب عضب نامی فوجی آپریشن بنا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
یمن
یمن میں متحارب گروہوں اور سعودی قیادت میں حوثیوں کے خلاف جاری جنگ کے علاوہ اس ملک کو دہشت گردانہ حملوں کا بھی سامنا ہے۔ مجموعی طور پر دہشت گردی کے 366 واقعات میں قریب ساڑھے چھ سو افراد ہلاک ہوئے۔ دہشت گردی کے ان واقعات میں حوثی شدت پسندوں کے علاوہ القاعدہ کی ایک شاخ کے دہشت گرد ملوث تھے۔
تصویر: Reuters/F. Salman
صومالیہ
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں صومالیہ ساتویں نمبر پر رہا جہاں الشباب تنظیم سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے نوے فیصد سے زائد حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ الشباب کے شدت پسندوں نے سب سے زیادہ ہلاکت خیز حملوں میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں شام کا اسکور 7.6 رہا۔
تصویر: picture alliance/dpa/AAS. Mohamed
بھارت
جنوبی ایشیائی ملک بھارت بھی اس فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہے جہاں دہشت گردی کے نو سو سے زائد واقعات میں 340 افراد ہلاک جب کہ چھ سو سے زائد زخمی ہوئے۔ یہ تعداد سن 2015 کے مقابلے میں اٹھارہ فیصد زیادہ ہے۔ انڈیکس کے مطابق بھارت کے مشرقی حصے میں ہونے والی زیادہ تر دہشت گردانہ کارروائیاں ماؤ نواز باغیوں نے کیں۔ 2016ء میں لشکر طیبہ کے دہشت گردانہ حملوں میں پانچ بھارتی شہری ہلاک ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Seelam
ترکی
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں ترکی پہلی مرتبہ پہلے دس ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ ترکی میں 364 دہشت گردانہ حملوں میں ساڑھے چھ سو سے زائد افراد ہلاک اور قریب تئیس سو زخمی ہوئے۔ دہشت گردی کے زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری پی کے کے اور ٹی اے کے نامی کرد شدت پسند تنظیموں نے قبول کی جب کہ داعش بھی ترک سرزمین پر دہشت گردانہ حملے کیے۔
تصویر: Reuters/Y. Karahan
لیبیا
لیبیا میں معمر قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد یہ ملک تیزی سے دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا۔ گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق گزشتہ برس لیبیا میں 333 دہشت گردانہ حملوں میں پونے چار سو افراد ہلاک ہوئے۔ لیبیا میں بھی دہشت گردی کی زیادہ تر کارروائیاں دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے منسلک مختلف گروہوں نے کیں۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں لیبیا کا اسکور 7.2 رہا۔