حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان کے ضلعے مستونگ میں ہونے والے بدترین دہشت گردانہ واقعے کے مشتبہ حملہ آور کی شناخت کر لی گئی ہے۔
اشتہار
جمعرات کے روز پاکستانی حکام کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ مشتبہ حملہ آور دو برس تک افغانستان میں جہادی سرگرمیوں میں ملوث رہا تھا۔ گزشتہ ہفتے ہونے والے اس دہشت گردانہ واقعے میں ڈیڑھ سو سے زائد افراد ہلاک جب کہ درجنوں زخمی ہوئے تھے۔ اس حملہ آور نے رواں ماہ کی 25 تاریخ کو ہونے والے عام انتخابات کے سلسلے میں منعقدہ ایک انتخابی اجتماع کے درمیان خود کو دھماکے سے اڑا دیا تھا۔
حکام کے مطابق جائے واقعہ سے اس خودکش بمبار کے ہاتھ سے لیے گئے ڈی این اے نمونے کے ذریعے اس کی شناخت کی گئی۔ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں تفصیلات بتاتے ہوئے پاکستان کے انسدادِ دہشت گردی محکمے کے ایک عہدیدار اعتزاز گورایہ نے بتایا کہ حملہ آور حفیظ نواز نامی پاکستانی شہری تھا، جو دو برس تک کابل حکومت کے خلاف جاری عسکریت پسندی میں شرکت کے لیے افغانستان میں موجود رہا۔
نواز کے اہل خانہ نے بھی بتایا ہے کہ ان کا بیٹا دو برس سے ’’کابل حکومت کی مدد کرنے والے بین الاقوامی عسکری اتحاد کے خلاف جہادی سرگرمیوں کے لیے افغانستان میں تھا‘‘۔
پولیس کے مطابق اس خودکش بمبار کی اس کارروائی میں اسے مقامی مدد ملی ہو گی اور اسی تناظر میں پولیس اس حملہ آور کے معاونین کی تلاش میں مصروف ہے۔
پاکستانی شیعہ کمیونٹی کا ملک گیر احتجاج اور دھرنے
بلوچستان کے جنوب مغربی علاقے مستونگ میں منگل کو شیعہ زائرین کی ایک بسں پر حملے اور ہلاکتوں کے خلاف کوئٹہ، کراچی، لاہور اور ملک کے دیگر حصوں میں احتجاج جاری ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کراچی میں ایک شیعہ مسلمان لڑکی منگل کے روز ہونے والے واقعے کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔ بلوچستان کے جنوب مغربی علاقے مستونگ میں ہونے والی اس فرقہ ورانہ کارروائی میں بڑی تعداد میں شیعہ زائرین سمیت کم از کم اٹھائیس افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
تصویر: Reuters
کراچی میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے باعث ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو چکا ہے۔ ان مظاہروں میں خواتین، مرد اور بچے بھی شامل ہیں۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ ملک میں نام بدل کر کام کرنے والی کالعدم عسکری تنظیموں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
تصویر: Reuters
شیعہ کمیونٹی کی طرف سے لاہور میں بھی احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ شرکاء کا کہنا ہے کہ جب تک ان کے مطالبات پورے نہیں ہو جاتے، احتجاج جاری رہے گا۔
تصویر: AFP/Getty Images
کوئٹہ میں علمدار روڈ کے قریب ٹائر جلاتے ہوئے احتجاج کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی کل آبادی کا تقریباً 20 فیصد حصہ شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔
تصویر: /AFP/Getty Images
ہزارہ شیعہ کیمونٹی کے سینکڑوں افراد نے مستونگ مں ہلاک ہونے والے افراد کی لاشوں کے ہمراہ کوئٹہ میں علمدار روڈ پر دھرنا دے رکھا ہے۔ اس احتجاج میں خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد بھی شریک ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
ہزارہ کمیونٹی کے افراد کو پہلے بھی متعدد مرتبہ دہشت گردانہ کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اسی طرح کے احتجاج کے نتیجے میں صوبائی حکومت کا خاتمہ ہوا تھا اور ایمرجنسی کا نفاذ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters
مجلس وحد ت المسلمین کے رہنما علامہ ہاشم موسوی کے بقول، ’’ہم اپنا دھرنا جاری رکھیں گے اور پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔ وفاقی حکومت کا نمائندہ آئے اور اپنے ساتھ ٹارگٹڈ آپریشن پر عمل درآمد کے حوالے سے ضمانت پیش کرے، تب ہی ہم دھرنا ختم کر کے شہداء کی تدفین کریں گے۔‘‘
تصویر: G. Kakar
بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بدھ کو علمدار روڈ کا دورہ کیا اور اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ہزارہ برادری کے دھرنے میں شامل اراکین سے دھرنا ختم کرنے کو کہا تاہم مظاہرین نے ان کا مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
شیعہ کمیونٹی کے خلاف حملوں کا خطرہ اب بھی موجود ہے۔ کوئٹہ کی مختلف امام بارگاہوں کی سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
9 تصاویر1 | 9
گزشتہ ہفتے مقامی سیاست دان سراج رئیسانی کے انتخابی جلسے میں ہونے والے اس حملے کی ذمہ داری اسلامک اسٹیٹ نے قبول کی تھی۔ اس واقعے میں سراج رئیسانی سمیت مجموعی طور پر 156 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
یہ بات اہم ہے کہ پاکستان میں سن 2014ء میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد عسکریت پسندوں کے خلاف بڑے فوجی آپریشن کے تناظر میں ملک بھر میں دہشت گردانہ واقعات میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔ تاہم انتخابات سے قبل ایک مرتبہ پھر متعدد پرتشدد واقعات دیکھنے میں آئے ہیں۔