سینائی پر خونریز دہشت گردانہ حملے کے بعد مصری صدر نے جنگجوؤں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جمعے کے دن اس مصری علاقے میں واقع ایک مسجد پر ہوئے حملے کے نتیجے میں تین سو سے زائد افراد ہلاک یا زخمی ہو گئے ہیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے مصری حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ مصری فضائیہ نے جزیرہ نما سینائی میں جنگجوؤں کے ٹھکانوں پر حملے کیے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ یہ حملے مشتبہ جنگجوؤں کے ایسے ٹھکانوں پر کیے گئے، جو سینائی میں مختلف حملوں کا باعث بنتے ہیں۔ انہی جنگجوؤں پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے جمعے کے دن شمالی سینائی میں ایک مسجد پر حملہ کیا تھا۔
حکام کے مطابق حملہ آوروں نے نماز جمعہ کے دوران پہلے اس مسجد کو بم سے نشانہ بنایا اور جب نمازی وہاں سے فرار ہونے کی کوشش کرنے لگے تو جنگجوؤں نے ان پر فائرنگ کر دی۔ الروضہ نامی یہ مسجد سینائی کے بئر العبد نامی علاقے میں واقع ہے۔
یہ مسجد صوفی نظریات کے حامل مسلمان افراد میں مقبول تھی اور وہاں جانے والوں میں زیادہ تر افراد صوفی ہی ہوتے تھے۔ ابھی تک کسی گروہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تاہم مصر کے اس شورش زدہ علاقے میں فعال اسلامک اسٹیٹ اور اس کے حامی جنگجو گروہ صوفی اسلام کے خلاف ہیں۔
طبی حکام نے بتایا ہے کہ اس مسجد پر ہوئے حملے کے نتیجے میں 235 افراد ہلاک جبکہ ایک سو نو زخمی ہوئے ہیں۔ سینائی میں فعال جنگجو ماضی میں سکیورٹی دستوں اور غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو ہی نشانہ بناتے آئے ہیں تاہم اس مرتبہ ایک مسجد پر حملے کے باعث مصر بھر میں ایک غم وغصے کی لہر دیکھی جا رہی ہے۔
اس تناظر میں مصری صدر نے اپنے ایک نشریاتی خطاب میں عہد کیا ہے کہ وہ سینائی میں موجود جنگجوؤں کے ٹھکانوں کو ختم کرنے کی خاطر عسکری کارروائی میں تیزی لائیں گے۔
انہوں نے اس حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے مزید کہا کہ ملکی سکیورٹی دستے سینائی کی اس مسجد پر ملوث حملہ آوروں کے خلاف سرعت سے کارروائی کریں گے۔ السیسی نے زور دیا کہ ہلاک ہونے والے شہریوں کا خون ضائع نہیں جائے گا۔
ادھر ملکی فوجی کے ترجمان نے کہا ہے کہ جمعے کے دن ہوئے حملے کے لیے استعمال ہونے والی گاڑیوں کا پتا چلاتے ہوئے انہیں تباہ کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح جنگجوؤں کے کئی ٹھکانوں پر بمباری بھی کی گئی ہے۔
سرکاری میڈیا نے فوجی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ جمعے کی شام سے شروع ہونے والی فوجی کارروائی کے نتیجے میں اس حملے میں ملوث متعدد جنگجوؤں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔ مصری حکومت نے اس خونریز کارروائی پر ملک میں تین روزہ سوگ کا اعلان بھی کیا ہے۔
داعش کے خلاف برسر پیکار ایران کی کُرد حسینائیں
ایران کی تقریباﹰ دو سو کرد خواتین عراق کے شمال میں داعش کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ یہ کردوں کی فورس پیش مرگہ میں شامل ہیں اور انہیں امریکی افواج کی حمایت بھی حاصل ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق جب بھی داعش کے عسکریت پسندوں کی طرف سے ایران کی ان کرد خواتین پر مارٹر گولے برسائے جاتے ہیں تو سب سے پہلے یہ ان کا جواب لاؤڈ اسپیکروں پر گیت گا کر دیتی ہیں۔ اس کے بعد مشین گنوں کا رخ داعش کے ٹھکانوں کی طرف کر دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
اکیس سالہ مانی نصراللہ کا کہنا ہے کہ وہ گیت اس وجہ سے گاتی ہیں تاکہ داعش کے عسکریت پسندوں کو مزید غصہ آئے، ’’اس کے علاوہ ہم ان کو بتانا چاہتی ہیں کہ ہمیں ان کا خوف اور ڈر نہیں ہے۔‘‘ تقریباﹰ دو سو ایرانی کرد خواتین ایران چھوڑ کر عراق میں جنگ کر رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
یہ کرد خواتین چھ سو جنگ جووں پر مشتمل ایک یونٹ کا حصہ ہیں۔ اس یونٹ کا کردستان فریڈم پارٹی سے اتحاد ہے۔ کرد اسے ’پی اے کے‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
چھ سو جنگ جووں پر مشتمل یہ یونٹ اب عراقی اور امریکی فورسز کے زیر کنٹرول اس یونٹ کے ساتھ ہے، جو موصل میں داعش کے خلاف برسر پیکار ہے۔ کرد جنگ جووں کا اپنے ایک ’آزاد کردستان‘ کے قیام کا بھی منصوبہ ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
مستقبل میں کرد جنگ جو شام، عراق، ترکی اور ایران کے چند حصوں پر مشتمل اپنا وطن بنانا چاہتے ہیں لیکن ان تمام ممالک کی طرف سے اس منصوبے کی شدید مخالفت کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی کرد باغیوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ایک کرد خاتون جنگ جو کا کہنا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے لڑ رہی ہیں۔ وہ سرزمین چاہیے ایران کے قبضے میں ہو یا عراق کے وہ اپنی سر زمین کے لیے ایسے ہی کریں گی۔ ان کے سامنے چاہے داعش ہو یا کوئی دوسری طاقت اوہ اپنی ’مقبوضہ سرزمین‘ کی آزادی کے لیے لڑیں گی۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
اس وقت یہ خواتین مرد کردوں کے ہم راہ عراق کے شمال میں واقع فضلیہ نامی ایک دیہات میں لڑ رہی ہیں۔ ایک بتیس سالہ جنگ جو ایوین اویسی کا کہنا تھا، ’’یہ حقیقت ہے کہ داعش خطرناک ہے لیکن ہمیں اس کی پروا نہیں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ایک جنگ جو کا کہنا تھا کہ اس نے پیش مرگہ میں شمولیت کا فیصلہ اس وقت کیا تھا، جب ہر طرف یہ خبریں آ رہی تھیں کہ داعش کے فائٹرز خواتین کے ساتھ انتہائی برا سلوک کر رہے ہیں، ’’میں نے فیصلہ کیا کہ ان کو میں بھی جواب دوں گی۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ان خواتین کی شمالی عراق میں موجودگی متنازعہ بن چکی ہے۔ ایران نے کردستان کی علاقائی حکومت پر ان خواتین کو بے دخل کرنے کے لیے دباؤ بڑھا دیا ہے۔ سن دو ہزار سولہ میں کرد جنگ جووں کی ایرانی دستوں سے کم از کم چھ مسلح جھڑپیں ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ان کے مرد کمانڈر حاجر باہمانی کا کے مطابق ان خواتین کے ساتھ مردوں کے برابر سلوک کیا جاتا ہے اور انہیں ان خواتین پر فخر ہے۔ ان خواتین کو چھ ہفتوں پر مشتمل سنائپر ٹریننگ بھی فراہم کی گئی ہے۔