مسعود اظہر سے متعلق فیصلہ: سفارتی فتح کا بھارتی دعویٰ مسترد
عبدالستار، اسلام آباد
2 مئی 2019
پاکستانی حکومت اور کئی سیاسی مبصرین نے اس بھارتی تاثر کو مسترد کر دیا ہے، جس کے تحت نئی دہلی حکومت کالعدم عسکریت پسند تنظیم جیش محمد کے امیر مسعود اظہر کے عالمی دہشت گرد قرار دیے جانے کو اپنی سفارتی فتح قرار دے رہی ہے۔
اشتہار
مسعود اظہر کو کل یکم مئی بدھ کے روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک عالمی دہشت گرد قرار دے دیا تھا، جس کے بعد بھارتی حکومت اور میڈیا نے اسے بھارت کی فتح سے تعبیر کیا تھا۔ تاہم پاکستانی حکومت اور کئی ماہرین کے خیال میں اس فیصلے سے پاکستان پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔
اسلام آباد میں پاکستانی دفتر خارجہ نے کل ہی میڈیا کو بتایا تھا کہ مسعود اظہر کا معاملہ عالمی سلامتی کونسل کی پابندیوں سے متعلق کمیٹی میں برسوں سے زیر التوا تھا اور ان کی تنظیم پاکستان میں انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت پہلے ہی کالعدم ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل کا کہنا تھا کہ سلامتی کونسل کی پابندیاں لگانے والی کمیٹی کے واضح ضابطے ہیں اور ان ضابطوں کی بنیاد تکنیکی معاملات ہیں۔ ان کے مطابق اس کمیٹی کا طریقہ کار اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ارکان تکنیکی بنیادوں پر کسی بھی مسودے کو التوا میں ڈال دیں تاکہ ان معاملات پر مزید گفت وشنید ہو سکے، جو سلامتی کونسل میں زیر غور ہوں۔
بھارت کو روسی دفاعی میزائل نظام کی ضرورت کیوں ہے؟
امریکی پابندیوں کی فکر کیے بغیر بھارت روس سے 5.2 ارب ڈالر مالیت کا ایس چار سو ایئر ڈیفنس میزائل سسٹم خرید رہا ہے۔ آخر بھارت ہر قیمت پر یہ میزائل سسٹم کیوں خریدنا چاہتا ہے؟
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Malgavko
تعلقات میں مضبوطی
دفاعی میزائل نظام کی خریداری کے معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد نریندری مودی اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ وقت کے ساتھ ساتھ نئی دہلی اور ماسکو کے مابین تعلقات ’مضبوط سے مضبوط تر‘ ہوتے جا رہے ہیں۔ رواں برس دونوں رہنماؤں کے مابین یہ تیسری ملاقات تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/Y. Kadobnov
ایس چار سو دفاعی نظام کیا ہے؟
زمین سے فضا میں مار کرنے والے روسی ساختہ S-400 نظام بلیسٹک میزائلوں کے خلاف شیلڈ کا کام دیتے ہیں۔ اپنی نوعیت کے لحاظ سے اسے دنیا کا زمین سے فضا میں مار کرنے والا لانگ رینج دفاعی نظام بھی تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Malgavko
بھارت کی دلچسپی
بھارت یہ دفاعی میزائل چین اور اپنے روایتی حریف پاکستان کے خلاف خرید رہا ہے۔ یہ جدید ترین دفاعی میزائل سسٹم انتہائی وسیع رینج تک لڑاکا جنگی طیاروں، حتیٰ کہ اسٹیلتھ بمبار ہوائی جہازوں کو بھی نشانہ بنانے اور انہیں مار گرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
تصویر: Imago/Itar-Tass
کئی مزید معاہدے
بھارت روس سے کریواک فور طرز کی بحری جنگی کشتیاں بھی خریدنا چاہتا ہے۔ اس طرح کا پہلا بحری جنگی جہاز روس سے تیار شدہ حالت میں خریدا جائے گا جب کہ باقی دونوں گوا کی جہاز گاہ میں تیار کیے جائیں گے۔ بھارت کے پاس پہلے بھی اسی طرح کے چھ بحری جہاز موجود ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
امریکی دھمکی
امریکا نے بھارت کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو ممالک بھی روس کے ساتھ دفاع اور انٹیلیجنس کے شعبوں میں تجارت کریں گے، وہ امریکی قانون کے تحت پابندیوں کے زد میں آ سکتے ہیں۔ روس مخالف کاٹسا (CAATSA) نامی اس امریکی قانون پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس اگست میں دستخط کیے تھے۔ یہ قانون امریکی انتخابات اور شام کی خانہ جنگی میں مداخلت کی وجہ سے صدر پوٹن کو سزا دینے کے لیے بنایا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/K. Lamarque
بھارت کے لیے مشکل
سابق سوویت یونین کے دور میں بھارت کا اسّی فیصد اسلحہ روس کا فراہم کردہ ہوتا تھا لیکن سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے نئی دہلی حکومت اب مختلف ممالک سے ہتھیار خرید رہی ہے۔ امریکا کا شمار بھی بھارت کو ہتھیار فراہم کرنے والے بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ گزشتہ ایک عشرے کے دوران بھارت امریکا سے تقریباﹰ پندرہ ارب ڈالر مالیت کے دفاعی معاہدے کر چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed
بھارت کے لیے کوئی امریکی رعایت نہیں
گزشتہ ماہ امریکا نے چین پر بھی اس وقت پابندیاں عائد کر دی تھیں، جب بیجنگ حکومت نے روس سے جنگی طیارے اور ایس چار سو طرز کے دفاعی میزائل خریدے تھے۔ امریکی انتظامیہ فی الحال بھارت کو بھی اس حوالے سے کوئی رعایت دینے پر تیار نظر نہیں آتی۔ تاہم نئی دہلی کو امید ہے کہ امریکا دنیا میں اسلحے کے بڑے خریداروں میں سے ایک کے طور پر بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات خراب نہیں کرے گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Dufour
7 تصاویر1 | 7
ڈاکٹر فیصل کا کہنا تھا کہ پہلے جو تجاویز آئی تھیں، ان کا مقصدپاکستان اور (بھارت کے زیر انتظام) کشمیر میں کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی تحریک کو ’بدنام‘ کرنا تھا۔ ’’اسی لیے پاکستان نے انہیں مسترد کر دیا تھا لیکن موجودہ تجاویز کو اس لیے منظور کر لیا گیا کہ ان میں سے تما م سیاسی حوالے نکال دیے گئے تھے۔‘‘
معروف دفاعی تجزیہ نگار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب بھی پاکستانی دفتر خارجہ کے اس موقف سے اتفاق کرتے ہیں۔ انہوں نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں کہا، ’’بھارت چاہتا تھا کہ پلوامہ کے حملے کو اس سے جوڑا جائے اور پاکستان پر الزام لگایا جائے کہ وہ بحیثیت ریاست دہشت گردی کی حمایت کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بھارتی تجویز کشمیریوں کو بھی بدنام کرنے کے مترادف تھی۔ مسعود اظہر کو اگر دہشت گرد قرار دیا گیا ہے، تو اس کی وجہ طیارہ ہائی جیکنگ اور القاعدہ سے تعلق ہے۔ اس میں بھارت کی تو کوئی کامیابی نہیں ہے۔ چین نے اس بارے میں اپنی وجہ سے تکنیکی التوا کو پاکستان کے ساتھ مشاورت کے بعد ختم کیا ہے۔‘‘
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کا کہنا تھا کہ جن اقدامات کا سلامتی کونسل نے مطاکبہ کیا ہے، پاکستان وہ پہلے ہی کر چکا ہے، ’’مسعود اظہر کے بینک اکاؤنٹس، سفر اور ہتھیار رکھنے پر پہلے ہی سے پابندی عائد ہے۔ ان کی تنظیم بھی کالعدم قرار دی جا چکی ہے۔ اس لیے میری رائے میں سفارتی، سیاسی اور عالمی سطح پر پاکستان کو کسی بھی مسئلے کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔‘‘
کشمیر میں کرفیو، موبائل اور انٹرنیٹ سروس معطل
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آج علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی پہلی برسی منائی جا رہی ہے۔ اس موقع پر کشمیر کے زیادہ تر حصوں میں کرفیو نافذ ہے اور موبائل سمیت انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی ہے۔
تصویر: Picture Alliance/AP Photo/ K. M. Chauday
بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں مشتعل مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
تصویر: Picture Alliance/AP Photo/ K. M. Chauday
اس موقع پر بھارتی فورسز کی طرف سے زیادہ تر علیحدگی پسند لیڈروں کو پہلے ہی گرفتار کر لیا گیا تھا یا پھر انہیں گھروں پر نظر بند کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
بھارتی فورسز کی جانب سے مظاہرین کے خلاف آنسو گیس کے ساتھ ساتھ گولیوں کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
مظاہرین بھارت مخالف نعرے لگاتے ہوئے حکومتی فورسز پر پتھر پھینکتے رہے۔ درجنوں مظاہرین زخمی ہوئے جبکہ ایک کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
ایک برس پہلے بھارتی فورسز کی کارروائی میں ہلاک ہو جانے والے تئیس سالہ عسکریت پسند برہان وانی کے والد کے مطابق ان کے گھر کے باہر سینکڑوں فوجی اہلکار موجود ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
برہان وانی کے والد کے مطابق وہ آج اپنے بیٹے کی قبر پر جانا چاہتے تھے لیکن انہیں گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
تصویر: Getty Images/T.Mustafa
باغی لیڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے شروع ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے دوران سکیورٹی اہلکاروں کی جوابی کارروائیوں میں اب تک ایک سو کے قریب انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
کشمیر کے علیحدگی پسند لیڈروں نے وانی کی برسی کے موقع پر ایک ہفتہ تک احتجاج اور مظاہرے جاری رکھنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
ایک برس قبل آٹھ جولائی کو نوجوان علیحدگی پسند نوجوان لیڈر برہان وانی بھارتی فوجیوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں مارا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/T.Mustafa
9 تصاویر1 | 9
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر ظفر نواز جسپال بھی اس تاثر کی نفی کرتے ہیں کہ اس سے پاکستان کے لیے بہت سی نئی مشکلات پیدا ہوں گی۔ انہوں نے کہا، ’’اب ہمیں یہ ضرور کرنا پڑے گا کہ ہمیں رپورٹیں لکھ کر عالمی سلامتی کونسل کو بتانا پڑے گا کہ ہم نے کیا اقدامات کیے ہیں۔ بظاہر یہ بہت بڑی بات لگتی ہے کہ UNSC نے کسی ایسے فرد کو دہشت گرد قرار دے دیا ہے، جو پاکستان میں ہے۔ لیکن ایسا پہلے بھی کچھ افراد کے حوالے سے کیا گیا اور انہیں عالمی دہشت گرد قرار دیا گیا تاہم عملی طور پر میرے خیال میں اس سے پاکستان کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہو گا۔‘‘
تاہم کچھ ماہرین کے خیال میں پاکستان کے لیے یہ کوئی اچھی خبر نہیں کیونکہ یہ ایک ایسے وقت پر آئی ہے جب ملک کو شدید مالی بحران کا سامنا ہے اور اس سے نکلنے کے لیے پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں کے پاس جانا پڑے گا، جہاں اس قرارداد کے حمایتی ممالک، یعنی امریکا، برطانیہ اور فرانس، بہت طاقتور ہیں اور وہ اس ماحول اور قرارداد کو پاکستان کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں۔
اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے عالمی ادارہ برائے امن و استحکام سےوابستہ ڈاکٹر بکر نجم الدین کے خیال میں بھارت اس قرارداد کو بین الاقوامی طور پر پاکستان کو تنہا کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اس پابندی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا اور دیگر طاقت ور ممالک کی حکومتوں اور نئی دہلی کا آپس میں قریبی رشتہ بن گیا ہے۔ بھارت اب اس پابندی کو پاکستان پر مزید دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کرے گا اور پاکستان کو اپنی کشمیر پالیسی بھی تبدیل کرنا پڑ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ امریکا اور دیگر مغربی ممالک بھی ممکنہ طور پر آئی ایم ایف پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ پاکستان کے لیے کڑی شرائط رکھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس پابندی کا اثر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے فیصلے پر بھی ہو سکتا ہے۔ اس لیے میرے خیال میں یہ پیش رفت پاکستان کے لیے ایک بڑا سفارتی دھچکا ہے۔‘‘
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔