مسلح تنازعات کے سبب ايک سال ميں آٹھ ہزار بچے ہلاک يا زخمی
عاصم سلیم
6 اکتوبر 2017
اقوام متحدہ کے سيکرٹری جنرل انٹونيو گوٹيرش نے کہا ہے کہ شام، يمن، کانگو، افغانستان اور ديگر کئی ممالک ميں جاری مسلح تنازعات ميں گزشتہ برس آٹھ ہزار بچوں کی ہلاکت يا ان کا زخمی ہونا ’ہولناک اور ناقابل قبول‘ بات ہے۔
اشتہار
انٹونيو گوٹيرش نے مسلح تنازعات ميں ملوث فريقوں پر زور ديا ہے کہ وہ لڑکوں اور لڑکيوں کی ہلاکتوں ميں کمی لانے کے ليے اقدامات کریں۔ اقوام متحدہ کے سيکرٹری جنرل نے اپنا يہ بيان ’چلڈرن ان آرمڈ کنفلکٹ‘ نامی رپورٹ ميں ديا ہے جس کی کاپی خبر رساں ادارے ايسوسی ايٹڈ پريس نے حاصل کی۔ رپورٹ کے مطابق سب سے زيادہ بچوں کی ہلاکتيں افغانستان ميں ہوئيں جہاں ايک سال کے عرصے ميں کُل پر 3,512 بچے ہلاک يا زخمی ہوئے۔ اس شورش زدہ ملک کی تاريخ ميں بارہ ماہ کے دوران بچوں کی ہلاکتوں کی يہ سب سے زيادہ تعداد ہے۔
گوٹيريش نے بتايا کہ يمن ميں بھی پچھلے سال کے دوران قريب ساڑھے تيرہ سو بچے زخمی يا ہلاک ہوئے، جن ميں سے پچاس فيصد کی ذمہ دار امريکا کی حمايت يافتہ کوليشن ہے۔
اقوام متحدہ کے سيکرٹری جنرل کے مطابق سن 2015 کے مقابلے ميں پچھلے سال يعنی 2016ء ميں شام اور صوماليہ ميں مسلح کارروائيوں کے مقصد سے بچوں کی بھرتی کی شرح دو گنا سے بھی زيادہ بڑھی ہے۔ عالمی تنظيم نے ايسے 169 کيسز کی نشاندہی کی ہے، جن سے جنوبی سوڈان ميں مجموعی طور پر 1,022 بچے متاثر ہوئے۔ گوٹيريش کے بقول ساٹھ فيصد بھرتيوں ميں حکومتی فورسز ملوث تھيں۔ اقوام متحدہ کی اس رپورٹ ميں بچوں کے خلاف پر تشدد کارروائيوں کے قريب ساتھ ہزار واقعات کا ذکر ہے، جن ميں الشباب، بوکو حرام، طالبان اور داعش جيسی تنظيميں ملوث پائی گئيں۔
اقوام متحدہ کے ترجمان نے اپنے ايک بيان ميں کہا ہے کہ سيکرٹری جنرل نہ صرف مسلح تنازعات ميں آٹھ ہزار بچوں کے زخمی يا ہلاک ہونے پر بل کہ کم عمر افراد کے خلاف جنسی جرائم پر بھی تشويش کا شکار ہيں۔ انہوں نے اسکولوں اور ہسپتالوں پر فضائی حملے پر بھی تشويش ظاہر کی۔
بچپن سے محروم بچے
سیو دی چلڈرن نامی تنظیم نے یکم جون کو بچوں کے عالمی دن کے موقع پر ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ اس کے مطابق دنیا بھر میں کم از کم 730 ملین بچے اپنے بچپن کے سنہری دور سے محروم رہ جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AA/E. Sansar
در بدر کی ٹھوکریں
غیر سرکاری تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ کی تازہ رپورٹ کے مطابق جنگوں اور پرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے بہت سے بچوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑ جاتا ہے۔ بچیوں کی کم عمری میں شادی اور حاملہ ہونے کے علاوہ خراب صحت بھی اس محرومی کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
بچپن کہتے کسے ہیں؟
اس رپورٹ میں بچپن سے مراد وہ وقت ہے، جب بچے صرف کھیلتے کودتے ہیں اور انہیں مختلف چیزیں سکھانے کا عمل شروع کیا جاتا ہے، تاکہ بچوں کی شخصیت تعمیر ہو سکے۔
اس تنظیم کی سربراہ ہیلے تھورننگ شمٹ کے مطابق، ’’بچے غربت اور امتیازی سلوک کی چکی میں پس کر اپنا بچپن کھو رہے ہیں۔‘‘ ہر لڑکی اور ہر لڑکے کو بچپن میں محبت اور تحفظ کے احساس کے علاوہ مکمل دیکھ بھال کا حق بھی حاصل ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Nath
سب سے زیادہ متاثر بچے
End of Childhood یا ’بچپن کا خاتمہ‘ کے عنوان سے تیار کی جانے والی 172 ممالک کی اس فہرست میں مغربی اور وسطی افریقی ممالک سب سے نچلی سطح پر ہیں۔ ان میں بھی نائجر، انگولا اور مالی کے بچے سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں میں شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/I. Sanogo
یورپی بچے خوش قسمت
ناروے، سلووینیا، فن لینڈ، ہالینڈ اور سویڈن کے بچے ہیں، جو اپنے بچپن کے سنہری دور سے سب سے زیادہ لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس فہرست میں جرمنی دسویں مقام پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Pilick
خطرناک مشقت
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تقریباً 168 ملین بچے ایسے ہیں، کام کرنا جن کی مجبوری ہے اور ان میں سے بھی 85 ملین کو انتہائی سخت اور خطرناک حالات میں روزی کمانا پڑتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ouoba
اکثریت ترقی پذیر ممالک میں
سیو دی چلڈرن کے مطابق بچپن سے محروم کر دیے جانے والے ان تقریباً 730 ملین بچوں کی زیادہ تر تعداد کا تعلق ترقی پذیر ممالک کے پسماندہ خاندانوں سے ہے۔ ان علاقوں میں بچوں کو بنیادی سہولیات کے شدید فقدان کا سامنا ہے۔