مسلح جنگجوؤں کی شمالی وزیرستان سے فرار کی کوشش
13 جون 2014خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق افغان سرحد کے قریب پاکستانی قبائلی علاقوں میں سے خاص طور پر شمالی وزیرستان میں سکیورٹی دستوں کے بڑے آپریشن کی افواہیں کافی عرصے سے سننے میں آ رہی ہیں۔ اسی پہاڑی علاقے میں مئی کے آخر میں پاکستانی طالبان اور غیر ملکی عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر فضائی اور زمینی حملے بھی کیے گئے تھے۔
ایک جائزے میں اے ایف پی نے لکھا ہے کہ اس قبائلی علاقے سے اسلام پسند جنگجوؤں کا انخلاء گزشتہ مہینے کے آخر میں ہی شروع ہو گیا تھا۔ مقامی باشندوں کے بقول ان شدت پسندوں نے شمالی وزیرستان سے اسی وقت نکلنا شروع کر دیا تھا جب پاکستانی جنگی طیاروں اور ہیلی کاپٹروں نے وہاں فضائی حملے شروع کیے تھے۔ ان حملوں کے بارے میں بعد میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کی طرف سے کہا گیا تھا کہ ان میں ایسی جگہوں کو نشانہ بنایا گیا جن کے بارے میں انٹیلیجنس ذرائع سے تصدیق ہو گئی تھی کہ وہ پاکستانی طالبان اور غیر ملکی اسلام پسندوں کی پناہ گاہیں تھی۔
اے ایف پی نے شمالی وزیرستان کے مقامی باشندوں کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر وسیع تر ملٹری آپریشن سے پہلے عسکریت پسند وہاں سے نکل گئے تو کسی فوجی کارروائی کے مؤثر ہونے کے بارے میں سوالات کا اٹھنا لازمی بات ہو گی۔ اس خبر رساں ادارے نے لکھا ہے کہ کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر حال ہی میں عسکریت پسندوں نے جو خونریز حملہ کیا، اس کے بعد شمالی وزیرستان سے شدت پسندوں کے فرار کا عمل تیز ہو گیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ کراچی ایئر پورٹ پر 38 افراد کی ہلاکت کی وجہ بننے والے حملے نے ثابت کر دیا کہ پاکستانی حکومت اور طالبان باغیوں کے مابین مذاکراتی عمل حتمی طور پر ناکام ہو گیا ہے۔
اس کے علاوہ گزشتہ بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات اس سال کے دوران پہلی مرتبہ پاکستانی قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون طیاروں سے نئے میزائل حملے بھی کیے گئے۔ ان دو میزائل حملوں میں کم از کم 16 عسکریت پسند مارے گئے تھے۔ سکیورٹی امور کے ماہر کئی تجزیہ کاروں کے بقول کراچی ایئر پورٹ پر حملے کے فوری بعد اور کئی مہینوں کے وقفے سے پاکستان میں نئے سرے سے امریکی ڈرون حملوں نے اس شبے کو تقویت دی ہے کہ ایسی کارروائیوں کے لیے پاکستان اور امریکا کے مابین رابطے اور ہم آہنگی موجود ہیں۔
کراچی کے ہوائی اڈے پر حملے میں ازبکستان سے تعلق رکھنے والے کئی عسکریت پسند بھی شامل تھے۔ اے ایف پی نے لکھا ہے کہ شمالی وزیرستان کے مرکزی قصبے میران شاہ کے رہائشیوں اور مقامی حکام کے بقول پاکستانی اور غیر ملکی عسکریت پسندوں کی اکثریت وہاں سے رخصت ہو چکی ہے۔
ایک مقامی سکیورٹی اہلکار نے اس نیوز ایجنسی کو بتایا، ’’ان جنگجوؤں میں سے زیادہ تر پہاڑوں میں بہت آگے افغان سرحد کی طرف جا چکے ہیں۔‘‘ اس کے علاوہ یہ عسکریت پسند اب وہ دیہات بھی خالی کرتے جا رہے ہیں جو القاعدہ کے حامی دہشت گردوں کے حقانی نیٹ ورک اور غیر ملکی شدت پسندوں کے گڑھ سمجھے جاتے تھے۔
پاکستانی قبائلی علاقوں میں اس وقت جو غیر ملکی عسکریت پسند پناہ لیے ہوئے ہیں، ان میں انٹیلیجنس ذرائع کے مطابق چیچن، ازبک، ترکمان، تاجک اور ایغور نسل کے مسلمان جنگجو شامل ہیں۔ میران شاہ کے ایک مقامی باشندے کے بقول شمالی وزیرستان سے اب تک 80 فیصد پاکستانی اور غیر ملکی عسکریت پسند نکل چکے ہیں۔