مسلح گروہ ’بریگیڈ 48‘ مہاجرین کو یورپ جانے سے روک رہا ہے
شمشیر حیدر روئٹرز
22 اگست 2017
نیوز ایجنسی روئٹرز نے لیبیا میں مختلف ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ لیبیا کے ساحلوں سے اٹلی کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد میں اچانک کمی کی وجہ وہ مسلح گروہ ہیں جو ان ساحلوں پر مہاجرین کو روکنے کے لیے سرگرم ہیں۔
اشتہار
عام طور پر موسم گرما کے دوران سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ تاہم حالیہ مہینوں کے دوران شمالی افریقی ممالک، خاص طور پر لیبیا کے ساحلوں سے بحیرہ روم کے سمندری راستے اختیار کرتے ہوئے اٹلی پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد میں اچانک کمی دیکھی گئی تھی۔ مہاجرت سے متعلقہ امور پر نظر رکھنے والے ماہرین اس اچانک کمی کی وجوہات جاننے سے قاصر رہے تھے۔
تاہم روئٹرز نے اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں لیبیا میں موجود مختلف ذرائع کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ سمندری راستے اختیار کرنے والوں کی تعداد میں اچانک کمی کی سب سے بڑی وجہ لیبیا کے ساحلوں پر سرگرم وہ مسلح گروہ ہیں، جو ایسے تارکین وطن کو یورپ کی طرف سفر پر روانہ ہونے سے روک رہے ہیں۔
پاکستانی تارکین وطن کے کرچی کرچی خواب
مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران ہزارہا پاکستانی بھی مغربی یورپ پہنچے ہیں۔ یونان سے ایک پاکستانی افتخار علی نے ہمیں کچھ تصاویر بھیجی ہیں، جو یورپ میں بہتر زندگی کے خواب اور اس کے برعکس حقیقت کے درمیان تضاد کی عکاس ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
بہتر مستقبل کے خواب کی تعبیر، بیت الخلا کی صفائی
جو ہزاروں پاکستانی تارکین وطن اپنے گھروں سے نکلے، ان کی منزل جرمنی و مغربی یورپی ممالک، اور خواہش ایک بہتر زندگی کا حصول تھی۔ شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ خطرناک پہاڑی اور سمندری راستوں پر زندگی داؤ پر لگانے کے بعد انہیں ایتھنز میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بیت الخلا صاف کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
ایجنٹوں کے وعدے اور حقیقت
زیادہ تر پاکستانی صوبہ پنجاب سے آنے والے تارکین وطن کو اچھے مستقبل کے خواب انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں نے دکھائے تھے۔ جرمنی تک پہنچانے کے ابتدائی اخراجات پانچ لاکھ فی کس بتائے گئے تھے اور تقریباﹰ ہر کسی سے یہ پوری رقم پیشگی وصول کی گئی تھی۔ جب یہ پاکستانی شہری یونان پہنچے تو مزید سفر کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ اسی وقت ایجنٹوں کے تمام وعدے جھوٹے اور محض سبز باغ ثابت ہوئے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پاکستانیوں سے امتیازی سلوک کی شکایت
شام اور دیگر جنگ زدہ ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو بلقان کی ریاستوں سے گزر کر جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک جانے کی اجازت ہے۔ یورپی حکومتوں کے خیال میں زیادہ تر پاکستانی شہری صرف اقتصادی وجوہات کی بنا پر ترک وطن کرتے ہیں۔ اسی لیے انہیں یورپ میں پناہ دیے جانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ یونان میں حکام ان سے نامناسب اور امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
کیمپ میں رہنا ہے تو صفائی تم ہی کرو گے!
ایسے درجنوں پاکستانی تارکین وطن کا کہنا ہے کہ یونانی حکام نے مہاجر کیمپوں میں صفائی کا کام صرف انہی کو سونپ رکھا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو بالعموم مہاجر کیمپوں میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے تاہم انہیں وہاں عارضی قیام کی اجازت صرف اس شرط پر دی گئی ہے کہ وہاں صفائی کا کام صرف وہی کریں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پردیس میں تنہائی، مایوسی اور بیماری
سینکڑوں پاکستانی تارکین وطن اپنے یونان سے آگے کے سفر کے بارے میں قطعی مایوس ہو چکے ہیں اور واپس اپنے وطن جانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے متعدد مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں۔ ایک یونانی نیوز ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے دو پاکستانی پناہ گزینوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔
تصویر: Iftikhar Ali
کم اور نامناسب خوراک کا نتیجہ
یونان میں پناہ کے متلاشی زیادہ تر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ مہاجر کیمپوں میں انہیں ملنے والی خوراک بہت کم ہوتی ہے اور اس کا معیار بھی ناقص ۔ ایسے کئی تارکین وطن نے بتایا کہ انہیں زندہ رہنے کے لیے روزانہ صرف ایک وقت کا کھانا ہی میسر ہوتا ہے۔ ان حالات میں اکثر افراد ذہنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر لاغر اور بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
وطن واپسی کے لیے بھی طویل انتظار
بہت سے مایوس پاکستانی پناہ گزینوں کے لیے سب سے اذیت ناک مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنے پاس کوئی بھی سفری دستاویزات نہ ہونے کے باعث اب فوراﹰ وطن واپس بھی نہیں جا سکتے۔ ان کے بقول ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے لازمی جانچ پڑتال کے بعد انہیں عبوری سفری دستاویزات جاری کیے جانے کا عمل انتہائی طویل اور صبر آزما ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
غریب الوطنی میں بچوں کی یاد
پاکستان کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والا اکتالیس سالہ سجاد شاہ بھی اب واپس وطن لوٹنا چاہتا ہے۔ تین بچوں کے والد سجاد شاہ کے مطابق اسے اپنے اہل خانہ سے جدا ہوئے کئی مہینے ہو چکے ہیں اور آج اس کے مالی مسائل پہلے سے شدید تر ہیں۔ سجاد کے بقول مہاجر کیمپوں میں کھیلتے بچے دیکھ کر اسے اپنے بچے بہت یاد آتے ہیں اور اسی لیے اب وہ جلد از جلد واپس گھر جانا چاہتا ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
اجتماعی رہائش گاہ محض ایک خیمہ
دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کو یونانی حکام نے پختہ عمارات میں رہائش فراہم کی ہے جب کہ پاکستانیوں کو زیادہ تر عارضی قیام گاہوں کے طور پر زیر استعمال اجتماعی خیموں میں رکھا گیا ہے۔ یہ صورت حال ان کے لیے اس وجہ سے بھی پریشان کن ہے کہ وہ یورپ کی سخت سردیوں کے عادی نہیں ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
جب انتظار کے علاوہ کچھ نہ کیا جا سکے
یونان میں ان پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی سفارت خانے کو اپنے لیے سفری دستاویزات کے اجراء کی درخواستیں دے چکے ہیں اور کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی اب تک انتظار ہی کر رہے ہیں۔ ایسے ایک پاکستانی شہری کے مطابق چند افراد نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت سے بھی اپنی وطن واپسی میں مدد کی درخواست کی لیکن جواب ملا کہ واپسی کے لیے درکار سفری دستاویزات صرف پاکستانی سفارتی مراکز ہی جاری کر سکتے ہیں
تصویر: Iftikhar Ali
پناہ نہیں، بس گھر جانے دو
یونان میں بہت سے پاکستانی تارکین وطن نے اسلام آباد حکومت سے درخواست کی ہے کہ ان کی جلد از جلد وطن واپسی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ان افراد کا دعویٰ ہے کہ ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانہ ’بار بار کے وعدوں کے باوجود کوئی مناسب مدد نہیں کر رہا‘۔ احسان نامی ایک پاکستانی تارک وطن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نہ ہم واپس جا سکتے ہیں اور نہ آگے، پس پچھتاوا ہے اور یہاں ٹائلٹس کی صفائی کا کام۔‘‘
تصویر: Iftikhar Ali
11 تصاویر1 | 11
لیبیا کے دارالحکومت طرابلس سے ستر کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ساحلی شہر صبراتہ سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق یہ مسلح گروہ ساحلوں کی کڑی نگرانی کر رہے ہیں اور کشتیوں کے ذریعے یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن کو روکنے کے علاوہ انہیں اپنی تحویل میں بھی لے لیتے ہیں۔
اسی شہر سے تعلق رکھنے والے ایک سماجی کارکن نے اپنی شناخت چھپائے رکھنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا، ’’صبراتہ میں یہ گروہ ساحلوں پر سرگرم ہیں اور اٹلی جانے کی کوششیں کرنے والے تارکین وطن کو روک رہے ہیں۔‘‘ مہاجرین اور مہاجرت کے امور پر کام کرنے والے اس سماجی کارکن نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ تارکین وطن کو روکنے کی یہ زبردست مہم ’’ایک مافیا کے سابق سربراہ نے شروع کر رکھی ہے اور اس مسلح گروہ کے سینکڑوں کارکنوں میں عام شہریوں کے علاوہ پولیس اور فوج کے اہلکار بھی شامل ہیں۔‘‘
ایک تیسرے ذریعے نے بھی اس معاملے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ اس مسلح گروہ کا نام ’بریگیڈ 48‘ ہے جو لیبیا کے ساحلوں کی کڑی نگرانی کر رہا ہے۔ صبراتہ میں موجود ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ مسلح گروہ نے اپنے حراستی مراکز بھی بنا رکھے ہیں جہاں یورپ کے غیر قانونی سفر پر روانہ ہونے کی کوشش کرنے والے افراد کو رکھا جا رہا ہے۔ ایک اور شخص نے روئٹرز کو ایک تصویر بھی بھیجی، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ حراست میں لیے گئے ایسے سینکڑوں تارکین وطن ایک اونچی دیوار کے ساتھ بیٹھے ہیں۔
یورپی یونین اور اٹلی لیبیا کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ یونٹی گورنمنٹ پر مہاجرین کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ یونین نے کئی ایسے منصوبے بھی شروع کر رکھے ہیں جن کے تحت لیبیا کے کوسٹ گارڈز اور سکیورٹی اہلکاروں کو تربیت بھی فراہم کی جا رہی ہے۔ تاہم لیبیا میں کسی مضبوط اور متفقہ قومی حکومت کے نہ ہونے کے باعث یونٹی گورنمنٹ کے اقدامات کافی ثابت نہیں ہو رہے تھے۔
روئٹرز نے لیبیا کی وزارت داخلہ سے اس معاملے پر موقف جاننے کے لیے رابطہ بھی کیا، تاہم اس کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ سن 2014 سے لے کر اب تک لیبیا کے ساحلوں سے چھ لاکھ سے زائد تارکین وطن اٹلی پہنچ چکے ہیں جب کہ اس دوران لیبیا کی حکومت نے ایسی کوششیں کرنے والے محض قریب بارہ ہزار تارکین وطن کو گرفتار کیا۔