1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مسلسل ڈرون حملے، پاکستانی خارجہ پالیسی کی ناکامی؟

24 مئی 2012

امریکا کی جانب سے سلالہ واقعے پر معافی نہ مانگنے کے علاوہ قبائلی علاقوں پر مسلسل ڈرون حملوں اور شکاگو کانفرنس میں پاکستانی صدر کے ساتھ سرد مہری کے رویے کے بعد پاکستان میں خارجہ پالیسی کی ناکامی پر بحث شروع ہو گئی ہے۔

تصویر: AP

جمعرات کے روز قبائلی علاقے میر علی میں ڈرون میزائل حملے میں 8 شدت پسند ہلاک ہو گئے۔ یہ شمالی وزیرستان میں دو روز کے دوران دوسرا میزائل حملہ تھا۔

پاکستانی پارلیمان نے امریکا کے ساتھ مستقبل میں تعلقات کے حوالے سے جو سفارشات مرتب کی تھیں ان میں ڈرون حملوں کی بندش سر فہرست تھی۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا پاکستان کے اس مطالبے پر کان دھرتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ دفاعی تجزیہ نگار ایئر مارشل ریٹائرڈ مسعود اختر کا کہنا ہے کہ سفارتی محاذ پر پاکستان کی مسلسل پسپائی پر ملکی قیادت کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔

پاکستانی صدر آصف علی زرداری نے حال ہی میں امریکی شہر شکاگو میں ہونے والے نیٹو کے سربراہی اجلاس میں شرکت کی تھیتصویر: Reuters

انہوں نے کہا، ’’خارجہ پالیسی کی ناکامی تو ہے ہی لیکن خارجہ پالیسی کو ہمیشہ قومی سلامتی پالیسی اور قومی مفادات کے مطابق ہونا چاہیے، جن کا تعین آج تک نہیں ہوا اور اگر وہ تعین نہیں ہو گا تو فوکس نہیں ہو گا۔ ہمیں نیٹو سپلائی روٹ بند کرنا پڑا سلالہ واقعے کے تناظر میں، کیونکہ عوام کا بے حد اشتعال تھا اس کے اوپر اور اب ہم کھولنا چاہتے ہیں تو اس کے خلاف ہمیں سخت ردعمل کا اندیشہ ہے۔ تو ہمیں معلوم نہیں کہ ہم کیا کریں اور کیا نہ کریں۔‘‘

امریکی شہر شکاگو میں 21 اور 22 مئی کو ہونے والی نیٹو کانفرنس میں پاکستان کی جانب سے راہداری کی مد میں فی نیٹو کنٹینر کے عوض پانچ ہزار ڈالر کی رقم کے مطالبے کو بھی تسلیم نہیں کیا گیا۔

سابق پاکستانی سفارت کار خالد محمود کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میں خارجہ پالیسی کو 'کچھ لو اور کچھ دو‘ کی بنیاد پر استوار کرنا پڑے گا۔ انہو ں نے کہا، ’’ہمیں اپنے اصولی مؤقف پر مضبوطی سے قائم رہنا ہے لیکن اگر کوئی چیز ہمارے اس مفاد سے متصادم نہ ہو تو اس میں عبوری طور پر کوئی راستہ نکالنا چاہیے۔‘‘

گزشتہ برس پاکستان کی ایک سرحدی چوکی پر نیٹو کے فضائی حملے کے بعد پاکستان نے افغانستان میں نیٹو فورسز کو رسد کی فراہمی روک دی تھیتصویر: DW

دریں اثناء پاکستان نے القاعدہ کے مقتول رہنما اسامہ بن لادن کی تلاش میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی مدد کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو دی گئی سزا پر امریکی تنقید مسترد کر دی ہے۔ جمعرات کو دفتر خارجہ کے ترجمان معظم احمد نے ہفتہ وار بریفنگ میں ذرائع ابلاغ کو بتایا: ’’جہاں تک مسٹر آفریدی کے مقدمے کا تعلق ہے تو اس کا فیصلہ پاکستانی عدالتیں اپنے قوانین کے مطابق کریں گی۔ میرے خیال میں ہمیں ایک دوسرے کے قانونی عمل اور عدالتی فیصلے کا احترام کرنا چاہیے ۔‘‘

خیال رہے کہ ڈاکٹر آفریدی کو قبائلی علاقوں کے قوانین یعنی ایف سی آر کے مطابق 33 سال قید اور تین لاکھ 20 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے۔

رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت: حماد کیانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں