جرمنی کے ماہر الہیات اور اسلامی اسکالر فیلکس کورنر کے مطابق پوپ فرانسس کو مسلم دنیا میں بہت سے لوگ رول ماڈل کے طور پر اور قدر کی نگاہ سے دیکھنا شروع ہو گئے ہیں۔ دوسری جانب پوپ فرانسس بھی مذہبی ہم آہنگی کے داعی ہیں۔
تصویر: Reuters/Handout Vatican Media
اشتہار
جرمنی کے ماہر الہیات اور اسلامی اسکالر فیلکس کورنر کے مطابق حالیہ عشرے میں مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان قربت پیدا ہوئی ہے۔ ان کے مطابق، '' بہت سے مسلمان پوپ فرانسس کو نسل انسانی کا نمائندہ سمجھتے ہیں۔ ایک ایسا نمائندہ جو واقعی انسانیت کے لیے جینا چاہتا ہے۔‘‘
پوپ فرانسس ماضی میں نہ صرف مذہبی ہم آہنگی کے لیے بیانات دے چکے ہیں بلکہ جنگ زدہ مسلم ممالک سے آنے والے مہاجرین کے حق میں کھل کر بات کرتے رہے ہیں۔ ان کے ایسے بیانات کے بعد ہی یورپی ممالک کے متعدد کلیساؤں نے مسلمان مہاجرین کے لیے اپنے دروازے کھول دیے تھے۔
مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے مارچ سن دو ہزار انیس میں مراکش کی کیتھولک کمیونٹی سے مسلمانوں کو عیسائیت کی تبلیغ نہ کرنے کی تلقین بھی کی تھی۔ تب بھی انہوں نے مسلمان اور مسیحی برادری کے درمیان مزید بھائی چارے کے فروغ دینے کا اظہار بھی کیا ہے۔
تصویر: Andrew Medichini/AP Photo/picture alliance
اُسی سال فروری میں پوپ فرانسس نے متحدہ عرب امارات کا بھی دورہ کیا تھا، جہاں مصر اور اسلامی دنیا کے مشہور ادارے جامعہ الازہر کے امام نے ایک ایسے مشترکہ اعلامیے پر دستخط کیے تھے، جس کا مقصد کیتھولک مسیحیوں اور مسلمانوں کے مابین برادرانہ تعلقات کی اہمیت پر زور دینا تھا۔ پوپ فرانسس مراکش جانے سے پہلے ترکی، بوسنیا ہیرزیگووینا، اردن، فلسطینی علاقے، آذربائیجان اور مصر کے دورے بھی کر چکے ہیں۔
جرمنی کے اس ماہر الہیات کا مزید کہنا تھا کہ مسلمان موجودہ پوپ کی جس خصوصیت کو خاص طور پر پسند کرتے ہیں، وہ ان کی سب کے لیے ہمدردی ہے۔ تاہم اس ماہر ادیان کا مزید کہنا تھا کہ پوپ فرانسس کے پیشرو پوپ بینیڈکٹ شانزدہم کے دور میں بھی عیسائیوں اور مسلمانوں کے تعلقات میں تحریک پیدا ہوئی تھی۔ لیکن انہوں نے سن دو ہزار چھ میں کی گئی ایک تقریر میں وہ پرانا فقرہ دہرایا تھا کہ 'اسلام تلوار سے پھیلا ہے‘ اور اس بیان سے غلط فہمیوں نے جنم لیا تھا۔ تاہم پروفیسر کورنر کا زور دیتے ہوئے کہنا ہے کہ انہوں نے اس بیان کے بعد بین المذہبی مکالمے میں غلطیوں سے سیکھنے کے لیے آمادگی ظاہر کی تھی اور اسلام کے لیے احترام کے الفاظ استعمال کیے تھے۔
ماہر الہیات فیلکس کورنر نے حال ہی میں برلن کی ہمبولڈ یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ فار کیتھولک تھیولوجی میں بطور پروفیسر پڑھانا شروع کیا ہے۔ اس شعبے کی بنیاد سن 2019 میں رکھی گئی تھی۔
ا ا / ع ح ( روئٹرز، اے ایف پی، کے این اے)
اس دنیا کا تحفظ کیسے ممکن ہو؟
ہر سال کے طرح اس مرتبہ بھی انسانوں نے 2019ء کے مقرر کردہ تمام تر قدرتی وسائل انتیس جولائی تک استعمال کر لیے۔ اسلام اور دیگر مذاہب بھی اس دنیا اور قدرت کے تحفظ کو یقینی بنانے پر زور دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
پانی، زندگی کا اہم جزو
دنیا کے کچھ خطوں میں تازہ پانی تک رسائی کو انتہائی غیر سنجیدہ طور پر لیا جاتا ہے تاہم حقیقت میں یہ ایک ’عیاشی‘ ہے۔ دنیا میں موجود پانی میں سے تازہ اور پینے کے لیے آلودگی سے پاک پانی کا ذخیرہ صرف 2.5 فیصد بنتا ہے اور اس میں سے بھی نصف سے زائد برف ہے۔ سن دو ہزار پچاس تک دنیا کی آبادی کا ایک تہائی اس اہم جنس کی شدید کم یابی کا شکار ہو جائے گا، جس سے انسانی زندگی شدید متاثر ہو گی۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress
زیر کاشت زمین، ایک نیا سونا
زیر کاشت زمین کے حصول کی خاطر دنیا بھر میں مقابلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ آبادی میں اضافے کی وجہ سے اجناس کی طلب میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ساتھ ہی انسان اپنے غیر ذمہ دارانہ طرز زندگی سے اس زمین کو نقصان بھی پہنچا رہے ہیں۔ چین اور سعودی عرب اس کوشش میں ہیں کہ وہ افریقہ میں قابل کاشت زمینیں خرید لیں۔ نئے دور میں یہ زمین ایک نیا سونا بنتی جا رہی ہے۔
تصویر: Imago/Blickwinkel
فوسل فیولز، قدیمی ذرائع توانائی
زمین سے حاصل کردہ قدیمی ذرائع توانائی میں بھی کمی ہوتی جا رہی ہے۔ تیل، گیس اور اسی طرح کے دیگر فوسل فیولز کو پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ ان قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال ایک لمحہ فکریہ ہے۔ عراق اور لیبیا جیسے ممالک کے لیے یہ زیادہ پریشان کن ہے کیونکہ وہاں موجود قدرتی گیس اور تیل کی ذخائر کے خاتمے کے بعد ان کے پاس کچھ نہیں بچے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpaH. Oeyvind
کوئلہ، اہم مگر آلودگی کا باعث
جرمنی جیسے ممالک بھی اگرچہ توانائی کے متبادل ذرائع کی طرف قدم بڑھانے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں لیکن اچھے کوئلے کے ذخائر بھی ختم ہونے کے قریب ہیں۔ پولینڈ میں بھورے کوئلے کے وسیع تر ذخائر سن دو ہزار تیس تک ختم ہو جائیں گے۔ سخت کوئلے کی کانیں شاید باقی بچیں گی لیکن وہ بھی جلد ختم ہو جائیں گی۔
تصویر: picture alliance/PAP/A. Grygiel
ریت، ہر طرف اور کہیں بھی نہیں
اگر ہم صحرا کو سوچیں تو ریت کی وسعت کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا۔ لیکن اس کی قدرتی پیداوار کا عمل انتہائی سست ہے۔ ریت بھی توانائی کا ایک متبادل ذریعہ ہے لیکن تعمیراتی مقاصد کی خاطر اسے اتنی تیزی سے استعمال کیا جا رہا ہے کہ جلد ہی یہ بھی ختم ہو جائے گی۔ بالخصوص افریقہ، جہاں 2050ء آبادی دوگنا ہو جائے گی، تب وہاں یہ جنس نایاب ہو جائے گی۔
تصویر: picture-alliance/ZB/P. Förster
ناپید ہوتے نایاب جانور
انسانوں کے لاپروا رویوں کی وجہ سے دنیا میں جانداروں کی کئی نسلیں ناپید ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ یہ پیش رفت اس زمین کے حیاتیاتی تنوع کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ شکار اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث یہ خطرہ دوچند ہو چکا ہے۔ ان اہم جانوروں کے ختم ہونے سے انسانی زندگی بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/I. Damanik
وقت، کیا یہ بھی ختم ہونے والا ہے؟
تو معلوم ہوتا ہے کی تمام اہم قدرتی وسائل ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ کیا وقت بھی ختم ہونے کو ہے؟ اب بھی کچھ وقت باقی ہے اور کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ اگر آئندہ بارہ برسوں کے لیے ’ماحولیاتی ایمرجنسی‘ نافذ کر دی جائے تو انسانوں کی پھیلائی ہوئی ماحولیاتی تباہی سے نمٹا جا سکتا ہے۔ اگر عمل نہ کیا تو جلد ہی وقت بھی ختم ہو جائے گا۔