مسلمانوں اور یہودیوں سے بہتر روابط: پاپائے روم مشرق وسطیٰ میں
24 مئی 2014عمان سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق شامی مہاجرین کے مصائب کا ذاتی مشاہدہ کرتے ہوئے کلیسائے روم کے سربراہ یہ انداہ لگانے کی کوشش کریں گے کہ تین سال سے بھی زائد عرصے سے جاری شام کی خانہ جنگی اس کے ہمسایہ ملک اردن پر کتنی بری طرح اثر انداز ہو رہی ہے اور اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور شامی شہریوں اور بچوں کو کس طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ہفتہ 24 مئی کو دوپہر کے قریب جب پاپائے روم کا ہوائی جہاز عمان کے ملکہ عالیہ انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر اترا تو ان کا استقبال کرنے کے لیے اردن کے شاہی خاندان کے نمائندے اور سرکردہ کیتھولک شخصیات بھی ہوائی اڈے پر موجود تھیں اور پوپ کو گارڈ آف آنر بھی پیش کیا گیا۔
دنیا بھر کے کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا اپنےدورہ اردن کے دوران شاہ عبداللہ ثانی اور ملکہ رائنہ سے ملاقات کے بعد عمان کے انٹرنیشنل سٹیڈیم میں ایک اجتماعی عبادت میں بھی حصہ لیں گے۔ ویٹیکن کے مطابق اس اجتماعی عبادت میں قریب 25 ہزار افراد کی شرکت متوقع ہے، جن میں اکثریت فلسطینی علاقوں، شام اور عراق سے تعلق رکھنے والے مسیحی مہاجرین کی ہو گی۔ بعد ازاں کلیسائے روم کے سربراہ Bethany کے چرچ میں شامی مہاجرین اور خانہ جنگی کے نتیجے میں معذور ہو جانے والے بچوں سے ذاتی طور پر ملاقاتیں بھی کریں گے۔
شام کی مجموعی آبادی میں مسیحی باشندوں کا تناسب پانچ فیصد بنتا ہے لیکن صدر بشار الاسد کے مخالف باغیوں کی طرف سے زیادہ تر مسیحی آبادی والے شہروں پر کیے جانے والے حملوں کے بعد نہ صرف مذہبی اقلیتوں میں شدید خوف پیدا ہو چکا ہے بلکہ یہ خدشات بھی بہت زیادہ ہو چکے ہیں کہ مستقبل قریب میں شام کی خانہ جنگی میں مسلمان انتہا پسندوں کا کردار اور بھی اہم ہو جائے گا۔
اردن میں حکومت نے گزشتہ مہینے شامی مہاجرین کے لیے ایک تیسرا کیمپ بھی کھول دیا تھا، جہاں ایک لاکھ 30 ہزار تک مہاجرین پناہ لے سکیں گے۔ کافی زیادہ امکان ہے کہ یہ کیمپ دنیا بھر میں مہاجرین کا دوسرا سب سے بڑا کیمپ ثابت ہو گا۔ اردن میں مقیم شامی مہاجرین کی موجودہ رجسٹرڈ تعداد چھ لاکھ بنتی ہے۔
کل اتوار کے روز پاپائے روم عمان سے براہ راست مغربی کنارے کے شہر بیت اللحم جائیں گے، جہاں وہ فلسطینی مہاجرین کے ایک کیمپ کا دورہ کریں گے۔ ایسا پہلی مرتبہ ہو گا کہ کلیسائے روم کے کوئی سربراہ مسیحیوں کے لیے مقدس علاقوں کے اپنے دورے کے دوران پہلے تل ابیب جانے کے بجائے سیدھے مغربی کنارے کے شہر بیت اللحم جائیں گے۔
ویٹیکن کے ذرائع کے مطابق اپنے اس دورے کے دوران پوپ فرانسس خطے کے رہنماؤں پر کلیسائے روم کی یہ دیرینہ پوزیشن ایک بار پھر واضح کر دیں گے کہ ویٹیکن اسرائیل کے ریاستی بقا کے حق اور وہاں امن اور سلامتی کا بھی حامی ہے لیکن ساتھ ہی فلسطینیوں کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ ان کا بھی اپنا ایک آزاد اور خود مختار ملک ہو جہاں وہ وقار کے ساتھ رہ سکیں اور انہیں نقل و حرکت کی آزادی ہو۔
ویٹیکن کے ذرائع کے بقول پاپائے روم کے اس دورے کا مقصد مسیحیوں کے مسلمانوں اور یہودیوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کرنا ہے۔ پوپ فرانس پیر کا دن یروشلم میں گزاریں گے، جہاں وہ دیوار گریہ اور ہولوکاسٹ میوزیم بھی جائیں گے اور یروشلم میں مسلمانوں کے مفتی اعظم کے علاوہ اسرائیل کے اعلیٰ ترین ربیوں سے بھی علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کریں گے۔ پاپائے روم پیر کی رات واپس ویٹیکن پہنچیں گے۔