ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان نے عہد کیا ہے کہ الیکشن میں کامیابی کی صورت میں وہ مہاجرین کے لیے کام کرنے والے اداروں پر ٹیکس بڑھا دیں گے۔ مہاجرت اور اسلام مخالف اوربان تیسری مدت کی خاطر میدان میں اترے ہیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان کے حوالے سے بتایا ہے کہ اگر وہ الیکشن میں کامیاب ہوئے تو ان کی نئی حکومت مہاجرین کے لیے کام کرنے والے غیر سرکاری اداروں پر ٹیکس بڑھا دیں گی۔
اتوار کی رات ’اسٹیٹ آف دی نیشن‘ خطاب میں انہوں نے خبردار کیا کہ مسلمانوں کی امیگریشن یورپ کو تباہ کر دے گی۔ ہنگری میں قومی الیکشن آٹھ اپریل کو منعقد کیے جا رہے ہیں۔
قدامت پسند فیڈس پارٹی کے سربراہ وکٹور اوربان تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کے منصب کے لیے تیاریوں میں ہیں۔ الیکشن سے قبل انہوں نے اپنے اسلام اور مہاجرت مخالف بیانیے میں مزید سختی پیدا کر دی ہے۔
اسی تناظر میں ان کی سیاسی پارٹی نے ایک ایسا قانون بھی تجویز کر دیا ہے، جس کے تحت ہنگری میں آنے والے مہاجرین کی فلاح وبہبود کا کام کرنے والی این جی اوز پر بھاری جرمانے عائد کیے جا سکیں گے۔
وکٹور اوربان نے اپنے عوامی خطاب میں ایسی غیر سرکاری تنظیموں کے بارے میں سخت موقف اختیار کرتے ہوئے مزید کہا کہ اگر ان این جی اوز نے اپنی ’خطرناک کارروائیاں‘ نہ روکیں تو انہیں ملک سے ہی نکال دیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ بے شک یہ غیر سرکاری ادارے بہت زیادہ مالدار ہی کیوں نہ ہوں لیکن انہیں ہنگری میں مہاجرین کے لیے کام نہیں کرنے دیا جائے گا۔
اس مجوزہ قانون کے تحت پناہ کے متلاشی افراد کی خاطر کام کرنے والے غیر ملکی امدادی اداروں پر پچیس فیصد ٹیکس لاگو کیا جائے گا جبکہ انہیں ملکی سرحدوں پر قائم کردہ عارضی رہائشی کیمپوں میں داخلے کی اجازت بھی نہیں ہو گی۔
ہنگری میں کیے جانے والے ایسے اقدامات پر یورپی یونین کی سطح پر تشوش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
وکٹور اوربان کی سیاسی جماعت فیدس پارٹی کے پاس اگرچہ فی الحال پارلیمان میں دو تہائی اکثریت نہیں ہے کہ وہ اس متنازعہ قانون کو پاس کرا سکے۔
لیکن سیاسی ناقدین کا کہنا ہے کہ مہاجرین مخالف اس پالیسی کے نتیجے میں وہ آئندہ الیکشن میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے پارلیمان میں کسی بھی قانون سازی کے لیے قطعی اکثریت حاصل کر سکتے ہیں۔
اسٹیٹ آف دی نیشن خطاب میں وکٹور نے دہرایا کہ مسلمانوں کی یورپ آمد سے ’مغربی تہذیب و ثقافت تباہ‘ ہو جائے گی۔ انہوں نے خبردار کیا، ’’اسی مہاجرت کی وجہ سے یورپ پر خطرات کے سیاہ بادل منڈلا رہے ہیں۔‘‘
وکٹور اوربان کے مطابق یورپی باشندوں کو احساس ہی نہیں ہے کہ ’حملہ‘ ہو چکا ہے اور ’یورپ کو فتح کر لیا جائے گا‘۔ انہوں نے مذہبی نعرہ لگاتے ہوئے مزید کہا، ’’مسیحیت ہی یورپ کی آخری امید ہے۔‘‘
ہنگری کی سرحد پر مہاجرین کی ابتر صورتحال
ہنگری میں مہاجرین سے متعلق ریفرنڈم سے قبل اس ریاست کی سرحد پر جمع سینکڑوں مہاجرین کے مصائب میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ تاہم یہ لوگ انتہائی مشکلات کے باوجود اپنے مہاجرت کے سفر میں شکست تتسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
تصویر: Reuters/L. Balogh
کوئی چارہ گر نہیں
دو اکتوبر بروز اتوار ہنگری میں ایک ریفرنڈم کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اس ریفرنڈم میں عوام سے پوچھا جائے گا کہ کیا وہ یورپی یونین کے کوٹہ سسٹم کے تحت تارکین وطن کو ہنگری کی پارلیمان کی اجازت کے بغیر ملک میں پناہ دینے کے حق میں ہیں؟ وزیر اعظم وکٹور اوربان کی حکمران فیدس پارٹی کا کہنا ہے کہ اس کے سوال کا منفی میں جواب ہی ہنگری کی آزادی اور سالمیت کے حق میں ہو گا۔
تصویر: DW/D. Cupolo
یورپ داخل ہونے کے لیے نیا دروازہ
اس گیٹ کے ذریعے مہاجرین ہنگری کے علاقے کیلیبیا میں داخل ہوتے ہیں۔ سربیا اور ہنگری کی حکومتوں کے مابین ایک ڈیل کے تحت یومیہ بیس مہاجرین کو ہنگری میں داخل ہونے کی اجازت دی جاتی ہے۔ ان مہاجرین کی سربیا میں رجسٹریشن ہوتی ہے جبکہ ہنگری میں داخل ہونے سے قبل ان کا تفصیلی انٹرویو بھی کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
انتظامی غلطیوں کا احتمال
سربیا سے ہنگری داخل ہونا آسان نہیں۔ اٹھارہ سالہ مصری مہاجر محمد جمال کو اطلاع ملی کہ اس کا اںٹرویو ہونے والا ہے۔ تاہم جب وہ ہنگری پہنچا تو معلوم ہوا کہ یہ انٹرویو اس کا نہیں بلکہ اسی کے ہم نام کسی اور مصری مہاجر کا تھا۔ ہنگری کے حکام کے پاس جمال کا ڈیٹا نہیں کہ آیا وہ سربیا میں داخل ہوا بھی تھا یا نہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
انتظار کی تھکن
انٹرویو کے انتظار میں جمال نے ہنگری کی سرحد سے متصل ایک عارضی کیمپ میں رہائش اختیار کر لی ہے۔ اس کیمپ میں رہنے والے دیگر مہاجرین بھی انٹرویو کے منتظر ہیں۔ وہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ اس تصویر میں نظر آنے والے بچے ایزدی گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، جو بے یارومدگار یورپ داخل ہونے کی کوشش میں ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
سرحدوں کی سخت نگرانی
جمال نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ ہنگری داخل ہونے کے لیے کوئی اور راستہ تلاش کر لے گا۔ اس نے کہا کہ اس مقصد کے لیے وہ انسانوں کے اسمگلروں سے بات چیت کر رہا ہے۔ اس کی ایک ایسی ہی کوشش ناکام ہو چکی ہے۔ ہنگری کی سرحد پر محافظ چوکنا ہیں جبکہ ہیلی کاپٹروں سے نگرانی بھی کی جا رہی ہے۔ جمال کے بقول اگر کوئی مہاجر سرحدی محافظوں سے تیز بھاگتا ہے تو اس کے پیچھے سدھائے ہوئے کتے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
’یہ جگہ پھر بھی بہتر ہے‘
اربیل میں کار مکینک ولید خالد اپنے بچوں کے ہمراہ ہنگری کی سرحد پر کئی مہینوں سے رہائش پذیر ہے۔ اس کے بچے یہاں کھیلتے رہتے ہیں۔ ولید کا کہنا ہے کہ یہاں کے حالات انتہائی برے ہیں لیکن پھر بھی یہ مقام کئی دیگر علاقوں سے بہتر ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
واپسی کا راستہ نہیں
ہنگری میں کیلیبیا کے مہاجر کیمپ میں رہائش پذیر زیادہ تر مہاجرین کا تعلق مشرق وسطیٰ کے ممالک سے ہے۔ پاکستانی اور افغان مہاجرین ہورگوس نامی ایک دوسرے کیمپ میں سکونت پذیر ہیں۔ خالد کا کہنا ہے کہ وہ کیلیبیا میں رہنے کو ترجیح دیتا ہے کیونکہ دیگر کیمپوں میں اسے کئی مرتبہ لوٹا جا چکا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
ہنگری کی حکومت کا خوف
ہنگری کی حکومت کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد سے ملکی ثقافت تباہ ہو جائے گی۔ یورپی یونین کی کوشش ہے کہ مہاجرین کو تمام یورپی ملکوں میں ایک کوٹہ سسٹم کے تحت تقسیم کر دیا جائے۔ تاہم اوربان کا کہنا ہے کہ مہاجرین کو کوٹہ سسٹم کے تحت یورپی ممالک میں پناہ دینے کا فیصلہ دراصل ان کے ملک کی قومی خودمختاری کے خلاف ہے۔