جرمنی میں ایک ایسے سروے کے نتائج شائع کیے گئے ہیں جس میں ملکی سیاسی جماعتوں سے پوچھا گیا کہ وہ اسلام اور ملک میں آباد مسلمانوں کے حوالے سے اہم معاملات پر کیا رائے رکھتی ہیں۔
اشتہار
یہ سروے جرمنی میں بسنے والے مسلمانوں کی مختلف تنظیموں، سنٹرل کونسل آف مسلمز ان جرمنی، جرمن مسلم لیگ اور ’اسلامِشے زائیٹُنگ‘ نامی اخبار نے مل کر کرایا۔ اس سروے میں جرمنی کی مرکزی سیاسی جماعتوں سے پوچھا گیا تھا کہ وہ نومولود بچوں کے ختنے، جانوروں کی قربانی اور مسلمانوں کے لیے اہم دیگر امور پر کیا خیالات رکھتی ہیں۔
اس سروے کی غرض سے تمام اہم سیاسی جماعتوں کو سوال نامہ بھیجا گیا تھا اور دائیں بازو کی عوامیت پسند، مہاجرین مخالف سیاسی جماعت اے ایف ڈی کے سوا سبھی سیاسی جماعتوں نے سوالات کے جوابات دیے۔
اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق
مہاجرت اور اسلام مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی ملکی سیاست میں ایک نئی قوت قرار دی جا رہی ہے۔ اس پارٹی کے منشور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
مہاجرت مخالف
اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
یورپی یونین مخالف
متبادل برائے جرمنی کا قیام سن دو ہزار تیرہ میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اس پارٹی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ یورپی یونین کے ایسے رکن ریاستوں کی مالیاتی مدد نہیں کی جانا چاہیے، جو قرضوں میں دھنسی ہوئی ہیں۔ تب اس پارٹی کے رہنما بیرنڈ لوکے نے اس پارٹی کو ایک نئی طاقت قرار دیا تھا لیکن سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں یہ پارٹی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
دائیں بازو کی عوامیت پسندی
’جرمنی پہلے‘ کا نعرہ لگانے والی یہ پارٹی نہ صرف دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے بلکہ یہ ایسے افراد کو بھی اپنی طرف راغب کرنے کی خاطر کوشاں ہے، جو موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق اے ایف ڈی بالخصوص سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں زیادہ مقبول ہے۔ تاہم کچھ جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پارٹی جرمنی بھر میں پھیل چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
علاقائی سیاست میں کامیابیاں
اے ایف ڈی جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں میں سے چودہ صوبوں کے پارلیمانی اداروں میں نمائندگی کی حامل ہے۔ مشرقی جرمنی کے تمام صوبوں میں یہ پارٹی ایوانوں میں موجود ہے۔ ناقدین کے خیال میں اب یہ پارٹی گراس روٹ سطح پر لوگوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے اور مستقبل میں اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Reuters
نیو نازیوں کے لیے نیا گھر؟
اے ایف ڈی جمہوریت کی حامی ہے لیکن کئی سیاسی ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ اس پارٹی کے کچھ ممبران نیو نازی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ پارٹی ایک ایسے وقت میں عوامی سطح پر مقبول ہوئی ہے، جب انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل پارٹیاں تاریکی میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں این پی ڈی جیسی نازی خیالات کی حامل پارٹی بھی شامل ہے۔
تصویر: picture alliance/AA/M. Kaman
طاقت کی جنگ
تقریبا پانچ برس قبل وجود میں آنے والی اس پارٹی کے اندر طاقت کی جنگ جاری ہے۔ ابتدائی طور پر اس پارٹی کی قیادت قدرے اعتدال پسندی کی طرف مائل تھی لیکن اب ایسے ارکان کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اب اس پارٹی کے اہم عہدوں پر کٹر نظریات کے حامل افراد فائز ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں اس پارٹی کی موجودہ رہنما ایلس وائڈل بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
پيگيڈا کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات
اے ایف ڈی اور مہاجرت مخالف تحریک پیگیڈا کے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ پیگیڈا مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں باقاعدہ بطور پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اے ایف ڈی نے پیگیڈا کے کئی حامیوں کی حمایت بھی حاصل کی ہے۔ تاہم یہ امر اہم ہے کہ پیگیڈا ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ شہریوں کی ایک تحریک ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
میڈیا سے بے نیاز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ رہنما نائیجل فاراژ کی طرح جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے رہنما بھی مرکزی میڈیا سے متنفر ہیں۔ اے ایف ڈی مرکزی میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کے لیے کوشش بھی نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر میڈیا سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔
تصویر: picture alliance/dpa/Aktivnews
8 تصاویر1 | 8
سروے کے پبلشرز ایمان مازیک، بلال الموگادیدی اور سلیمان ولمس کا کہنا ہے کہ ملکی انتخابات کے دوران جرمنی میں مختلف معاملات کے بارے میں سیاسی جماعتوں نے اپنے رائے عوام کے سامنے رکھی ہے لیکن ’ ایسے وقت جب اسلام مخالف جذبات بڑھ رہے ہیں، جرمنی میں بسنے والے مسلمان یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کون سی سیاسی جماعت مسلمانوں کے لیے اہم معاملات پر کیا خیالات رکھتی ہے۔
اس سروے میں بچوں کے ختنوں اور جانوروں کی قربانی جیسے متنازعہ معاملات پر بھی سوالات پوچھے گئے تھے۔ ان دو موضوعات کے حوالے سے لگ بھگ تمام سیاسی جماعتوں نے کہا کہ وہ جرمنی میں رائج موجودہ قوانین برقرار رکھنے کی حمایت کرتی ہیں۔
زیادہ تر سیاسی جماعتوں نے کھل کر کہا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف معتصبانہ رویے کے خلاف ہیں۔ سیاسی جماعتیں سی ڈی یو اور سی ایس یو نے ایک سوال کے جواب میں مشترکہ طور پر لکھا،’’مسلمان کئی برسوں سے اپنی محنت سے جرمن معاشرے میں مثبت کردار ادا کر رہے ہیں۔ مسلمان بطور پولیس اہلکار، ڈاکٹرز، نرسز، کھلاڑی ، فائر فائٹرز اور اس کے علاوہ بھی دیگر کئی شعبوں میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔‘‘
اسی طرح ایک سوال کے جواب میں ایس پی ڈی نے لکھا،'' ایس پی ڈی مسلمان تنظیموں اور اہم مسلم شخصیات کے ساتھ مسلسل رابطہ قائم رکھتی ہے۔ گرجا گھروں، سول سوسائٹی اور مذہبی تنظیموں کے درمیان بات چیت کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔‘‘
اس سروے کے مصنفین نے لکھا کہ اے ایف ڈی سے ای میل اور ٹیلی فون کے ذریعے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔