جرمن وزارت داخلہ نے اکیس نومبر سے مساجد میں نماز پڑھانے والے آئمہ کی خصوصی تربیت کا پروگرام شروع کیا ہے۔ اس پروگرام کو ایک مذہبی تعلیمی تنظیم نے مرتب کیا ہے اور اسے اب حکومتی سر پرستی حاصل ہو گئی ہے۔
اشتہار
جرمنی میں پہلے سے کئی مسلمان تنظیمیں اماموں کی تربیت کے پرگرام جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن اس تربیتی پروگرام پر عدم اطمینان پایا جاتا رہا ہے۔ اس یورپی ملک میں بیشتر مسلمان آئمین کا تعلق ترکی سے ہوتا ہے اور اس کی وجہ ایک بڑی ترک نژاد مسلم اقلیت ہے۔ ترک آئمہ ایک تنظیم ترک اسلامک یونین برائے مذہبی امور (DITIB) سے وابستہ ہوتے ہیں۔
دیتب مسلم تنظیم کے ساتھ نو سو مساجد منسلک ہیں۔ ان نو سو مساجد کے لیے منتخب کیے جانے والے آئمہ کی تربیت اور انتخاب پر ترک حکومت ہی اخراجات برداشت کرتی ہے۔ ان آئمین کو ترک زبان پر دسترس تو حاصل ہوتی ہے لیکن جرمن زبان سے وہ قدرے ناآشنا ہوتے ہیں۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ ترکی سے آنے والے آئمہ انقرہ حکومت کے ساتھ غیر معمولی وفاداری رکھتے ہیں۔
حالیہ کچھ برسوں کے دوران مسلم انتہا پسندی کے بڑھنے کے بعد سے جرمن حکومت مساجد کے اندر پھیلنے والے بنیاد پرستانہ مذہبی رجحانات کو کنٹرول کرنے کی کوششوں میں رہی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی رکاوٹ ایک خصوصی مالیاتی پیکج کو تشکیل دینا اور رقم مختص کرنا تھی۔ اب برلن حکومت ایک خصوصی پروگرام شروع کرنے پر بھی عمل کر رہی ہے۔
اس حکومتی منصوبے کے حوالے سے ماحول دوست گرین پارٹی کی رکن پارلیمان فیلیس پولاٹ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اس پروگرام کو شروع کرنے کے حوالے سے اُن کی سیاسی جماعت کئی برسوں سے مطالبہ کر رہی تھی اور اس سلسلے کا آغاز تاخیر سے ہو رہا ہے لیکن پھر بھی یہ بہتر اور احسن ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ جرمن حکومت مذہبی معاملات میں مداخلت کرنے کا حق دستور کے تحت نہیں رکھتی۔ اس تناظر میں گرین پارٹی کی ایک رہنما نے بتایا کہ مسلمان آئمہ کی تربیت کے خصوصی پروگرام کو شروع کرنے کی جرمن وزارت داخلہ نے باضابطہ تصدیق کر دی ہے۔ پولاٹ کے مطابق پروگرام شروع کرتے ہوئے دستوری قدغن کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔
جرمنی میں مسلمانوں کی کئی تنظیمیں ہیں۔ ان میں ایک نئی تنظیم سینٹرل کونسل برائے جرمن مسلم (ZMD) ہے۔ یہ تنظیم بھی آئمہ کی تربیت کے پروگرام میں شامل ہے۔ اس تنظیم کے چیئرمین ایمن مازیک نے آئمین کی تربیت کے پروگرام کو مثبت سمت میں ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔
یہ نئی تنظیم جرمن ریاست زیریں سیکسنی میں مقیم ہے۔ اس صوبے کی وزارت ثقافت و سائنس بھی پروگرام میں عملی طور پر شریک ہے۔ اس وقت کئی جرمن شہروں (ٹوبیگن، میونسٹر، اوسنابروک، گیسن اور ارلاگن اہم ہیں) میں اسلامی مذہب کے خصوصی تعلیمی ادارے قائم کیے جا چکے ہیں۔
رواں برس اکتوبر میں جرمن دارالحکومت کی ہمبولٹ یونیورسٹی نے اسلامک مذہب کا ایک مرکز بھی قائم کر دیا ہے۔ حکومت نے کوشش کی ہے کہ ان اداروں میں اسلامی مذہبی تعلیم کا تعلق صرف نماز پڑھانے یا قرآن پڑھانے سے نہیں ہونا چاہیے بلکہ عملی تعلیم بھی دینا ضروری ہے اور اس کا مقصد طلبا پر واضح کرنا ہے کہ مذہبی تعلیم اور عملی تربیت دو مختلف شعبے ہیں۔
جرمنی میں پینتالیس لاکھ مسلمان آباد ہیں اور ان میں تیس لاکھ ترک نژاد ہیں۔
زیڈا زیرڈار (عابد حسین)
جرمنی میں مساجد کے دروازے سب کے لیے کھل گئے
جرمنی میں قریب ایک ہزار مساجد کے دروازے تین اکتوبر کو تمام افراد کے لیے کھول دیے گئے ہیں۔ یہی دن سابقہ مشرقی اور مغربی جرمن ریاستوں کے اتحاد کی سال گرہ کا دن بھی ہے۔
تصویر: Ditib
جرمن مساجد، جرمن اتحاد
جرمنی میں مساجد کے دوازے سب کے لیے کھول دینے کا دن سن 1997 سے منایا جا رہا ہے۔ یہ ٹھیک اس روز منایا جاتا ہے، جس روز جرمنی بھر میں یوم اتحاد کی چھٹی ہوتی ہے۔ اس دن کا تعین جان بوجھ کر مسلمانوں اور جرمن عوام کے درمیان ربط کی ایک علامت کے تناظر میں کیا گیا تھا۔ جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل کے مطابق آج کے دن قریب ایک لاکھ افراد مختلف مساجد کا دورہ کریں گے۔
تصویر: Henning Kaiser/dpa/picture-alliance
مساجد سب کے لیے
آج کے دن مسلم برادری مساجد میں آنے والوں کو اسلام سے متعلق بتاتی ہے۔ مساجد کو کسی عبادت گاہ سے آگے کے کردار کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے، کیوں کہ یہ مسلم برادری کے میل ملاپ اور سماجی رابط کی جگہ بھی ہے۔
تصویر: Henning Kaiser/dpa/picture-alliance
بندگی اور ضوابط
اسلام کو بہتر انداز سے سمجھنے کے لیے بندگی کے طریقے اور ضوابط بتائے جاتے ہیں۔ انہی ضوابط میں سے ایک یہ ہے کہ مسجد میں داخل ہونے سے پہلے جوتے اتار دیے جائیں۔ یہ عمل صفائی اور پاکیزگی کا عکاس بھی ہے کیوں کہ نمازی نماز کے دوران اپنا ماتھا قالین پر ٹیکتے ہیں، اس لیے یہ جگہ ہر صورت میں صاف ہونا چاہیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Baumgarten
تعمیرات اور تاریخ
زیادہ تر مساجد میں آنے والے غیرمسلموں کو مسجد بھر کا دورہ کرایا جاتا ہے۔ اس تصویر میں کولون کے نواحی علاقے ہیُورتھ کی ایک مسجد ہے، جہاں آنے والے افراد مسلم طرز تعمیر کی تصاویر لے سکتے ہیں۔ اس طرح ان افراد کو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ جرمنی میں مسلمان کس طرح ملتے اور ایک برادری بنتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Baumgarten
روحانیت کو سمجھنے کی کوشش
ڈوئسبرگ کی یہ مرکزی مسجد سن 2008ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ اس مسجد کا رخ کرنے والوں کو نہ صرف مسجد کے مختلف حصے دکھائے جاتے ہیں، بلکہ یہاں آنے والے ظہر اور عصر کی نماز ادا کرنے والے افراد کو دوران عبادت دیکھ بھی سکتے ہیں۔ اس کے بعد مہمانوں کو چائے بھی پیش کی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Skolimowska
عبادات کی وضاحت
مسلمانوں کے عبادت کے طریقہ کار کو متعارف کرانا تین اکتوبر کو منائے جانے والے اس دن کا ایک اور خاصا ہے۔ تاہم مسجد کا نماز کے لیے مخصوص حصہ یہاں آنے والے غیرمسلموں کے لیے نہیں ہوتا۔ اس تصویر میں یہی کچھ دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Hanschke
تحفے میں تسبیح
اس بچے کے پاس ایک تسبیح ہے، جو اسے فرینکفرٹ کی ایک مسجد میں دی گئی۔ نمازی اس پر ورد کرتے ہیں۔ تسبیح کو اسلام میں مسبحہ بھی کہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
بین الثقافتی مکالمت
جرمن مساجد اپنے دروازے مختلف دیگر مواقع پر بھی کھولتی ہیں۔ مثال کے طور پر جرمن کیتھولک کنوینشن کی طرف سے کیتھولک راہبوں اور راہباؤں کو مساجد دکھائی جاتی ہیں۔ اس تصویر میں جرمن شہر من ہائم کی ایک مسجد میں یہی کچھ دیکھا جا سکتا ہے۔ اس طرح کے مواقع مسیحیت اور اسلام کے درمیان بہتر تعلقات کی راہ ہوار کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
غلط فہمیوں کا خاتمہ
ڈریسڈن شہر کی مساجد ثقافتی اقدار کی نمائش بھی کرتی ہیں۔ المصطفیٰ مسجد نے اس دن کے موقع پر منعقدہ تقریبات کی فہرست شائع کی ہے۔ ان میں اسلام، پیغمبر اسلام اور قرآن سے متعلق لیکچرز شامل ہیں۔ اس کے علاوہ لوگ یہاں مسجد میں قالینوں پر بیٹھ کر مختلف موضوعات پر بات چیت بھی کرتے ہیں۔