مسلمان اور اسلام دونوں جرمنی کا حصہ ہیں
16 مارچ 2018جرمنی میں بننے والی نئی حکومت میں وزارت داخلہ کا قلمدان سنبھالنے والے قدامت پسند سیاستدان ہورسٹ زیہوفر نے گزشتہ روز ایک بیان میں کہا تھا کہ اسلام جرمن ثقافت کا حصہ نہیں ہے۔ سیاسی مبصرین نے اس بیان پر خدشات ظاہر کرتے ہوئےہوئے کہا ہے کہ جرمنی کی نئی حکومت دائیں بازو کی سیاست کی طرف مائل ہو سکتی ہے۔ گزشتہ برس نومبر میں ہوئے پارلیمانی الیکشن کے بعد جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی قیادت میں وسیع تر مخلوط حکومت نے بدھ کے دن ہی حلف اٹھایا۔
واضح رہے کہ اس الیکشن میں کٹر نظریات کی حامل اسلام اور مہاجرت مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی نے دائیں بازو کی سیاست کا نعرہ لگاتے ہی کامیابی کی تھی۔ اس پارٹی نے میرکل کی مہاجرین سے متعلق پالیسی کو کھلے عام تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے عوامی مقبولیت حاصل کی۔ اگرچہ میرکل چوتھی مرتبہ چانسلر بننے میں کامیاب تو ہو گئی ہیں لیکن مبصرین کے مطابق دائیں بازو کی سیاست کے باعث ان کی سیاسی مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے۔
اسی تناظر میں نومنتخب جرمن وزیر داخلہ زیہوفر کا یہ بیان مستقبل کی سیاست کے لیے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ جمعرات کے دن انہوں نے جرمن روزنامہ بلڈ کے ساتھ گفتگو میں کہا، ’’ اسلام جرمنی کا حصہ نہیں ہے۔ جرمنی کا ارتقاء مسیحیت سے ہوا ہے۔‘‘ دوسری طرف جرمن چانسلر انگیلا میرکل جو سن 2015 سے کہتی آئی ہیں کہ اسلام جرمنی کا حصہ ہے نے آج حالیہ بیان میں کہا ہے،’’جرمنی میں چالیس لاکھ مسلمان اور ان کا مذہب اس ملک کا اہم حصہ ہیں اور ہمیں ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ مخلتف مذاہب کے ماننے والوں میں ہم آہنگی پیدا کی جائے۔‘‘ یاد رہے کہ تاریخی طور پر پہلی مرتبہ سابق جرمن صدر کرسٹیان وولف نے سن دو ہزار دس میں کہا تھا کہ اسلام جرمنی کا حصہ ہے۔
ب ج/ ع ح، ڈی پی اے