مسلمان تاجروں کی ہجرت سے وسطی افریقی جمہوریہ میں خوراک کی قلت
12 فروری 2014خبر رساں ادارے روئٹرز کی مطابق وسطی افریقی جمہوریہ میں خوراک کی تجارت میں مسلمان تاجروں اور دکان داروں کا بہت بڑا کردار رہا ہے اور اب وہاں مذہبی ہنگامہ آرائی کی وجہ سے مسلمان تاجروں کی بڑی تعداد ہمسایہ ممالک کی جانب ہجرت کرتی جا رہی ہے۔ روئٹرز کے مطابق اس کا اندازہ وسطی افریقی جمہوریہ میں خوراک کی دکان اور منڈیوں کے رفتہ رفتہ ختم ہونے کے تسلسل سے لگایا جا سکتا ہے۔ روئٹرز کا کہنا ہے کہ اب یہ منڈیاں اپنی تباہی کے دہانے پر کھڑی ہیں اور خوراک کی عدم موجودگی کی وجہ سے اس افریقی ملک میں بحران اور بھی شدید ہو سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق وسطی افریقی جمہوریہ میں ایک اعشاریہ تین ملین افراد کو، جو ملک کی مجموعی آبادی کا تقریباﹰ ایک چوتھائی بنتا ہے، خوراک کی شدید ضرورت ہے۔ روئٹرز کا کہنا ہے کہ فرانسیسی اور افریقی امن فوجی دستوں کی تعیناتی کے باوجود اس ملک میں مسلمان اور مسیحی مسلح گروہوں کے درمیان تصادم میں کوئی واضح کمی نہیں دیکھی گئی ہے۔
خیال رہے کہ افریقہ کے اس انتہائی غریب ملک میں مسلم اور مسیحی شہریوں کے درمیان کشیدگی کا آغاز اس وقت ہوا تھا، جب مسلم سلیکا باغیوں نے مارچ میں اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس کے بعد ملک میں لوٹ مار، جنسی زیادتیوں اور قتل کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ مسیحی ملیشیا کی جانب سے مسلم آبادی پر حملوں کے بعد گزشتہ ماہ سلیکا رہنما میشل جوتودیا نے حکومت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
گزشتہ چند ماہ میں انہی پرتشدد کارروائیوں کے تناظر میں ہزاروں مسلمان باشندے دارالحکومت بنگوئی سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔ روئٹرز کے مطابق بنگوئی کی آٹھ لاکھ کی آبادی میں سے مسلمانوں کی بڑی تعداد یہ شہر چھوڑ چکی ہے اور اشیائے خوردونوش خصوصاﹰ گوشت کی تجارت میں اہم کردار ادا کرنے والے مسلم باشندے اب بنگوئی میں اکا دکا ہی نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شہر کے اہم بازاروں میں اب دکانیں خالی پڑی ہیں اور خوراک کی قلت پیدا ہو چکی ہے۔