مسلمان مہاجرین کو ڈرایا جائے، ہنگری کے سیاستدان زیر عتاب
23 اگست 2016خبر رساں ادارے اے پی نے ہنگری کے سیاستدان اور یورپی پارلیمان کے رکن جارج شیپلین کے حوالے سے بتایا ہے کہ سربیا سے متصل ہنگری کی سرحدوں پر نصب باڑوں پر سور کے کٹے ہوئے سر نصب کر دینا چاہییں تاکہ مسلمان مہاجرین خوفزدہ ہو کر ملک میں داخل ہونے سے باز رہیں۔
ہنگری کی حکومت نے ملک میں غیر قانونی مہاجرین کی آمد کے سلسلے کو روکنے کی خاطر سربیا سے ملحق اپنی سرحدی گزرگاہوں پر خار دار رکاوٹیں نصب کر رکھی ہیں تاہم مہاجرین کی کوشش ہے کہ وہ ان رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے شینگن زون کی رکن ریاست ہنگری داخل ہو جائیں۔ یہ مہاجرین بعد ازاں وسطی اور شمالی یورپی ممالک جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
یورپی یونین کی رکن ریاست ہنگری کی حکمران فیدس پارٹی سے وابستہ جارج شیپلین کا کہنا ہے کہ مسلمان مہاجرین کو ملک میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے یہ ایک مؤثر طریقہ ہو سکتا ہے کہ انہیں خنزیر کے کٹے ہوئے سروں سے ڈرایا جائے۔
سربیا سے متصل ہنگری کے دیہی علاقوں میں کچھ لوگ مہاجرین کو روکنے کی خاطر مختلف طریقے استعمال کر رہے ہیں۔ کچھ مقامات پر مقامی آبادی نے سرحدی رکاوٹوں پر انسانی شکل کے ماسک اور سبزیوں کی جڑوں سے بنی ہوئی مختلف شکلیں نصب کی ہوئی ہیں تاکہ مہاجرین سرحد عبور کرنے گریز کریں۔
اس تناظر میں جارج شیپلین نے اپنی ایک مبینہ ٹوئٹ میں کہا، ’’انسانی شبیہات درست نہیں ہیں لیکن خنزیر کے کٹے ہوئے سر زیادہ مؤثر ثابت ہوں گے۔‘‘ اے پی کے مطابق بعد ازاں انہوں نے اپنی یہ ٹوئٹ ڈیلیٹ کر دی تھی۔
جارج شیپلین کے اس مبینہ بیان پر فوری طور پر تنقید شروع ہو گئی۔ ہیومن رائٹس واچ کے ڈائریکٹر اینڈریو اسٹروہلین نے کہا، ’’یہ کلمات قابل نفرت ہیں۔ میں اس طرح کے جملے کسی نیو نازی سے سننے کی توقع تو کر سکتا ہوں لیکن آپ تو یورپی پارلیمان کے رکن ہیں۔‘‘
ہنگری کی ایک ویب سائٹ کے ساتھ انٹرویو میں جارج شیپلین نے کہا ہے کہ ان کے ٹوئٹ کو غیر مناسب طریقے سے اچھالا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’میں نے کسی کی بے حرمتی نہیں کی ہے۔‘‘ انہوں نے اپنے ٹوئٹ کے دفاع میں کہا کہ سبزیوں یا گنے کی جڑوں سے بنی شبہیات کی نسبت سور کے کٹے ہوئے سر مہاجرین کو زیادہ بہتر طریقے سے خوفزدہ کر سکتے ہیں۔ ’’یہ صرف ایک چھوٹا سا خیال ہے، اور کچھ نہیں۔‘‘