پولينڈ ميں سابقہ نازی دور کے اذيتی مرکز آؤشوٹس کی ’ريڈ آرمی‘ کی آزادی کو 75 برس مکمل ہو رہے ہيں۔ اس موقع پر مسلمانوں اور يہوديوں کا ايک خصوصی وفد اس تاريخی مقام کا دورہ کر رہا ہے۔
اشتہار
مسلم رہنما شاز و نادر ہی ايسے مقامات کا دورہ کرتے ہيں جہاں تاريخ کے بد ترين مظالم ڈھائے گئے۔ پولينڈ ميں آؤشوٹس کے سابقہ اذيتی مرکز کے ڈائريکٹر پٹور سيونسکی کے مطابق گزشتہ برس مجموعی طور پر 2.3 ملين افراد نے اس يادگار مقام کا دورہ کيا۔ انہوں نے بتايا کہ ان افراد ميں عرب دنيا سے آنے والوں کی تعداد کافی محدود تھی۔ اعداد و شمار کے مطابق تقريباً 3,200 مہمان عرب ملکوں سے تھے۔ ڈائریکٹر کے مطابق فرانس، نارويجين اور جرمن گروپوں ميں بھی مسلم افراد آؤشوٹس کا دورہ کرتے ہيں۔ سيونسکی کو يقين ہے کہ اس مقام کا دورہ ان کے ليے ايک منفرد تجربہ ثابت ہوتا ہے۔
آؤشوٹس کے سابقہ اذيتی مرکز ميں نازيوں نے 1.1 ملين افراد کو قتل کيا تھا جن کی بھاری اکثريت يہوديوں پر مشتمل تھی۔ آئندہ ہفتے اس کيمپ کی آزادی کے پچھتر برس مکمل ہو رہے ہيں۔ جمعرات 21 جنوری کو يہودی اور مسلم کميونٹيز کے اعلٰی رہنما آؤشوٹس کا دورہ کر رہے ہيں۔ ان ميں محمد العيسٰی بھی شامل ہيں جو کہ مسلم ورلڈ ليگ (MWL) کے سيکرٹری جنرل ہيں۔ يہ تنظيم دنيا بھر ميں ايک بلين مسلمانوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ يوں سابقہ سعودی وزير انصاف محمد العيسٰی آؤشوٹس کا دورہ کرنے والے سب سے اعلی سطحی مسلمان رہنما بن جائيں گے۔ العيسٰی يہ دورہ امريکن جيوئش کميٹی (AJC) کے ڈائريکٹر ڈيوڈ ہيرس کے ہمراہ کر رہے ہيں۔ پچھلے سال مئی ميں ہيرس اور العيسٰی نے ايک دوسرے سے رابطہ کيا اور يہ اعلان کيا کہ وہ جنوری سن 2020 ميں آؤشوٹس کے سابقہ اذيتی مرکز کا دورہ کريں گے۔ چون سالہ مسلم مفکر اور ہولوکاسٹ ميں بچ جانے والے يہوديوں کے خاندان کے ايک رکن کا يہ دورہ، علامتی لحاظ سے کافی اہميت کا حامل ہے۔
مئی 2018ء ميں محمد العيسٰی نے واشنگٹن ميں يو ايس ہولوکاسٹ ميوزم کا دورہ کرنے کے بعد ميوزيم کو ايک خط بھيجا جس ميں انہوں نے لکھا، ''ہولوکاسٹ کے متاثرين کے ساتھ اظہار يکجہتی۔ ايک ايسا واقعہ جس نے انسانيت کو ہلا کر رکھ ديا۔‘‘ العيسٰی نے مزيد لکھا کہ اسلام ايسے جرائم کے مکمل خلاف ہے: ''ہولوکاسٹ کو جھٹلانے يا اس کی تاريخی اہميت ميں کمی کی کسی بھی کوشش کو بے گناہ متاثرين کی توہين کے مساوی ہے۔‘‘
بعد ازاں مسلم ورلڈ ليگ کے سيکرٹری جنرل محمد العيسٰی نے واشنگٹن پوسٹ ميں ايک اداريہ لکھا، جس ميں انہوں نے تمام مسلمانوں کو تلقين کی کہ وہ ہولوکاسٹ کی تاريخ پڑھيں اس ہول ناک تاريخی واقعے سے متعلق يادگاری مقامات اور ميوزيمز کا دورہ کريں۔ اس خط اور پھر اداريے کے بعد محمد العيسٰی کو ان گنت پيغامات اور خطوط موصول ہوئے، جن ميں دنيا بھی سے ديگر مسلم مفکروں اور دانشوروں نے يہوديوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافی اور ہولوکاسٹ پر ان کے نقطہ نظر کی تائيد کی۔
العيسی کے خط اور اداريے کے رد عمل ميں ورلڈ جيوئش کانگريس کے سابق نائب صدر مارک شرائير نے بھی ايک اداريہ لکھا جس ميں انہوں نے کہا کہ اب بھی ايک جھوٹا اور غلط تاثر پايا جاتا ہے کہ مسلمان يہوديوں کے خلاف ہيں يا ان کے حوالے سے جارحانہ سوچ رکھتے ہيں۔ انہوں نے واضح کيا کہ جہاں کہيں بھی يہوديوں پر حملہ ہو، مسلمان افراد کھل کر اس کے خلاف بولتے ہيں اور اس کی مذمت کرتے ہيں۔
سائنس کی اساس میں یہودی، مسیحی اور مسلمانوں کا کردار
ہماری عصری سائنس کی جڑیں یہودی، مسیحی اور مسلم محققین سے جا کر ملتی ہیں۔ قرون وسطٰی کے دور میں انہوں نے قدیمی مفکرین کی تحریروں کا ترجمہ کیا ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
پہلا سائنسدان
یونانی ماہر علوم ارسطو کی یہ تصویر 1457ء میں تخلیق کی گئی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب دُور دُور سے لوگ قدیمی یونانی مفکرین اور فلسفیوں کی تعلیمات سے فیضیاب ہونے کی کوششوں میں رہتے تھے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
چاند، سورج اور ستارے
علم فلکیات اور کائنات میں زمین کے ڈھانچے کی اہمیت قرون وسطی کے مفکرین کے لیے بھی اتنی ہی اہم تھی، جتنی آج کے سائنسدانوں کے لیے ہے۔ یہ تصویر 1392ء سے 1394ء کے درمیانی دور کی ہے۔ یہ دور کوپرنیکس کے عہد سے تقریباً سو برس قبل کا ہے، کوپرنیکس نے دریافت کیا تھا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے اور ہمارا سیارہ کائنات کے درمیان میں نہیں ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
علم کی منتقلی
یوہانس گوٹن برگ نے اس کے تقریباً ساٹھ سال بعد پرنٹگ یا طباعت دریافت کی تھی۔ یہ ہاتھ سے لکھی گئی ایک کتاب ہے۔ یہودی، مسیحی اور مسلم ثقافتوں میں اس دوران ایک ایسی صنعت قائم ہوئی، جس کا کام قدیمی تحریروں کو ترجمہ کر کے اگلی نسلوں تک پہنچانا تھا۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
دنیا بھر کے ماہر علوم
یہ 1370ء میں تخلیق کی جانے والی ایک کتاب کا عکس ہے۔ اس میں ستاروں سے بھرے ہوئے ایک آسمان کے نیچے بارہ افراد کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے لباس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان بارہ ماہرین کا تعلق مختلف مذاہب اور ثقافتوں سے ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
ستاروں کی چال
1029ء میں ایک مسلم محقق نے ہسپانوی شہر تولیدو میں یہ اصطرلاب یا ایسٹرو لیب تیار کی تھی۔ اندلس کے مسلمانوں، جنہیں مورز بھی کہا جاتا ہے، نے جزیرہ نما آئبیریا ( موجودہ اسپین) کے ایک بڑے حصے پر سن 711 میں قبضہ کر لیا تھا۔ یہ لوگ 1492ء تک اس علاقے پر حکومت کرتے رہے تھے۔ سات سو سال حکومت کے بعد انہوں نے فن تعمیرات اور ادب کا بہترین خزانہ اپنے پیچھا چھوڑا ہے۔ ان میں غرناطہ میں قائم الحمرا کا قلعہ ہے۔
تصویر: Staatsbibliothek zu Berlin
مختلف ثقافتیں اور یکساں سوچ
یہ ایسٹرو لیب پہلے والے سے بہت مشابہت رکھتا ہے۔ تاہم یہ تصویر ایک ایسی کتاب سے لی گئی ہے، جس کی رونمائی اس کے چار سو سال بعد ویانا میں کی گئی تھی۔ اس کتاب کا تعلق علم فلکیات کی ایک دستاویز سے ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
چاند پر نظر
ہر زمانے کے ماہر فلکیات کو چاند میں دلچسپی رہی ہے۔ جرمن شہر لائپزگ میں 1505ء میں شائع ہونے والی ایک کتاب میں چاند کی مختلف منزلوں کے بارے میں بتایا گیا ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
دن، مہینے اور موسم
ہر مذہب میں کلینڈر یا تقویم اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ سائنس کے طور پر علم فلکیات اور عقیدے کے نظام میں ایک پل کا کام کرتے ہیں۔ یہ 1415ء میں ویانا میں لکھی گئی عبرانی میں ایک مذہبی کتاب ہے۔ اس صفحے پر سال کا دوسرا دن درج ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
صحت مند غذا
مشہور یونانی فلسفی بقراط نے خوراک کے حوالے سے کچھ مشورے دیے تھے، ان کے یہ مشورے دسویں صدی کے لوگوں کے لیے بھی بہت دلچسپی کا باعث تھے۔ ان میں صحت مند خوراک کے بارے میں بتایا گیا ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
تندرست
چودہویں صدی میں بقراط کی دانائی کی ایک اور مثال۔ یہ کتاب پیرس میں لکھی گئی تھی۔ اس صفحے پر دیگر تفصیلات کے علاوہ ایک مریض کا علاج کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
بچے کی پیدائش
یہ کتاب جنوبی فرانس میں چودہویں صدی کے وسط میں سرجنز اور مڈ وائفس کے لے لکھی گئی تھی۔ اس میں بچے کی پیدائش کے مختلف مراحل بیان کیے گئے ہیں۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
علم طاقت ہے
موجودہ ایران اور قدیمی فارس کے معروف طبیب اور فلسفی بو علی سینا اس تصویر میں ایک بادشاہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور ان کے اطراف ڈاکٹرز بیٹھ کر علاج معالجے کے موضوع پر گفتگو کر رہے ہیں۔ یہ تصویر بو علی سینا کے انتقال کے چھ سو سال بعد یعنی پندرہویں صدی کی ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
انسان اور جانور
اس کتاب میں ایک خطرناک ناگ کو پکڑنے کے طریقوں کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ یہ کتاب موصل میں 1220ء میں عربی زبان میں لکھی گئی تھی۔ اس کتاب میں مسیحی فلسفی اور سائنسی امور کے ماہر جوہانس فیلوپونس کے تحریروں کے حوالے بھی دیے گئے ہیں۔