مسلمان ہوں، توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کا سوچ بھی نہیں سکتا: گیلانی
3 فروری 2011یوسف رضا گیلانی نے بدھ کو قومی اسمبلی میں کہا، ’نہ تو حکومت نے کوئی بِل پیش کیا ہے، نہ ہی اس قانون میں ترمیم کے لیے کوئی کمیٹی قائم کی گئی ہے۔ اس حوالے سے حکمران اور اپوزیشن جماعتوں کی رائے میں کوئی اختلاف نہیں۔‘
انہوں نے یہ بات اپوزیشن رہنما چودھری نثار علی خان کی جانب سے اٹھائے گئے نکتے کے ردِعمل میں کہی۔ علی خان نے کہا تھا کہ وزیر اعظم توہین رسالت سے متعلق قانون پر پالیسی بیان جاری کریں۔
خیال رہے کہ توہین رسالت کا پاکستانی قانون انتہائی متنازعہ ہے۔ انسانی حقوق کے گروپ اور مذہبی اقلیتیں اس پر تحفظات رکھتی ہیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس قانون کو دراصل ذاتی دشمنیاں نکالنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
اس قانون پر بحث میں تیزی گزشتہ برس نومبر میں اس وقت آئی، جب صوبہ پنجاب کی ایک ضلعی عدالت نے توہین رسالت کے الزام پر گرفتار ایک مسیحی خاتون آسیہ بی بی کے لیے سزائے موت کا فیصلہ سنایا۔ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثر نے آسیہ بی بی کی حمایت کی تو یہ مسئلہ اور بھی گمبھیر صورت حال اختیار کر گیا۔
مذہبی جماعتوں اور انتہاپسند گروہوں نے سلمان تاثیر کی سخت مذمت کی جبکہ رواں برس کے آغاز پر وہ اپنے ایک گارڈ کی گولیوں کا نشانہ بن گئے، جس نے بعدازاں کہا کہ اس نے انہیں توہین رسالت کے قانون کی مخالفت پر قتل کیا۔
مذہبی جماعتوں نے توہین رسالت میں ترمیم کے کسی بھی منصوبے کے خلاف سخت ردِ عمل کا عندیہ دے رکھا ہے۔ تاہم بدھ کو قومی اسمبلی میں علی خان کی بات کا جواب دیتےہوئے یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ توہین رسالت پر کوئی مسلم دو نظریات نہیں رکھ سکتا اور وہ اس قانون میں ترمیم کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
توہین رسالت میں ترمیم کے حوالے سے حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن شیری رحمان کے بِل کے بارے میں وزیر اعظم نے کہا کہ رحمان نے یہ بِل اپنی انفرادی حیثیت سے پیش کیا تھا اور یہ ان کی پارٹی کی پالیسی نہیں۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: عاطف بلوچ