مسلم آئمہ کے بعد اقلیتی مذہبی پیشواؤں کے لیے بھی وظیفہ
فریداللہ خان، پشاور
9 فروری 2018
پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا میں مسلمانوں کی مساجد کے آئمہ کو ماہانہ وظیفہ ادا کرنے کے حالیہ حکومتی اعلان کے بعد اب اقلیتی برادریوں کے مذہبی پیشواؤں کے لیے بھی ہر ماہ اسی طرح کی مالی ادائیگیوں کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
اشتہار
خیبر پختونخوا میں آباد مسیحی، ہندو اور سکھ مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے باشندوں نے پشاور حکومت کے اس اعلان کا خیر مقدم کیا ہے۔ اس فیصلے کے تحت صوبائی حکومت صوبے بھر میں پادریوں، پنڈتوں اور گرنتھیوں کو ماہانہ دس ہزار روپے وظیفہ ادا کیا کرے گی۔
ان اقلیتی برادریوں نے اس سرکاری اقدام کو قابل تعریف قرار دیا ہے تاہم بعض نے اس کی آئندہ شفافیت پر تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے۔ سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے رادیش سنگھ ٹونی نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’سکھ برادری ہمیشہ سے ہی نظر انداز رہی ہے۔ تاہم یہ ایک خوش آئند بات ہے لیکن اس کے لیے ایک منظم طریقہ کار ہونا چاہیے تاکہ یہ حق صرف حقداروں کو ہی ملے اور کوئی شخص نظر انداز نہ کیا جائے۔ اس کے لیے متعلقہ برادری کے باہمی مشورے سے ان لوگوں کی مدد کی جانا چاہیے، جو صحیح معنوں میں اپنے عقیدے کی خدمت کرتے ہیں۔ اگر مساجد میں یہ ماہانہ وظیفہ دو افراد کو دیا جاتا ہے، تو گردواروں کے بھی یہ دو اہلکاروں کو ہی ملنا چاہیے۔‘‘ انہوں نے شکوہ کیا کہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں سکھوں کا کوئی نمائندہ نہیں، اس لیے انہیں چند خدشات بھی ہیں۔‘‘
پشاور میں صوبائی حکومت نے اس فیصلے کے بعد اب صوبے بھر میں ایسے لوگوں کی فہرستیں مرتب کرنے کا آغاز کر دیا ہے، جو مختلف اضلاع میں مندروں، گرجا گھروں اور گردواروں میں تعینات مذہبی شخصیات کے کوائف جمع کرنے اور ان کی جانچ پڑتال کریں گے۔
اس سلسلے میں ڈوئچے ویلے نے جب آل پاکستان میناریٹیز کے رہنما اور مینارٹی رائٹس کے لیے کام کرنے والے ہارون سرب دیال سے رابطہ کیا، تو ان کا کہنا تھا، ’’بنیادی طور خیبر پختونخوا میں ہندوؤں،سکھوں اور مسیحیوں کا کوئی ایسا ادارہ نہیں ہے، جہاں سے مذہبی تعلیم حاصل کرنے کے بعد کوئی مصدقہ سند جاری کی جاتی ہو۔ ایسے میں حکومت کو چاہیے کہ اس طرح کی مراعات دینے سے قبل متعلقہ کمیونٹی سے مشاورت کی جائے اور اس بات کی تصدیق بھی کی جائے کہ جس کسی کو حکومت کی جانب سے ماہانہ وظیفہ دیا جائے گا، وہ واقعی اس کا حقدار بھی ہو۔‘‘
اسی طرح مقامی مسیحی برادری کے طلاس گل کا کہنا تھا کہ حکومت کے اس اقدام کو قانونی حیثیت ملنا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ کوئی اور حکومت بعد میں یہ سلسلہ ختم کر دے۔ اس کا باقاعدہ نوٹیفیکیشن جاری کیا جائے اور سرکاری اہلکاروں کی طرح متعلقہ افراد کو وظائف کے ساتھ ساتھ دیگر مراعات اور سہولیات بھی فراہم کی جائیں۔ اگرچہ بعض حلقے اقلیتوں کے لیے سہولیات میں اضافے پر تنقید بھی کرتے ہیں تاہم ان کا ایک موقف یہ بھی ہے کہ صوبائی حکومت نے یہ قدم ایسے وقت پر اٹھایا ہے، جب اگلے الیکشن دور نہیں ہیں۔
اقلیتوں کے حقوق، پاکستان بدل رہا ہے
پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے اکثر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ تاہم حالیہ کچھ عرصے میں یہاں اقلیتوں کی بہبود سے متعلق چند ایسے اقدامات اٹھائے گئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان بدل رہا ہے۔
تصویر: DW/U. Fatima
ہندو میرج ایکٹ
سن 2016 میں پاکستان میں ہندو میرج ایکٹ منظور کیا گیا جس کے تحت ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے پاکستانی شہریوں کی شادیوں کی رجسٹریشن کا آغاز ہوا۔ اس قانون کی منظوری کے بعد مذہب کی جبری تبدیلی اور بچپنے میں کی جانے والی شادیوں کی روک تھام بھی ہو سکے گی۔
تصویر: DW/U. Fatima
غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانون
پاکستان میں ہر سال غیرت کے نام پر قتل کے متعدد واقعات سامنے آتے ہیں۔ سن 2016 میں پاکستانی ماڈل قندیل بلوچ کو اُس کے بھائی نے مبینہ طور پر عزت کے نام پر قتل کر دیا تھا۔ قندیل بلوچ کے قتل کے بعد پاکستانی حکومت نے خواتین کے غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانون منظور کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/PPI
ہولی اور دیوالی
پاکستانی وزیرِ اعظم نواز شریف نے حال ہی کراچی میں میں ہندوؤں کے تہوار میں شرکت کی اور اقلیتوں کے مساوی حقوق کی بات کی۔ تاہم پاکستان میں جماعت الدعوہ اور چند دیگر تنظیموں کی رائے میں نواز شریف ایسا صرف بھارت کو خوش کرنے کی غرض سے کر رہے ہیں۔
تصویر: AP
خوشیاں اور غم مشترک
کراچی میں دیوالی کے موقع پر پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے ملک میں بسنے والی اقلیتوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کے سب شہریوں کو ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں شریک ہونا چاہیے اور ایک دوسرے کی مدد کرنا چاہیے۔
تصویر: Reuters
کرسمس امن ٹرین
حکومت پاکستان نے گزشتہ کرسمس کو پاکستانی مسیحیوں کے ساتھ مل کر خاص انداز سے منایا۔ سن 2016 بائیس دسمبر کو ایک سجی سجائی ’’کرسمس امن ٹرین‘‘ کو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے مسیحی برادری کے ساتھ ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کے پیغام کے طور پر روانہ کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed
کئی برس بعد۔۔۔
اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی کے فزکس ڈیپارٹمنٹ کو پاکستان کے نوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کے نام معنون کیا گیا۔ ڈاکٹر عبدالسلام کا تعلق احمدی فرقے سے تھا جسے پاکستان میں مسلمان نہیں سمجھا جاتا۔ فزکس کے اس پروفیسر کو نوبل انعام سن 1979 میں دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پاکستان میں سکھ اقلیت
پاکستان میں سکھ مذہب کے پیرو کاروں کی تعداد بمشکل چھ ہزار ہے تاہم یہ چھوٹی سی اقلیت اب یہاں اپنی شناخت بنا رہی ہے۔ سکھ نہ صرف پاکستانی فوج کا حصہ بن رہے ہیں بلکہ کھیلوں میں بھی نام پیدا کر رہے ہیں۔ مہندر پال پاکستان کے پہلے ابھرتے سکھ کرکٹر ہیں جو لاہور کی نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں کرکٹ کی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔
تصویر: Farooq Naeem/AFP/Getty Images
7 تصاویر1 | 7
صوبائی حکومت نے اقلیتی آبادی کی فلاح وبہبود کے لیے مختص فنڈز بیس ملین روپے سے بڑھاکر ایک سو ستاسی ملین روپے کر دیے ہیں، جن میں سے گرجا گھروں، مندروں اور گردواروں کی تزئین و آرائش کے علاوہ اقلیتی آبادی کے بچوں کو تعلیمی وظائف بھی دیے جائیں گے۔
دوسری جانب بعض اقلیتی رہنما اس حکومتی فیصلے کو صوبائی حکمرانوں کی جانب سے اقلیتی شہریوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے ایک حربہ بھی قرار دیتے ہیں۔ پنڈت درشن لال نامی ایک ہندو شہری کا کہنا تھا، ’’ہندوؤں کے مندر تو زیادہ تر اپنی مدد آپ کے تحت ہی چلتے ہیں۔ زیادہ تر ہندو اپنے گھروں میں عبادت کرتے ہیں۔ یہ حکومت کا ایک اچھا اقدام ہے۔ تاہم اسے قانونی تحفظ فراہم کرنا ضروری ہو گا تاکہ ایسا نہ ہو کہ مستقبل کی کوئی صوبائی حکومت یہ سلسلہ بند کر دے۔ اس بات پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ نہیں ہونا چاہیے۔ کسی کو بھی مذہب کی آڑ میں کوئی سیاسی فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی تزئین و آرائش اور دیکھ بھال کی ذمہ داری بھی حکومت ہی کو پوری کرنا چاہیے۔‘‘
خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں بہت سے مسیحی، ہندو،سکھ اور کیلاش برادری کے افراد آباد ہیں، جن کے لیے صوبائی حکومت نے ملازمتوں، تعلیمی اداروں اور وظائف میں کوٹہ بھی مختص کیا ہے۔
کیلاش میں موسم بہار کا تہوار
پاکستان کے شمالی پہاڑوں میں وادی کیلاش واقع ہے۔ یہاں کی کیلاش اقلیت ہر سال موسم سرما کے اختتام پر جوشی ( بہار) تہوار مناتی ہے۔ کیلاش قبیلے کی آبادی تقریباﹰ چار ہزار افراد پر مشتمل ہے، جو اپنے مختلف خداؤں کی پوجا کرتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پاکستان کے شمالی پہاڑوں میں وادی کیلاش واقع ہے۔ یہاں کی کیلاش اقلیت ہر سال موسم سرما کے اختتام پر جوشی ( بہار) تہوار مناتی ہے۔ کیلاش قبیلے کی آبادی تقریباﹰ چار ہزار افراد پر مشتمل ہے، جو اپنے مختلف خداؤں کی پوجا کرتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
رواں برس اس تین روزہ تہوار کا آغاز 14 مئی کو ہوا۔ کچھ برس پہلے تک کیلاش قبیلے کے پاس نہ تو کیلنڈر تھے اور نہ ہی گھڑیاں۔ تہوار کی تاریخیں سورج کی پوزیشن دیکھتے ہوئے مقرر کی جاتی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
وادی چترال میں جوشی تہوار کا مطلب سخت موسم کے خاتمے پر شکر کرنا بھی ہوتا ہے اور زیادہ پیداواری موسم بہار کا جشن منانا بھی۔ اس موقع پر شہد اور اچھی فصل کے لیے خصوصی دعائیں کی جاتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/John Moore
کیلاش قبیلے کا زیادہ تر انحصار شمالی پاکستان کے ہندوکش پہاڑی سلسلے کی سرسبز وادیوں میں زراعت اور سیاحت پر ہے۔ کیلاش کمیونٹی کا دعویٰ ہے کہ ان کے قبیلے کی بنیاد یونانی سکندر اعظم کے فوجیوں نے رکھی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مؤرخین کے قریب آج بھی کیلاش قبیلے کا یہ دعویٰ بحث طلب ہے کہ ان کا تعلق سکندر اعظم کے جرنیلوں سے ہے۔ دوسری جانب یونان اور کیلاش کی ثقافت، طرز تعمیرات، موسیقی وغیرہ میں بہت سی چیزیں مماثلت رکھتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کیلاش قبیلہ بھی یونانیوں کی طرح مختلف خداؤں کو ماننے والا ہے۔ ان کے مطابق ’خدائی‘ نامی ایک دیوتا ان کی روزمرّہ کی زندگی کا ذمہ دار ہے اور اسی کی خوشنودی کے لیے اس تہوار میں دودھ کی مصنوعات کا استعمال اور بکریوں کی قربانی کی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جوشی تہوار کے پہلے دن کو ’دودھ کا دن‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس قبیلے کے افراد رقص کرتے اور گانے گاتے ہوئے گھر گھر جاتے ہیں۔ ہر گھر سے انہیں دودھ پیش کیا جاتا ہے۔ یہ دودھ اس تہوار سے دس روز پہلے ہی جمع کرنا شروع کر دیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/John Moore
اس تہوار کے موقع پر کم از کم چار سال کی عمر میں بچوں کو ویسے ہی کپڑے پہنائے جاتے ہیں، جیسے بڑے پہنتے ہیں۔ چار سال کی عمر میں بچوں کو باقاعدہ طور پر تہوار میں حصہ لینے کی اجازت ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
چار برس سے پہلے بچوں کو سادہ کپڑے پہنائے جاتے ہیں۔ اس تہوار کے موقع پر خواتین مخصوص اور رنگ برنگے ملبوسات پہنتی ہیں جبکہ زیادہ تر مرد اب پاکستانی شلوار اور قمیض کا استعمال کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کیلاش کی خوش رنگ خواتین کے رنگیلے کپڑے سیاحوں کے لیے بھی بہت پرکشش ہیں۔ خواتین کے سیاہ لمبے بال اور ان پر کڑھائی والی مخصوص لمبی ٹوپیاں اس تہوار کو مزید دلکش بناتی ہیں۔ اس موقع پر غیر ملکی سیاح بھی پاکستان پہنچتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ایک دوسرے کے ساتھ کندا ملا کر رقص کرنا اس تہوار کی خصوصیت ہے اور ڈھول اس میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ رقص کے دوران لڑکیاں اور لڑکے مذاق کرتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ محبت بھری نگاہیں بھی دو چار کرتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/John Moore
تہوار میں مرد گلوکاروں کو خوش ہو کر پیسے بھی دیے جاتے ہیں اور کبھی کبھار بوسے بھی۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو کیلاش قبیلہ دیگر پاکستانیوں کی نسبت زیادہ ’آزاد خیال‘ تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جوشی تہوار کے تیسرے اور آخری دن رقص اپنے عروج پر ہوتا ہے۔ مرد اور عورتیں اس دن علیحدہ علیحدہ روایتی ڈانس کرتے ہیں۔ ہر ایک کے ہاتھ میں اخروٹ کے درخت کی ٹہنیاں ہوتی ہیں اور بدروحوں کے اثرات دور کرنے کے لیے انہیں نعرہ لگاتے ہوئے ہوا میں پھینک دیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کیلاش قبیلے کی روایات اسلام کے برعکس ہیں۔ اس لیے اس علاقے کو ’کافرستان‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ایک کونے پر واقع اس وادی کو ایک واحد سڑک باقی پاکستان سے ملاتی ہے۔ جدید سہولتیں یہاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔