ایک جرمن کمپنی نے اپنی ویجیٹیرین جیلی کی تشہیر کے لیے باحجاب خاتون کی تصویر استعمال کی جس کے بعد اسے جرمن سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ لیکن ناراض ہونے والے لوگ کون ہیں؟
اشتہار
جنوری میں کاٹیاز کمپنی نے اپنی ویجیٹیرین پراڈکٹ کی تشہیری مہم میں ایک باحجاب خاتون کی تصویر استعمال کی تو شاید انہیں شدید ردِ عمل کا اندازہ نہیں تھا۔ لیکن کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ممکنہ ردِ عمل کو پیش نظر رکھتے ہوئے جان بوجھ کر ایسا کیا گیا۔
عام طور پر ایسے میٹھے میں جیلیٹین ہوتی ہے جس کی وجہ سے ویجیٹیرین اسے نہیں کھاتے اور حلال نہ ہونے کے سبب مسلمان بھی اس سے اجتناب برتتے ہیں۔ جرمنی میں گوشت نہ کھانے والے افراد کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے اور لاکھوں مہاجرین کی آمد کے بعد مسلمانوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
کاٹیاز کے لیے یہ اشتہار تشہیری کمپنی انتونی نے تیار کیا تھا۔ اشتہار میں دکھائی جانے والی ماڈل کا نام ویسیدکا پیٹرووچ ہے جو خود نہ تو مسلمان ہیں اور نہ ہی عام زندگی میں وہ حجاب پہنتی ہیں۔ اس حوالے سے تشہیری کمپنی اور ماڈل نے کوئی بھی بیان دینے سے انکار کیا۔
تاہم کاٹیاز کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ خالص تجارتی مقاصد کے لیے تیار کردہ اشتہار ہے اور اس کی مدد سے اپنی مصنوعات کے بارے میں متنوع جرمن مارکیٹ میں نئے صارفین تک معلومات پہنچانا تھا۔
تنقید کون کر رہا ہے؟
توقع کے مطابق سب سے پہلا ردِ عمل دائیں بازو کی عوامیت پسند جماعت اے ایف ڈی کی جانب سے سامنے آیا۔ لیکن اس اشتہار پر حقوق نسواں کے لیے سرگرم افراد اور مسلمان خواتین کی جانب سے بھی تنقید کی گئی۔ تاہم کچھ مسلمان خواتین نے اس اشتہار کو حوصلہ افزا بھی قرار دیا۔
اے ایف ڈی کے مطابق یہ اشتہار’خواتین پر جبر کی تشہیر‘ اور ’جرمنی کی اسلامائزیشن‘ کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے۔ پارٹی کے ایک رکن پارلیمان فرانک پاسیمان نے اپنی ایک ٹوئیٹ میں لکھا، ’’یہ اشتہار کیا پیغام دیتا ہے؟ یہ پراڈکٹ صرف حجاب پہننے والی خواتین خریدیں؟‘‘
دوسری جانب کئی مسلمان بھی اس اشتہار سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔ اسلام قبول کرنے والے جرمنوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکن مارٹن لییونے نے اشتہار میں ’جعلی مسلمان‘ خاتون دکھانے پر اعتراض کرتے ہوئے اسے ’نسل پرستی پر مبنی سرمایہ داری‘ قرار دیا۔
مارکیٹنگ ایکسپرٹ اولیور ڈروسٹ کا کہنا ہے کہ مسلمان اور ویجیٹیرین صارفین کو متوجہ کرنے کے لیے باحجاب ماڈل کو استعمال کرنا اچھا خیال تھا لیکن کمپنی کو اس سلسلے میں زیادہ احتیاط سے کام لینا چاہیے تھا۔
اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق
مہاجرت اور اسلام مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی ملکی سیاست میں ایک نئی قوت قرار دی جا رہی ہے۔ اس پارٹی کے منشور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
مہاجرت مخالف
اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
یورپی یونین مخالف
متبادل برائے جرمنی کا قیام سن دو ہزار تیرہ میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اس پارٹی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ یورپی یونین کے ایسے رکن ریاستوں کی مالیاتی مدد نہیں کی جانا چاہیے، جو قرضوں میں دھنسی ہوئی ہیں۔ تب اس پارٹی کے رہنما بیرنڈ لوکے نے اس پارٹی کو ایک نئی طاقت قرار دیا تھا لیکن سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں یہ پارٹی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
دائیں بازو کی عوامیت پسندی
’جرمنی پہلے‘ کا نعرہ لگانے والی یہ پارٹی نہ صرف دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے بلکہ یہ ایسے افراد کو بھی اپنی طرف راغب کرنے کی خاطر کوشاں ہے، جو موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق اے ایف ڈی بالخصوص سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں زیادہ مقبول ہے۔ تاہم کچھ جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پارٹی جرمنی بھر میں پھیل چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
علاقائی سیاست میں کامیابیاں
اے ایف ڈی جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں میں سے چودہ صوبوں کے پارلیمانی اداروں میں نمائندگی کی حامل ہے۔ مشرقی جرمنی کے تمام صوبوں میں یہ پارٹی ایوانوں میں موجود ہے۔ ناقدین کے خیال میں اب یہ پارٹی گراس روٹ سطح پر لوگوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے اور مستقبل میں اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Reuters
نیو نازیوں کے لیے نیا گھر؟
اے ایف ڈی جمہوریت کی حامی ہے لیکن کئی سیاسی ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ اس پارٹی کے کچھ ممبران نیو نازی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ پارٹی ایک ایسے وقت میں عوامی سطح پر مقبول ہوئی ہے، جب انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل پارٹیاں تاریکی میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں این پی ڈی جیسی نازی خیالات کی حامل پارٹی بھی شامل ہے۔
تصویر: picture alliance/AA/M. Kaman
طاقت کی جنگ
تقریبا پانچ برس قبل وجود میں آنے والی اس پارٹی کے اندر طاقت کی جنگ جاری ہے۔ ابتدائی طور پر اس پارٹی کی قیادت قدرے اعتدال پسندی کی طرف مائل تھی لیکن اب ایسے ارکان کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اب اس پارٹی کے اہم عہدوں پر کٹر نظریات کے حامل افراد فائز ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں اس پارٹی کی موجودہ رہنما ایلس وائڈل بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
پيگيڈا کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات
اے ایف ڈی اور مہاجرت مخالف تحریک پیگیڈا کے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ پیگیڈا مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں باقاعدہ بطور پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اے ایف ڈی نے پیگیڈا کے کئی حامیوں کی حمایت بھی حاصل کی ہے۔ تاہم یہ امر اہم ہے کہ پیگیڈا ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ شہریوں کی ایک تحریک ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
میڈیا سے بے نیاز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ رہنما نائیجل فاراژ کی طرح جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے رہنما بھی مرکزی میڈیا سے متنفر ہیں۔ اے ایف ڈی مرکزی میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کے لیے کوشش بھی نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر میڈیا سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔