مسلم رہنماؤں کے ایک وفد نے پہلی مرتبہ پولینڈ میں سابقہ نازی دور کے اذیتی کيمپ آؤشوٹس کا دورہ کیا اور وہاں یہودی رہنماؤں کے ساتھ مشترکہ دعائیہ تقریب میں حصہ لیا۔
اشتہار
مسلم اور یہودی رہنماؤں نے یہ دورہ آؤشوٹس کے سابقہ اذیتی کيمپ کی آزادی کے 75 برس مکمل ہونے کے موقع پر کيا۔ دونوں مذاہب کے رہنماؤں نے اس دورے کو تاریخی قرار دیا ہے۔ مسلم رہنماؤں نے اس دورے کو ایک ’مقدس فریضہ اور غیر معمولی اعزاز‘ بھی قرار دیا۔
دونوں مذاہب کے رہنما جمعرات کے روز سابقہ نازی دور کے اس اذیتی کيمپ پہنچے۔ اس دورے کی قیادت مسلم ورلڈ لیگ کے رہنما محمد بن عبدالکریم العیسی اور امریکن جیوش کمیٹی کے چیف ایگزیکیٹو ڈیوڈ ہیرس کر رہے تھے۔ مسلم ورلڈ لیگ دنیا بھر میں ایک بلین مسلمانوں کی نمائندہ تنظيم ہے۔
محمد العیسی نے اس مقام کا دورہ کرنے کے بعد نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”ہولوکاسٹ کے متاثرین، یہودی اور مسلم کمیونٹی کے افراد کا يہاں يکساں طور پر موجود ہونا اپنے آپ میں ایک مقدس فریضہ اور غیر معمولی اعزاز کی بات ہے۔“
خیال رہے آؤشوٹس کے سابقہ اذیتی کيمپ میں نازیوں نے 1.1 ملین افراد کو قتل کیا تھا جن کی بھاری اکثریت یہودیوں پر مشتمل تھی۔ 54 سالہ محمد العیسی کا کہنا تھا، ”یہ جرائم بلا شبہ غیر معمولی تھے اور ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ درحقیقت یہ انسانیت کے خلاف جرائم تھے، یہ تمام بندگان خدا کی توہین ہے۔“
محمد العیسی مسلمانوں کے 62 رکنی وفد کی قیادت کر رہے تھے۔ اس وفد میں تیس سے زیادہ ممالک کے کئی درجن مذہبی رہنما بھی شامل تھے۔ جیوش کمیٹی نے مسلم اور یہودی وفد کی مشترکہ دعائیہ تقریب کی ایک ویڈیو بھی شیئر کی۔ کميٹی نے ايک ٹوئٹ کر کے کہا، ”ہم سب مل کر یاد رکھیں گے، ہم سب کبھی نہیں بھولیں گے۔“
اس اذيتی کيمپ ميں قتل کر دیے جانے والے افراد کے رشتہ دار اور دنیا بھر سے سينکڑوں لوگ 27 جنوری کو سوویت فورسز کے ہاتھوں آؤشوٹس اذیتی کیمپ کی آزادی کی یادگار منانے کے لیے وہاں جمع ہو رہے ہيں۔
خیال رہے کہ اس سے قبل مئی 2018ء میں محمد العیسٰی نے واشنگٹن میں یو ایس ہولوکاسٹ میوزم کا دورہ کرنے کے بعد میوزیم کو ایک خط بھیجا تھا، جس میں انہوں نے لکھا تھا، ”ہولوکاسٹ کو جھٹلانے یا اس کی تاریخی اہمیت میں کمی کی کوئی بھی کوشش بے گناہ متاثرین کی توہین کے مساوی ہے۔ اسلام ایسے جرائم کے مکمل خلاف ہے۔“ انہوں نے بعد میں ایک مضمون بھی لکھا جس میں تمام مسلمانوں کو تلقین کی تھی کہ وہ ہولوکاسٹ کی تاریخ پڑھیں اور اس ہولناک تاریخی واقعے سے متعلق یادگاری مقامات اور میوزیمز کا دورہ کریں۔ اس کے جواب میں ورلڈجیوش کانگریس نے کہا تھاکہ اب بھی یہ جھوٹا اور غلط تاثر پایا جاتا ہے کہ مسلمان یہودیوں کے خلاف ہیں یا ان کے حوالے سے جارحانہ سوچ رکھتے ہیں۔ اس کے برخلاف جہاں کہیں بھی یہودیوں پر حملہ ہوتا ہے، مسلمان افراد کھل کر اس کے خلاف بولتے ہیں اور اس کی مذمت کرتے ہیں۔
سائنس کی اساس میں یہودی، مسیحی اور مسلمانوں کا کردار
ہماری عصری سائنس کی جڑیں یہودی، مسیحی اور مسلم محققین سے جا کر ملتی ہیں۔ قرون وسطٰی کے دور میں انہوں نے قدیمی مفکرین کی تحریروں کا ترجمہ کیا ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
پہلا سائنسدان
یونانی ماہر علوم ارسطو کی یہ تصویر 1457ء میں تخلیق کی گئی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب دُور دُور سے لوگ قدیمی یونانی مفکرین اور فلسفیوں کی تعلیمات سے فیضیاب ہونے کی کوششوں میں رہتے تھے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
چاند، سورج اور ستارے
علم فلکیات اور کائنات میں زمین کے ڈھانچے کی اہمیت قرون وسطی کے مفکرین کے لیے بھی اتنی ہی اہم تھی، جتنی آج کے سائنسدانوں کے لیے ہے۔ یہ تصویر 1392ء سے 1394ء کے درمیانی دور کی ہے۔ یہ دور کوپرنیکس کے عہد سے تقریباً سو برس قبل کا ہے، کوپرنیکس نے دریافت کیا تھا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے اور ہمارا سیارہ کائنات کے درمیان میں نہیں ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
علم کی منتقلی
یوہانس گوٹن برگ نے اس کے تقریباً ساٹھ سال بعد پرنٹگ یا طباعت دریافت کی تھی۔ یہ ہاتھ سے لکھی گئی ایک کتاب ہے۔ یہودی، مسیحی اور مسلم ثقافتوں میں اس دوران ایک ایسی صنعت قائم ہوئی، جس کا کام قدیمی تحریروں کو ترجمہ کر کے اگلی نسلوں تک پہنچانا تھا۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
دنیا بھر کے ماہر علوم
یہ 1370ء میں تخلیق کی جانے والی ایک کتاب کا عکس ہے۔ اس میں ستاروں سے بھرے ہوئے ایک آسمان کے نیچے بارہ افراد کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے لباس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان بارہ ماہرین کا تعلق مختلف مذاہب اور ثقافتوں سے ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
ستاروں کی چال
1029ء میں ایک مسلم محقق نے ہسپانوی شہر تولیدو میں یہ اصطرلاب یا ایسٹرو لیب تیار کی تھی۔ اندلس کے مسلمانوں، جنہیں مورز بھی کہا جاتا ہے، نے جزیرہ نما آئبیریا ( موجودہ اسپین) کے ایک بڑے حصے پر سن 711 میں قبضہ کر لیا تھا۔ یہ لوگ 1492ء تک اس علاقے پر حکومت کرتے رہے تھے۔ سات سو سال حکومت کے بعد انہوں نے فن تعمیرات اور ادب کا بہترین خزانہ اپنے پیچھا چھوڑا ہے۔ ان میں غرناطہ میں قائم الحمرا کا قلعہ ہے۔
تصویر: Staatsbibliothek zu Berlin
مختلف ثقافتیں اور یکساں سوچ
یہ ایسٹرو لیب پہلے والے سے بہت مشابہت رکھتا ہے۔ تاہم یہ تصویر ایک ایسی کتاب سے لی گئی ہے، جس کی رونمائی اس کے چار سو سال بعد ویانا میں کی گئی تھی۔ اس کتاب کا تعلق علم فلکیات کی ایک دستاویز سے ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
چاند پر نظر
ہر زمانے کے ماہر فلکیات کو چاند میں دلچسپی رہی ہے۔ جرمن شہر لائپزگ میں 1505ء میں شائع ہونے والی ایک کتاب میں چاند کی مختلف منزلوں کے بارے میں بتایا گیا ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
دن، مہینے اور موسم
ہر مذہب میں کلینڈر یا تقویم اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ سائنس کے طور پر علم فلکیات اور عقیدے کے نظام میں ایک پل کا کام کرتے ہیں۔ یہ 1415ء میں ویانا میں لکھی گئی عبرانی میں ایک مذہبی کتاب ہے۔ اس صفحے پر سال کا دوسرا دن درج ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
صحت مند غذا
مشہور یونانی فلسفی بقراط نے خوراک کے حوالے سے کچھ مشورے دیے تھے، ان کے یہ مشورے دسویں صدی کے لوگوں کے لیے بھی بہت دلچسپی کا باعث تھے۔ ان میں صحت مند خوراک کے بارے میں بتایا گیا ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
تندرست
چودہویں صدی میں بقراط کی دانائی کی ایک اور مثال۔ یہ کتاب پیرس میں لکھی گئی تھی۔ اس صفحے پر دیگر تفصیلات کے علاوہ ایک مریض کا علاج کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
بچے کی پیدائش
یہ کتاب جنوبی فرانس میں چودہویں صدی کے وسط میں سرجنز اور مڈ وائفس کے لے لکھی گئی تھی۔ اس میں بچے کی پیدائش کے مختلف مراحل بیان کیے گئے ہیں۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
علم طاقت ہے
موجودہ ایران اور قدیمی فارس کے معروف طبیب اور فلسفی بو علی سینا اس تصویر میں ایک بادشاہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور ان کے اطراف ڈاکٹرز بیٹھ کر علاج معالجے کے موضوع پر گفتگو کر رہے ہیں۔ یہ تصویر بو علی سینا کے انتقال کے چھ سو سال بعد یعنی پندرہویں صدی کی ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
انسان اور جانور
اس کتاب میں ایک خطرناک ناگ کو پکڑنے کے طریقوں کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ یہ کتاب موصل میں 1220ء میں عربی زبان میں لکھی گئی تھی۔ اس کتاب میں مسیحی فلسفی اور سائنسی امور کے ماہر جوہانس فیلوپونس کے تحریروں کے حوالے بھی دیے گئے ہیں۔