مسلم اکثریتی سوڈان اب چرچ آف انگلینڈ کا 39 واں صوبہ
مقبول ملک اے ایف پی
30 جولائی 2017
مسیحیوں کے اینگلیکن چرچ کے اعلیٰ ترین مذہبی رہنما اور برطانیہ میں کینٹربری کے آرچ بشپ جسٹن وَیلبی نے مسلم اکثریتی افریقی ملک سوڈان کو عالمی اینگلیکن کلیسا کا 39 واں صوبہ قرار دے دیا ہے۔
اشتہار
سوڈانی دارالحکومت خرطوم سے اتوار تیس جولائی کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق کینٹربری کے آرچ بشپ نے یہ اعلان آج اتوار کے روز اور زیادہ تر مسیحی آبادی والے جنوبی سوڈان کی شمالی سوڈان سے علیحدگی اور آزادی کے چھ برس بعد کیا۔ شمالی سوڈان پر مشتمل اور ماضی کی طرح سوڈان کہلانے والی موجودہ ریاست کی اکثریتی آبادی مسلمان ہے اور جنوبی سوڈان کے زیادہ تر عوام مسیحی عقیدے کے حامل ہیں۔
اس پس منظر میں جنوبی سوڈان کی سوڈان سے علیحدگی کے بعد سے اب تک سوڈان میں اینگلیکن چرچ کا انتظام جنوبی سوڈان سے چلایا جاتا تھا۔ اب لیکن کینٹربری کے آرچ بشپ نے سوڈان کو عالمی اینگلیکن برادری کا 39 واں صوبہ قرار دے دیا ہے۔
کئی برسوں تک جاری رہنے والی خونریز خانہ جنگی کے بعد جنوبی سوڈان نے سوڈان سے 2011ء میں آزادی حاصل کی تھی۔ چھ سال پہلے تک کی سوڈانی ریاست کی تقسیم سے قبل وہاں جاری اس خانہ جنگی میں دو ملین سےز ائد انسان مارے گئے تھے۔
اس سلسلے میں ایک مذہبی تقریب آج اتوار کے روز سوڈانی دارالحکومت خرطوم میں منعقد ہوئی، جس میں آرچ بشپ وَیلبی بھی شریک ہوئے۔ عالمی اینگلیکن برادری کے رکن قومی اینگلیکن کلیساؤں کی دنیا بھر میں تعداد آج تک 38 تھی، جنہیں ’صوبے‘ کہا جاتا ہے۔ سوڈان کی شمولیت کے ساتھ اب ان صوبوں کی تعداد انتالیس ہو گئی ہے۔
ان انتالیس صوبوں کے علاوہ چھ دیگر کلیسائی شاخوں کے طور پر عالمی اینگلیکن برادری کے ارکان میں چھ ایسے ممالک یا علاقے بھی شامل ہیں، جنہیں ’اضافی صوبے‘ کہا جاتا ہے۔ مجموعی طور پر دنیا بھر میں اینگلیکن کلیسا کے پیروکار مسیحیوں کی تعداد 85 ملین بنتی ہے۔
اس موقع پر عالمی اینگلیکن برادری کے مذہبی رہنما اور برطانیہ میں کینٹربری کے آرچ بشپ جسٹن وَیلبی نے کہا کہ سوڈان کو اینگلیکن چرچ کا انتالیسواں صوبہ بنایا جانا اور خرطوم میں پہلی مرتبہ ایک آرچ بشپ کی تقرری کا فیصلہ سوڈان میں مسیحی برادری کے لیے ایک ’نئے آغاز‘ کی علامت ہے۔
خرطوم کے آل سینٹس کیتھیڈرل میں ہونے والی اسی تقریب میں امریکی، یورپی اور افریقی ملکوں کے سفارت کاروں کے علاوہ سینکڑوں کی تعداد میں مسیحی حاضرین کی موجودگی میں ایزیکیل کونڈو کُمیر کُوکُو نے خرطوم کے پہلے آرچ بشپ کے طور پر باقاعدہ طور پر اپنی کلیسائی ذمے داریاں بھی سنبھال لیں۔ کینٹربری کے آرچ بشپ جسٹن وَیلبی عالمی اینگلیکن برادری کے مذہبی رہنما اور اینگلیکن چرچ کے روحانی سربراہ ہیں۔ عرف عام میں مسیحی عقیدے کی اس شاخ کو چرچ آف انگلینڈ بھی کہا جاتا ہے۔
حاجیہ صوفیہ : میوزیم، مسجد یا پھر گرجا گھر
ترک شہر استنبول میں واقع حاجیہ صوفیہ پر شدید تنازعہ پایا جاتا ہے۔ یہ ایک عجائب گھر ہے، جسے ترک قوم پرست ایک مسجد کے طور پر جبکہ مسیحی ایک مرتبہ پھر کلیسا کے طور پر استعمال کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Marius Becker
طرز تعمیر کا شاندار نمونہ
کونسٹانینوپل یا قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) میں رہنے والے رومی شہنشاہ جسٹینیان نے 532ء میں ایک شاندار کلیسا کی تعمیر کا حکم دیا۔ وہ ایک ایسا چرچ دیکھنا چاہتے ہیں، جیسا کہ ’حضرتِ آدم کے دور کے بعد سے نہ بنا ہو اور نہ ہی بعد میں تعمیر کیا جا سکے‘۔ اس حکم نامے کے 15 برس بعد ہی اس گرجا گھر کے بنیادی ڈھانچے کا افتتاح عمل میں آ گیا۔ تقریباً ایک ہزاریے تک یہ مسیحی دنیا کا سب سے بڑا کلیسا تھا۔
تصویر: imago/blickwinkel
بازنطینی سلطنت کی پہچان
شہنشاہ جسٹینیان نے قسطنطنیہ میں حاجیہ صوفیہ (ایا صوفیہ) کی تعمیر میں 150 ٹن سونے کی مالیت کے برابر پیسہ خرچ کیا گیا۔ قسطنطنیہ بازنطینی سلطنت کا دارالحکومت تھا۔ آبنائے باسفورس پر واقع اس شہر کا موجودہ نام استنبول ہے۔ اسے ’چرچ آف وزڈم ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ساتویں صدی کے تقریباً تمام ہی شہنشاہوں کی تاجپوشی اسی کلیسا میں ہوئی تھی۔
تصویر: Getty Images
کلیسا سے مسجد میں تبدیلی
1453ء میں کونسٹانینوپول (قسطنطنیہ) پر بازنطینی حکمرانی ختم ہو گئی۔ عثمانی دور کا آغاز ہوا اور سلطان محمد دوئم نے شہر پر قبضہ کرنے کے بعد حاجیہ صوفیہ کو ایک مسجد میں تبدیل کر دیا۔ صلیب کی جگہ ہلال نے لے لی اور مینار بھی تعمیر کیے گئے۔
تصویر: public domain
مسجد سے میوزیم تک
جدید ترکی کے بانی مصطفٰی کمال اتا ترک نے 1934ء میں حاجیہ صوفیہ کو ایک میوزیم میں تبدیل کر دیا۔ پھر اس کی تزئین و آرائش کا کام بھی کیا گیا اور بازنطینی دور کے وہ نقش و نگار بھی پھر سے بحال کر دیے گئے، جنہیں عثمانی دور میں چھُپا دیا گیا تھا۔ اس بات کا بھی خاص خیال رکھا گیا کہ عثمانی دور میں اس عمارت میں کیے گئے اضافے بھی برقرار رہیں۔
تصویر: AP
اسلام اور مسیحیت ساتھ ساتھ
حاجیہ صوفیہ میں جہاں ایک طرف جگہ جگہ پیغمبر اسلام کا نام ’محمد‘ اور ’اللہ‘ لکھا نظر آتا ہے، وہاں حضرت مریم کی وہ تصویر بھی موجود ہے، جس میں وہ حضرت عیسٰی کو گود میں لیے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ بڑے گنبد میں روشنی کے لیے تعمیر کی گئی وہ چالیس کھڑکیاں بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں، جن کا ایک بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ گنبد میں دراڑیں پیدا نہ ہوں۔
تصویر: Bulent Kilic/AFP/Getty Images
بازنطینی دور کی نشانیاں
حاجیہ صوفیہ کی جنوبی دیوار پر چھوٹے چھوٹے پتھروں سے بنائی گئی یہ تصویر 14 ویں صدی عیسوی کی ہے، جسے تجدید اور مرمت کے ذریعے پھر سے بحال کیا گیا ہے۔ کافی زیادہ خراب ہونے کے باوجود اس تصویر میں مختلف چہرے صاف نظر آتے ہیں۔ اس تصویر کے وسط میں حضرت عیسٰی ہیں، اُن کے بائیں جانب حضرت مریم جبکہ دائیں جانب یوحنا ہیں۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
عبادات پر پابندی
آج کل حاجیہ صوفیہ میں عبادت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ 2006ء میں اُس وقت کے پاپائے روم بینیڈکٹ شانز دہم نے بھی حاجیہ صوفیہ کے دورے کے دوران اس حکم کی پابندی کی تھی۔ اناطولیہ کے کٹر قوم پرست نوجوان اسے دوبارہ مسجد میں بدلنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے 15 ملین سے زائد دستخط بھی اکھٹے کر رکھے ہیں۔
تصویر: Mustafa Ozer/AFP/Getty Images
ایک اہم علامت
حاجیہ صوفیہ کے آس پاس مسلمانوں کی تاریخی عمارات کی کمی نہیں ہے۔ سامنے ہی سلطان احمد مسجد واقع ہے، جسے بلیو یا نیلی مسجد بھی کہا جاتا ہے۔ ترک قوم پرستوں کا موقف ہے کہ حاجیہ صوفیہ سلطان محمد کی جانب سے قسطنطنیہ فتح کرنے کی ایک اہم علامت ہے، اسی لیے اسے مسجد میں بدل دینا چاہیے۔
تصویر: picture-alliance/Arco
قدامت پسند مسیحی
قدامت پسند مسیحی بھی حاجیہ صوفیہ کی ملکیت کے حوالے سے دعوے کر رہے ہیں۔ ان کا ایک طویل عرصے سے مطالبہ ہے کہ حاجیہ صوفیہ کو مسیحی عبادات کے لیے دوبارہ سے کھولا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’حاجیہ صوفیہ کو مسیحی عقیدے کی گواہی کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا ‘۔
تصویر: picture-alliance/dpa
حاجیہ صوفیہ ’فیصلہ ابھی باقی ہے‘
حاجیہ صوفیہ کے بارے میں بالآخر کیا فیصلہ ہو گا، اس بارے میں کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔ ترکی میں حزب اختلاف کی قوم پرست جماعت ’MHP‘ اسے مسجد میں تبدیل کرنے کے لیے کوششیں کر رہی ہے اور پارلیمان میں اُس کی دو قراردادیں بھی مسترد ہو چکی ہیں۔ یونیسکو بھی اس حوالے سے فکر مند ہے کیونکہ 1985ء سے اس میوزیم کو عالمی ثقافتی ورثے کا درجہ دیا جا چکا ہے۔