1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مسلم اکثریت کے بارے میں رپورٹنگ، فرانسیسی صحافی کی چین بدری

امجد علی26 دسمبر 2015

چین سرکاری طور پر اپنے مغربی مسلم اکثریتی علاقے میں جاری نسلی ہنگاموں کو عالم گیر دہشت گردی کا ہی ایک حصہ قرار دیتا ہے۔ اس سرکاری چینی موقف پر سوال اٹھانے کی پاداش میں ایک فرانسیسی خاتون صحافی کو اب چین چھوڑنا پڑے گا۔

Reporterin L'obs Ursula Gauthier
فرانسیسی ہفت روزہ نیوز میگزین ’لوبز‘ کے لیے کام کرنے والی خاتون فرانسیسی صحافی اُرسُلا گوتیےتصویر: picture-alliance/AP/L'Obs

چین نے چھبیس دسمبر ہفتے کے روز کہا ہے کہ فرانسیسی خاتون صحافی اُرسلا گوتیے کے صحافتی اجازت نامے کی مدت میں توسیع نہیں کی جائے گی۔

ایک فرانسیسی ہفت روزہ نیوز میگزین ’لوبز‘ کے لیے کام کرنے والی اُرسُلا گوتیے بیجنگ حکومت کے اُن اقدامات کے بارے میں رپورٹنگ کر رہی تھیں جن میں حکومت اپنے مغربی مسلم اکثریتی علاقے میں جاری نسلی تشدد کو عالم گیر دہشت گردی سے جوڑنے کی کوششیں کر رہی ہے۔

چینی حکام نے اعتراض کیا تھا کہ اس صحافی نے اپنی رپورٹنگ کے ذریعے چینی عوام کے جذبات مجروح کیے ہیں اور اس کے لیے اُنہیں معافی مانگنی چاہیے۔ اُرسُلا گوتیے نے معافی مانگنے سے انکار کر دیا تھا اور پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ وہ چین چھوڑنے کے لیے تیار ہیں کیوں کہ اُنہیں مزید یہ توقع نہیں ہے کہ چینی حکام اُن کے صحافتی اجازت نامے میں توسیع کریں گے۔

اُرسلا گوتیے اکتیس دسمبر کو اپنے ویزے کی مدت ختم ہونے پر اُسی روز چین چھوڑنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ اگر وہ واقعی اپنے تاحال پروگرام کے مطابق اکتیس دسمبر کو چین سے نکل گئیں تو وہ 2012ء کے بعد سے پہلی غیر ملکی صحافی ہوں گی، جنہیں چین سے نکالا جائے گا۔ تب ٹی وی چینل الجزیرہ کے لیے کام کرنے والی امریکی خاتون صحافی میلیسا چن کو چین چھوڑ کر جانے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔

گوتیے کہتی ہیں:’’وہ چاہتے ہیں کہ مَیں کھلے عام ایسی چیزیوں کے لیے معافی مانگوں، جو مَیں نے لکھی ہی نہیں ہیں۔ وہ مجھ پر ایسی تحریروں کا الزام لگا رہے ہیں، جو میرے قلم سے نکلی ہی نہیں ہیں۔‘‘

چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان لُو کانگ نے ایک تحریری بیان میں کہا ہے کہ گوتیے مزید اس بات کے لیے ’موزوں‘ نہیں ہیں کہ اُنہیں چین میں کام کرنے کی اجازت دی جائے کیوں کہ اُنہوں نے ایسی ’’دہشت گردی اور بے رحمانہ کارروائیوں‘‘ کی حمایت کی ہے، جن کی وجہ سے عام شہری ہلاک ہوئے ہیں اور اب اپنی تحریروں کے لیے معافی مانگنے سے بھی انکار کر رہی ہیں۔

اس بیان میں لُو نے لکھا ہے:’’چین نے ہمیشہ غیر ملکی میڈیا اور غیر ملکی نامہ نگاروں کے ملک کے اندر رہتے ہوئے رپورٹنگ کرنے کے قانونی حقوق کو تحفظ فراہم کیا ہے لیکن چین دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کو برداشت نہیں کر سکتا۔‘‘

بیجنگ حکومت اپنے مغربی مسلم اکثریتی علاقے میں جاری نسلی تشدد کو عالم گیر دہشت گردی سے جوڑنے کی کوششیں کر رہی ہےتصویر: picture-alliance/dpa/O. Weiken

فرانسیسی خاتون صحافی گوتیے نے ان الزامات کو لغو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کی حوصلہ افزائی اخلاقی ہی نہیں قانونی طور پر بھی غلط ہے:’’اگر یہی معاملہ ہے تو پھر میرے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے۔‘‘

گوتیے نے پیرس میں ہونے والی دہشت گردی کے فوراً بعد اپنے اٹھارہ نومبر کے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ چین کی طرف سے یک جہتی کے اظہار کے پیچھے اُس کا اپنا یہ مفاد کارفرما ہے کہ وہ اپنے مسلم اکثریتی علاقے سنکیانگ میں نسلی تشدد کو عالم گیر دہشت گردی ہی کا ایک حصہ تسلیم کیے جانے کے لیے بین الاقوامی حمایت چاہتا ہے۔

گوتیے اور کئی دیگر غیر ملکی صحافیوں کا تجزیہ یہ ہے کہ سنکیانگ میں نظر آنے والا نسلی تشدد بیجنگ حکومت کی ہی جابرانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے اور بیجنگ حکومت کے سرکاری موقف کے برعکس اس تشدد کے ڈانڈے کسی غیر ملکی تحریک کے ساتھ نہیں ملتے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں