مسلم دنیا سے اوباما کے خطاب کا ایک سال
4 جون 2010افریقہ کے مسلمان ملک مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں امریکی صدر باراک اوباما کے خطاب کو ایک تاریخی پیغام کے تناظر میں دیکھا گیا تھا، لیکن اس میں تجویز کردہ ان کا مصالحتی پیغام ایک سال کے اندر ہی اسرائیل کی کھل کر حمایت کرنے کے تناظر میں دھندلانے لگا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ مقبوضہ عرب علاقوں میں اسرائیل کی جانب سے نئی بستیوں کی تعمیر پر اوباما انتظامیہ نے خاصا سخت مؤقف اپنا رکھا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ انتظامیہ دوسری اسرائیلی پالیسیوں کی کھل کر حمایت کر رہی ہے۔
اوباما انتظامیہ کے اس رویے کی کھل کر وضاحت حال ہی میں غزہ کو جانے والے امدادی بحری جہازوں کے قافلے پر اسرائیلی کمانڈوز کی کارروائی پر امریکہ کے محتاط بیان سے ہوتی ہے۔ بین الاقوامی مبصرین کے خیال میں یہ ایک موقع تھا کہ امریکہ کی جانب سے سخت بیان آ سکتا تھا، جو شاید وقت کی ضرورت بھی تھا۔ امریکہ کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک نے کھل کر اسرائیلی اقدام کی مذمت کی ہے۔ مصری شہر قاہرہ کے اہرام مرکز برائے سیاسیات و اسٹریٹیجک سٹڈیز کے تجزیہ نگار اماد غاد کا خیال ہے کہ امریکی صدر کے قاہرہ میں دئے جانے والے بیانات کئی پہلوؤں کی عکاسی کرتے ہیں اور غزہ کے حوالے سے ان کا ردعمل ان کے ایک اور پہلو کو دکھا رہا ہے اور یہ ثابت کرتا ہے کہ ان کی حمایت کا توازن اسرائیل کی جانب زیادہ جھک گیا ہے۔
پیرس میں میں قائم عرب ملکوں کے معاملات پر نظر رکھنے والے ایک ادارے کے سربراہ انتوئن باسبوس نے قاہرہ تقریر پر ایک سال مکمل ہونے کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ غزہ جانے والے بحری قافلے پر اسرائیلی فوجی ایکشن پر امریکی محتاط ردعمل سے واضح ہوتا ہے کہ امریکہ اسرائیل کا بین الاقوامی ’گاڈ فادر‘ ہے۔
اسی طرح اقوام متحدہ کے ادارے سلامتی کونسل میں غزہ جانے والےاس قافلے پر اسرائیلی فوجی کارروائی کے بارے میں پیش کی جانے والی قرارداد کے متن کو بھی اوباما انتظامیہ کی جانب سے نرم رکھنے کی کامیاب کوشش کو بھی عالمی سطح پر بغور دیکھا گیا ہے۔ امریکہ کے مقابلے میں غزہ پٹی امدادی سامان لے جانے والے بحری قافلے پر حملے کے حوالے سے کئی یورپی ملکوں نے اسرائیلی سفیروں کو طلب کر کے حکومتی تشویش سے آگاہ کیا تھا۔ فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے بھی اوباما انتظامیہ سے کہا ہے کہ اب اسرائیل فلسطین مذاکراتی عمل کے تناظر میں امریکہ کے لئے اہم اور مشکل فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ۔ عباس کا یہ بیان ان کے اگلے ہفتے شروع ہونے والے امریکی دورے سے قبل آیا ہے، جو سفارتی حلقوں میں خاصا اہم تصور کیا جا رہا ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: عاطف بلوچ