بلیک لائیوز میٹر کے نعرے کے ساتھ دنیا بھر میں نسل پرستی کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے ہو رہے ہیں، تاہم یہ بحث بھی جاری ہے کہ عرب دنیا بلکہ مسلم دنیا میں نسل پرستی سے متعلق کس انداز کے رویے پائے جاتے ہیں؟
تصویر: Getty Images/AFP/F. Belaid
اشتہار
انسانی حقوق کے کارکنان سمجھتے ہیں کہ مسلم دنیا میں نسل پرستانہ رویوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
تیونس میں سیام فام خواتین کے حقوق کی ایک تنظیم کی شریک بانی خوالا کسیکسی کے مطابق، ''ہمارے معاشرے میں سفید رنگت خوب صورتی کا معیار سمجھی جاتی ہے۔‘‘
تھامس روئٹرز فاؤنڈیشن سے بات چیت میں انہوں نے کہا، ''سیاہ رنگ والی خواتین پر دباؤ ہوتا ہےکہ وہ اپنے بال سیدھے کریں، گھنگریالے بالوں سے نجات پائیں اور اپنی جلد کو سفید بنائیں، تاکہ انہیں معاشرہ خوب صورتی کے اپنے معیارات پر قبول کرے۔‘‘
جنوبی سوڈانی صحافی سوزن کم اٹور کمیونٹی کی بنیاد پر چلنے والے پلیٹ فارم #Defyhatenow سے منسلک ہیں۔ قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ معاشرہ سمجھتا ہے کہ شادی فقط سفید رنگت والی خواتین سے کی جانا چاہیے: ''جب کوئی لڑکی جلد کو سفید بنانے والی بلیچ کریموں کا استعمال روکتی ہے،تو اس کی سہیلیاں اس پر تنقید شروع کر دیتی ہیں۔‘‘
مریکا میں سفید فام پولیس اہلکار کے ہاتھوں ایک سیام فام امریکی شہری جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کے بعد مظاہرے شروع ہوئے تھے، جو پہلے امریکا اور پھر دنیا بھر میں پھیل گئے۔تصویر: picture-alliance/AA/Stringer
نسل پرستی کی جہت
عرب بلکہ مسلم دنیا میں گہرے رنگ کی خواتین کو جس طرح دیکھا جاتا ہے یا وہ جس طرح خود کو دیکھتی ہیں، ایسے موضوعات میں سے ایک ہے، جن پر بلیک لائیوز میٹر کے مظاہروں کے بعد بحث تیز ہوئی ہے۔ مئی میں امریکی شہر مینیاپولِس میں سفید فام پولیس اہلکار کے ہاتھوں ایک سیام فام امریکی شہری جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کے بعد یہ مظاہرے شروع ہوئے تھے، جو پہلے امریکا اور پھر دنیا بھر میں پھیل گئے۔
انسانی حقوق کے متعدد کارکنان سمجھتے ہیں کہ سیام فام افراد کے خلاف نسل پرستانہ رویے مسلم دنیا میں ایک نئی جہت کے ساتھ مروجہ ہیں۔
برلن میں دنیا بھر کی ثقافتوں کا رنگا رنگ کارنیوال
جرمن دارالحکومت برلن میں ثقافتوں کا کارنیوال منائے جانے کی روایت ٹھیک بیس برس قبل 1996ء میں شروع ہوئی تھی۔ تب منتظمین اور شرکاء کا مقصد نسل پرستی کے خلاف مارچ کرنا تھا۔ آج کل اس میں رواداری کا علم بلند کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Gambarini
ثقافت کی حدود لامحدود
برلن میں تقریباً دو سو مختلف ممالک سے آئے ہوئے شہری بستے ہیں۔ اس تصویر میں زامبا رقص کا مظاہرہ کرنے والی برازیل کی ایک فنکارہ کو ترکی کی روایتی ٹوپی پہنے ایک بزرگ کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے اور اس طرح کے ہنگامہ خیز مناظر اسی کارنیوال میں نظر آ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Gambarini
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
اس کارنیوال میں رنگ و نسل کی تمام حدود ختم ہو جاتی ہیں اور لوگ کسی قسم کے خوف کےبغیر مل جُل کر رقص و موسیقی کے ہنگامے میں ڈوب جاتے ہیں۔ ثقافتوں کے اس کارنیوال میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک کثیرالثقافتی معاشرے میں لوگ کس طرح رواداری اور برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مل جُل کر رہا کریں گے۔
تصویر: Reuters/H. Hanschke
اژدہے اور خواتین
برلن میں تیس ہزار چینی بستے ہیں۔ ایک طویل عرصے سے برلن کی روزمرہ زندگی پر ان چینیوں کی بھی گہری چھاپ ہے۔ ثقافتوں کے کارنیوال میں چینی شہری بھی اپنے مخصوص انداز میں حصہ لیتے ہیں، جیسے کہ یہ چینی خواتین اژدہوں کے ساتھ ایک مخصوص چینی رقص پیش کر رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Hanschke
مقامی اور عالمی رنگ ساتھ ساتھ
اس تصویر میں رقص کرنے والا شخص، جس نے پروں والا ہَیٹ پہن رکھا ہے، کسی بہت ہی دور کی اجنبی دنیا کا باسی معلوم ہوتا ہے۔ درحقیقت وہ دنیا کے بڑے شہروں میں سے ایک کے باسیوں کے سامنے اپنی مخصوص ثقافتی روایات پیش کر رہا ہے۔ یہ رقاص اس حقیقت کا عکاس ہے کہ مقامی روایات وقت کے ساتھ ساتھ عالمی روایات کا حصہ بن چکی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Gambarini
جنوں کے عالم میں
جلوس کے سبھی شرکاء گاتے بجاتے ہیں، مقصد ہوتا ہے خوب شور اور ہنگامہ کرنا۔ اس کارنیوال کی ایک پختہ روایت اس طرح کے کاغذی بِگل یا سِیٹیاں ہیں، جنہیں زور زور سے بجایا جاتا ہے۔ ان کا شور اس جلوس میں بولے جانے والے الفاظ پر غالب آ جاتا ہے اور ابلاغ کا بنیادی ذریعہ بن جاتا ہے۔ چند لمحوں کے لیے الفاظ پسپائی اختیار کر لیتے ہیں۔ ویسے بھی کارنیوال میں الفاظ کے بغیر بھی لوگ ایک دوسرے کی بات سمجھ لیا کرتے ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Hanschke
گرمی بھی، خوبصورتی بھی
المونیم کی چادریں عموماً کسی حادثے کے متاثرین کو دی جاتی ہیں، مثلاً جب بحیرہٴ روم میں کشتیوں کے ذریعے آنے والے مہاجرین کو بچایا جاتا ہے تو اُنہیں سردی سے بچنے کے لیے اسی طرح کی چادریں دی جاتی ہیں۔ آیا ان رقاصاؤں نے یہ چادریں سردی سے بچنے کے لیے اوڑھ رکھی ہیں یا محض خوبصورت نظر آنے کے لیے ، یہ بات واضح نہیں ہے لیکن کیا فرق پڑتا ہے، کارنیوال کے ہنگامے میں اس طرح کی باتوں پر کوئی کم ہی غور کرتا ہے۔
تصویر: Reuters/H. Hanschke
رقص ہو گا، موسم چاہے جیسا بھی ہو
یورپ میں عام طور پر کارنیوال سردیوں ہی میں آتا ہے۔ اس بار ثقافتوں کے کارنیوال کے دوران بھی موسم سرد ہی تھا لیکن یہ رقاصہ سرد موسم سے بھی گھبرائی نہیں۔ اُس نے پلاسٹک کی ایک شِیٹ سے اپنا جسم ڈھانپ رکھا ہے۔ آیا وہ اس طرح اپنی کم لباسی کو چھپُانا چاہتی ہے یا نمایاں کرنا چاہتی ہے، یہ فیصلہ دیکھنے والی نظر پر ہے۔
تصویر: Reuters/H. Hanschke
کھانے میں بھی اپنی مخصوص روایت
ثقافتوں کے کارنیوال میں شریک یہ چینی شہری اپنے مخصوص انداز میں اسٹکس کی مدد سے کھا رہے ہیں۔ اس طرح دو اسٹکس کی مدد سے کھانا کھانا کم از کم یورپ کے شہریوں کے لیے تو ہرگز آسان نہیں ہے لیکن چینیوں کے لیے اس طرح سے کھانا کوئی مشکل کام نہیں ہے، خواہ انہوں نے مخصوص ملبوسات پہن رکھے ہوں اور خواہ انہیں کھڑے کھڑے کھانا پڑ رہا ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Gambarini
ٹانگ اوپر !
رنگا رنگ ملبوسات پہنے یہ نوجوان بھی اپنے مخصوص انداز میں اعضاء کی شاعری کرتا اس جلوس میں شریک ہے۔ اس طرح سے ٹانگ اوپر اٹھانا رقص کا بھی کوئی انداز ہو سکتا ہے اور ورزش کا بھی اور یہ کسی فوجی پریڈ کی نقل بھی ہو سکتی ہے۔ اس کارنیوال کے شرکاء کا بنیادی مقصد کھیلنا کُودنا اور تفریح حاصل کرنا ہے، دیکھنے والے چاہے جو مرضی سمجھیں۔
تصویر: Reuters/H. Hanschke
افریقی رنگ اور ڈھول کی تھاپ
پیلا، سبز اور سرخ، افریقی اتحاد کے علامتی رنگ۔ افریقہ کے مختلف خطّوں سے آئے ہوئے ان شہریوں کو بھی یہاں ایک دوسرے سے ملنے کا موقع ملتا ہے اور یوں نئے روابط جنم لیتے ہیں۔ برلن دنیا کے ہر خطّے کے باسیوں کو امن کے ساتھ مل جُل کر رہنے کے مواقع مہیا کرتا ہے، چاہے کچھ دیر کے لیے ہی سہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Gambarini
10 تصاویر1 | 10
جرمنی میں مسلمانوں میں بھی اسی انداز کی گفت گو جاری ہے۔ مسلم تنظیم 'الحمبرا گزیلشافٹ‘ کے ایڈوائزری بورڈ کے رکن اور صحافی و مصنف ایرن گوویسن نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ جرمنی میں مقیم مسلم برادری کے کچھ حصے نسل پرستی سے متعلق اپنے رویوں پر بحث میں مصروف ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''نسل پرستی، سامیت دشمنی اور مختلف برادریوں سے متعلق دیگر طرز کے نفرت انگیز رویوں کی وجوہ قریب قریب ملتی جلتی ہیں۔ لوگوں کی تذلیل اور ہتک آمیزی کے ذریعے لوگ اپنی برتری ظاہر کرتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ بعض مسلمان اس مسئلے کو سمجھتے ہیں اور اپنے ضمیر کی آواز پر اس کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں ، ''مگر بعض مسلمان سوچتے ہیں کہ وہ مسائل کو فقط یہ کہہ کر چھپا دیں گے کہ مسلمان کبھی نسل پرست اور سامیت دشمن نہیں ہو سکتا۔ ایسے افراد کسی کی بھی تنقید، خوداحتسابی یا بحث کو اپنی تاریخ اور ثقافت پر حملہ سمجھتے ہیں۔‘‘
نوآبادیاتی دور کے نشانات
ایسے مسلم اکثریتی ممالک جو یورپی قوتوں کی نوآبادیات رہ چکے ہیں، وہاں لوگ خود اپنی ہی رنگ کی بابت ناقدانہ سوچ رکھتے ہیں۔ برٹش سوڈانی فنکار النیال نے سین عریبیہ نامی آن لائن جریدے سے بات چیت میں کہا ، ''میرے خیال میں عرب دنیا میں مغربی نوآبادیاتی دور سے کئی رویے پیدا ہوئے ہیں۔ پھر عربوں نے خود اپنی رنگت اور ثقافت تک سے نفرت شروع کر دی۔ عرب دنیا میں سیاہ رنگ سے نفرت کی کڑیاں یہیں سے ملتی ہیں۔ یہ لوگ اکثر کہتے ہیں کہ وہ جدید ہیں، مگر حقیقت میں ان کا جدت سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘
پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے قتل پر امریکا سراپا احتجاج
امریکا میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے خلاف منظم غیر منصفانہ سلوک کے خلاف مظاہروں نے پر تشدد شکل اختیار کر لی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق ملکی فوج اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے تیار ہے اور استعمال کی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
’میرا دم گھٹ رہا ہے‘
پولیس کی طرف سے سیاہ فام باشندوں کے ساتھ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری مبینہ ظالمانہ طرز عمل کے خلاف تازہ مظاہروں کا آغاز پیر 25 مئی کو چھیالیس سالہ افریقی نژاد امریکی شہری جارج فلوئڈ کی ہلاکت کے بعد ہوا۔ ایک پولیس افسر نے فلوئڈ کو منہ کے بل گرا کر اس کے ہاتھوں میں ہتھ کڑی ڈالنے کے باوجود اس کی گردن کو اپنے گھٹنے سے مسلسل دبائے رکھا۔ اس کی وجہ سے فلوئڈ سانس گھٹنے سے موت کے منہ میں چلا گیا۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
پر امن احتجاج سے پرتشدد جھڑپیں
ہفتے کے دن تک زیادہ تر مظاہرے پر امن تھے مگر رات کے وقت کچھ جگہوں پر پرتشدد واقعات بھی پیش آئے۔ واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے باہر نیشنل گارڈز تعینات کر دیے گئے۔ انڈیاناپولس میں کم از کم ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا مگر پولیس کا کہنا تھا کہ اس میں اس کا کوئی کردار نہیں۔ فلاڈیلفیا میں پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ نیویارک میں پولیس کی گاڑی نے احتجاجی مظاہرین کو ٹکر دے ماری۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/J. Mallin
دکانوں میں لوٹ مار اور توڑ پھوڑ
لاس اینجلس میں ’بلیک لائیوز میٹر‘کے نعرے لگانے والے مظاہرین پر پولیس کی طرف سے لاٹھی چارج کیا گیا اور ان پر ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں۔ بعض شہروں، جن میں لاس اینجلس، نیویارک، شکاگو اور مینیاپولس شامل ہیں، مظاہرے جھڑپوں میں بدل گئے۔ ساتھ ہی لوگوں نے مقامی دکانوں اور کاروباروں میں تھوڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Pizello
’لوٹ مار کب شروع ہوئی ۔۔۔‘
امریکی صدر نے دھمکی دی ہے کہ وہ مظاہروں کو کچلنے کے لیے فوج بھیج سکتے ہیں۔ ٹرمپ کے بقول ان کی انتظامیہ پرتشدد مظاہروں کو سختی سے روکے گی۔ ٹرمپ کے یہ الفاظ ملک بھر میں غم و غصے کا سبب بنے۔ ٹرمپ نے تشدد کی ذمہ داری انتہائی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروپوں پر عائد کی۔ تاہم مینیسوٹا کے گورنر کے بقول ایسی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ سفید فاموں کی برتری پر یقین رکھنے والے لوگ تشدد کو بھڑکا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/K. Birmingham
میڈیا بھی نشانہ
ان مظاہروں کی کوریج کرنے والے بہت سے صحافیوں کو بھی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کے اہلکاروں نے نشانہ بنایا۔ جمعے کو سی این این کے سیاہ فام رپورٹر عمر جیمینیز اور ان کے ساتھی کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔ کئی صحافیوں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا یا گرفتار کیا گیا جب وہ براہ راست رپورٹنگ کر رہے تھے۔ ڈی ڈبلیو کے صحافی اسٹیفان سیمونز پر بھی اس وقت گولی چلا دی گئی جب وہ ہفتے کی شب براہ راست رپورٹ دینے والے تھے۔
تصویر: Getty Images/S. Olson
مظاہروں کا سلسلہ دنیا بھر میں پھیلتا ہوا
یہ مظاہرے پھیل کر اب دیگر ممالک تک پہنچ چکے ہیں۔ ہمسایہ ملک کینیڈا میں ہفتے کے روز ہزاروں افراد نے ٹورانٹو اور وینکوور میں سڑکوں پر مارچ کیا۔ جرمنی، برطانیہ اور نیوزی لینڈ کے علاوہ کئی یورپی ملکوں میں بھی سیاہ فاموں کے خلاف ناروا سلوک اور نسل پرستی کے خلاف مظاہرے کیے گئے ہیں۔ ان مظاہروں میں امریکی مظاہرین کے ساتھ اظہار یک جہتی بھی کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Shivaani
ہیش ٹیگ جارج فلوئڈ
ہفتے کے روز جرمن دارالحکومت برلن میں واقع امریکی سفارت خانے کے سامنے ہزاروں لوگوں نے مارچ کیا۔ مظاہرین نے جارج فلوئڈ کی ہلاکت اور امریکا میں منظم انداز میں نسل پرستی پھیلائے جانے کے خلاف احتجاج کیا۔