مسلم دنیا میں کئی سیاسی بحران اور معاشی مفادات کی جنگیں عام انسانوں کی زندگیوں کو متاثر کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اسلامی دنیا مجموعی طور پر جس انتشار اور بد حالی کا شکار ہے، ان سے کیسے نکلا جا سکتا ہے؟
اشتہار
مسلم دنيا کو درپيش مسائل، جاويد غامدی کے ساتھ خصوصی گفتگو
07:50
This browser does not support the video element.
تاریخ گواہ ہے کہ جن قوموں پر زوال آتا ہے، ان میں سے بہت سی اپنی فکری اور عملی تربیت کو درست سمت دے کر اپنے سیاہ دور سے نکل بھی جاتی ہیں۔ لمحہ فکریہ وہ ہوتا ہے جب کئی سو سال تک دنیا کے مختلف حصوں پر حکمرانی کرنے اور علم و دانش کا گہوارہ مانی جانے والی کوئی قوم ایسی تنزلی کا شکار ہو جائے کہ وہ اپنا اجتماعی اور انفرادی وقار کھو بیٹھے۔ پھر ایسی کوئی قوم شکست و ریخت کا شکار تو ہو مگر اسے یہ ادراک بھی نہ ہو کہ اُس کا دھارا کس سمت بڑھ رہا ہے اور اس کی آئندہ نسل کی شناخت مہذب معاشروں میں 'انتہا پسندی اور پسماندگی‘ سے تعبیر کی جائے گی۔
آج اسلامی دنیا کا شیرازہ بری طرح بکھر چکا۔ یہ تقسیم گرچہ مسلمانوں کی تاریخ کا حصہ رہی ہے تاہم تقسیم کی یہ خلیج روز بروز پھیلتی ہی چلی جا رہی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے مسلمان خود اپنی ہی تاریخ سے واقف نہیں مگر خود کو مہذب بنانا چاہتے ہیں۔
آج کی دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ معاشروں، ملکوں اور اقوام کے مابین فاصلے کم ہوئے ہیں اور ان کا ایک دوسرے پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے۔ ان حالات میں اپنی تاریخ سےسبق سیکھتے ہوئے مغربی دنیا افہام و تفہیم، رواداری اور بھائی چارگی کے ساتھ ساتھ اپنی صفوں میں اتحاد بھی قائم کر چکی ہے۔ اس نے اپنی توجہ تعلیم، صحت، اقتصادی ترقی و خوشحالی اور پر امن باہمی بقا پر مرکوز رکھی اور اس کے نتائج کم و بیش تمام مغربی معاشروں کی صورتحال سے عیاں ہیں۔
دوسری جانب مسلم دنیا ہے، جو تیل اور دیگر معدنی ذخائر سے مالا مال بھی ہے اور اس کے پاس افرادی قوت کی بھی کوئی کمی نہیں۔ مگر سیاسی انتشار اور فکری بحران مسلم دنیا کے سب سے بڑے المیے دکھائی دیتے ہیں۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عالمی سیاست کا میزان جس طرح غیر متوازن ہے، اس کے بھی بہت منفی اثرات مسلم دنیا پر پڑے ہیں۔ تاہم کسی اور کو اس کا قصور وار یا ذمہ دار ٹھہرانے کے بجائے پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ مسلم معاشروں میں پائی جانے والی موجودہ زبوں حالی کے مضمرات کیا ہیں، وہ کون سی کمزوریاں ہیں جو مسلمانوں کو بحران در بحران اور ایک سے بڑھ کر ایک انتشار سے دوچار کر رہی ہیں۔
کہتے ہیں کہ 'جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ہوتی ہے‘۔ اگر مسلم دنیا اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کرنا چاہتی ہے، تو اسے اپنے بنیادی مسائل کو حل کرنا ہو گا۔ اپنے عقیدے کو ڈھال یا ہتھیار بنا کر مسلم معاشرے نہ تو ترقی کی دوڑ میں آگے جا سکیں گے اور نہ ہی اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کیے بغیر اپنے اجتماعی اور انفرادی مفادات کی جنگ جیت پائیں گے۔
برقعہ اور نقاب کن یورپی اور مسلم ممالک میں ممنوع ہے؟
ہالینڈ میں یکم اگست سے چہرے کے مکمل نقاب پر پابندی پر عملدرآمد شروع ہو گیا ہے۔ کچھ دیگر یورپی ممالک پہلے ہی اسی طرح کے اقدامات اٹھا چکے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ کچھ مسلم ممالک نے بھی برقع پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Kelly
چودہ برسوں کی طویل بحث
چودہ برسوں کی طویل بحث کے بعد آخر کار یکم اگست سن دو ہزار انیس سے ہالینڈ میں خواتین کے برقعے یا چہرے کے مکمل نقاب پر پابندی کے متنازعہ قانون پر عملدرآمد شروع ہو گیا۔ گزشتہ جون میں ڈچ قانون سازوں نے اس قانون کی منظوری دی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Lampen
فرانس، نقاب پر پابندی لگانے والا پہلا ملک
فرانس وہ پہلا یورپی ملک ہے جس نے عوامی مقامات پر خواتین کے برقعہ پہننے اور نقاب کرنے پر پابندی عائد کی تھی۔ پیرس حکومت نے یہ بین اپریل سن 2011 سے لگا رکھا ہے۔ اس پابندی سے پردہ کرنے والی قریب دو ہزار مسلم خواتین متاثر ہوئی تھیں۔
تصویر: dapd
بیلجیم میں بھی پردہ ممنوع
فرانس کے نقاب اور برقعے کی ممانعت کے صرف تین ماہ بعد جولائی سن 2011 میں بیلجیم نے بھی پردے کے ذریعے چہرہ چھپانے پر پابندی لگا دی۔ بیلجیم کے قانون میں چہرہ چھپانے والی خواتین کو نقد جرمانے سمیت سات دن تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
آسٹریا میں نقاب پر پابندی کے قانون کی منظوری
خواتین کے نقاب پر پابندی کا قانون آسٹریا میں سن 2017 اکتوبر میں منظور کیا گیا۔ اس قانون کی رُو سے عوامی مقامات میں چہرے کو واضح طور پر نظر آنا چاہیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
پردے پر پابندی بلغاریہ میں بھی لیکن استثنا کے ساتھ
ہالینڈ کی طرح بلغاریہ نے بھی چہرہ چھپانے پر پابندی سن 2016 میں عائد کی تھی۔ خلاف ورزی کرنے والی خاتون کو ساڑھے سات سو یورو تک کا جرمانہ بھرنا پڑ سکتا ہے۔ تاہم عبادت گاہوں، کھیل کے مقامات اور دفاتر میں اس پابندی سے استثنا حاصل ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Sabawoon
ڈنمارک بھی
ڈنمارک میں چہرہ چھپانے اور برقعے پر پابندی یکم اگست سن 2018 سے نافذالعمل ہوئی۔ گزشتہ برس مئی میں ڈینش پارلیمان نے اس قانون کو اکثریت سے منظور کیا تھا۔ اس قانونی مسودے کی منظوری کے بعد ڈینش حکومت کی طرف سے کہا گیا تھا کہ اس پابندی کا ہدف کوئی مذہب نہیں ہے۔
تصویر: Grips Theater/David Balzer
شمالی افریقی ملک مراکش میں پابندی
مراکش نے2017 میں برقع یا چہرے کو مکمل طور پر ڈھانپنے والے ملبوسات کی پروڈکشن پر پابندی عائد کی تھی۔ اس مسلم اکثریتی ملک میں بھی اس پابندی کی وجہ سکیورٹی تحفظات بتائے گئے تھے۔ تب حکومت کا کہنا تھا کہ ڈاکو اپنی مجرمانہ کارروائیوں کے لیے پردے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ اس لباس پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی لیکن حکومت کی طرف سے اس کی تصدیق نہیں کی گئی تھی۔
تصویر: picture alliance/blickwinkel/W. G. Allgoewer
چاڈ میں برقع پر پابندی
افریقی ملک چاڈ میں جون سن دو ہزار پندرہ میں ہوئے دوہرے خود کش حملوں کے بعد مکمل چہرے کے پردے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ تب حکومت نے کہا تھا کہ شدت پسند تنظیم بوکو حرام کے جنگجوؤں نے ان حملوں کو کامیاب بنانے کے لیے پردے کو بہانہ بنایا تھا۔ اس ملک کی پچاس فیصد سے زائد آبادی مسلمان ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
تیونس میں سکیورٹی تحفظات
تیونس میں جون سن دو ہزار انیس میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کے بعد ملکی صدر نے چہرے کو مکمل طور پر ڈھاانپنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس مسلم ملک میں اس پابندی کی وجہ سکیورٹی تحفظات بنے تھے۔
تصویر: Taieb Kadri
تاجکستان، کچھ چھپانے کی ضرورت نہیں
وسطی ایشیائی ملک تاجکستان میں ستمبر سن دو ہزار سترہ میں پہلے سے موجود ایک قانون میں ترمیم کے ذریعے مقامی ملبوسات کو فروغ دینے پر زور دیا گیا تھا۔ اس مسلم اکثریتی ملک میں اس قانون کے تحت چہرے کا مکمل پردہ یا برقع ممنوع قرار دے دیا گیا تھا۔ تاہم اس قانون کی خلاف ورزی پر کوئی سزا یا جرمانہ نہیں رکھا گیا تھا۔