1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مسلم دنیا میں پھوٹ پڑ سکتی ہے، ایردوآن کا انتباہ

عاطف بلوچ9 اپریل 2015

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے خبردار کیا ہے کہ علاقائی سطح پر جاری شیعہ اور سنیوں کے مابین موجودہ تنازعہ تمام مسلم دنیا میں انتشار کا باعث بن سکتا ہے۔ انہوں نے اس تنازعے کے فوری حل پر زور دیا ہے۔

تصویر: picture-alliance/AP Photo/Turkish Presidential Press Service

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے انقرہ سے موصولہ اطلاعات کے حوالے سے بتایا ہے کہ ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے ایران کا دورہ مکمل کرنے کے بعد ترکی پہنچنے پر صحافیوں کو بتایا، ’’اس مخصوص وقت میں مسلم دنیا کو ایک انتشاری کیفیت کا سامنا ہو سکتا ہے۔‘‘ مسلم دنیا میں ایک نمایاں رہنما کے طور پر ابھرنے والے ایردوآن نے مزید کہا کہ وہ اس کشیدگی کے خاتمے کے لیے مسلم دنیا کے مختلف رہنماؤں سے ملاقاتیں کریں گے۔

سنی فرقے سے تعلق رکھنے والے ترک صدر نے مشرق وسطیٰ کے تازہ تنازعات پر تبصرہ کرتے ہوئے مزید کہا، ’’اسلامی دنیا میں انتشاری کیفیت کو روکنے کے لیے فوری طور پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔‘‘ مسلم دنیا سے مخاطب ہوتے ہوئے ایردوآن نے زور دیا کہ بطور مسلمان مختلف نظریات رکھے جا سکتے ہیں لیکن کوئی ایک نظریہ کسی دوسرے پر مسلط کرنے کوشش کی گئی تو مسلم اُمہ میں پھوٹ پڑ جائے گی۔

ترک صدر ایردوآن نے اپنے دورہ ایران کے دوران اپنے ایرانی ہم منصب حسن روحانی سے بھی ملاقات کیتصویر: Atta Kenare/AFP/Getty Images

ایردوآن کا یہ بھی کہنا تھا کہ مسلمانوں کی تنظیم او آئی سی کے علاوہ دیگر بین الاقوامی اداروں کو ثابت کرنا ہو گا کہ وہ عراق، مصر، لیبیا، شام اور یمن جیسے ممالک میں تشدد کے خاتمے کے لیے پرعزم ہیں۔ انہوں نے ان مسائل کے خاتمے کی کوشش کا عہد ظاہر کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ وہ ایشیائی مسلم طاقتوں مثال کے طور پر انڈونیشیا اور ملائیشیا کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس مقصد کے لیے سعودی عرب کا ایک اور دورہ بھی کریں گے۔

ترک صدر نے اپنے دورہ ایران کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ تہران میں اپنے قیام کے دوران انہوں نے ایرانی صدر حسن روحانی اور سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے ساتھ ملاقاتوں میں یمن سمیت دیگر علاقائی مسائل پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ ایردوآن کا کہنا تھا، ’’یمن کے مختلف گروپوں کو مل کر ایک ممکنہ حل کے لیے کوشش کرنا چاہیے جبکہ سعودی عرب، ترکی اور ایران کو یمن کے بحران کے سفارتی حل کی کوششوں میں شامل ہونا چاہیے۔

یہ امر اہم ہے کہ ترک حکومت نے سعودی عرب کی طرف سے یمن میں فعال ایران نواز شیعہ حوثی باغیوں کے خلاف عسکری کارروائی کی کھل کر حمایت کی تھی۔ اس وجہ سے ایران اور ترکی کے تعلقات میں کشیدگی کا اندیشہ بھی ظاہر کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک سمیت مصر بھی ایران پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ حوثی باغیوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ تاہم تہران حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں