مسلم ریاست میں ’مذہب کے ذریعے سیاسی کرپشن‘: علماء بلبلا اٹھے
11 مارچ 2019
شمالی افریقی ملک الجزائر میں بہت سے مسلم علماء اس بات پر بلبلا اٹھے ہیں کہ موجودہ حکومت اپریل میں ہونے والے آئندہ صدارتی الیکشن میں نئے سرے سے اپنی کامیابی کے لیے ’مذہب کو کرپشن‘ کے لیے استعمال کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔
اشتہار
شمالی افریقہ کی ریاست الجزائر کے دارالحکومت سے پیر گیارہ مارچ کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق اس مسلم اکثریتی ملک میں سیاسی طور پر غیر جانبدار علماء اور مساجد کے آئمہ کے گروپ نے ملک کے مذہبی امور کے وزیر سے ایک ملاقات کی ہے۔
اس ملاقات میں ان علماء نے وزیر مذہبی امور کو بتایا کہ حکومت انہیں مجبور کر رہی ہے کہ وہ اپنے خطبات میں حکومت کے حق میں بیانات دیں۔ ان علماء کے گروپ کے سربراہ جمیل غول نے روئٹرز کو بتایا، ’’ہم نے اس ملاقات میں ملکی وزیر سے کہا کہ ہم پر بےجا دباؤ ڈالنے کا سلسلہ بند کیا جائے اور ہمیں کسی بھی قسم کی سیاسی مداخلت کے بغیر اپنا کام کرنے دیا جائے۔‘‘
ہزار سے زائد ججوں کا بھی انکار
قبل ازیں الجزائر کے ایک ہزار سے زائد ججوں نے بھی یہ کہہ دیا تھا کہ اگر موجودہ صدر عبدالعزیز بوتفلیقہ نے اگلے ماہ ہونے والے صدارتی الیکشن میں بطور امیدوار حصہ لیا، تو وہ اس صدارتی انتخابی عمل کی نگرانی نہیں کریں گے۔ یہ بات ان ججوں نے پیر کو جاری کردہ اپنے ایک متفقہ تحریری بیان میں کہی۔ ان ججوں نے اب ملکی سطح پر اپنی ایک نئی تنظیم بھی بنا لی ہے۔
ان ججوں کے اس بیان پر ملکی وزیر انصاف نے نہ صرف ملکی عدلیہ کے ان ارکان کے موقف کی مخالفت کی بلکہ ان سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ ملک میں آئندہ صدارتی انتخابی عمل کے حوالے سے پوری طرح غیر جانبدار رہیں۔ صدر بوتفلیقہ کی ایک بار پھر انتخابی امیدواری کے مخالف ان ججوں نے اپنی جو نئی ملکی تنظیم قائم کی ہے، اس کا نام ’’انصاف کے تحفے کی بحالی‘‘ رکھا گیا ہے۔
بیس سال سے برسراقتدار بوتفلیقہ
صدر بوتفلیقہ کافی بیمار ہیں اور وہ سوئٹزرلینڈ میں اپنی سرجری کے بعد ابھی کل اتوار دس مارچ کو ہی واپس وطن لوٹے تھے۔ اپنی وطن واپسی سے قبل انہوں نے یہ اعلان بھی کر دیا تھا کہ وہ اپریل میں ہونے والے صدارتی الیکشن میں حصہ لیں گے اور کامیابی کی صورت میں اپنے عہدے کی آئینی مدت پوری کرنے کے بجائے قبل از وقت ہی یہ عہدہ چھوڑ دیں گے۔
اس وقت عبدالعزیز بوتفلیقہ کی عمر 82 برس ہے اور وہ گزشتہ 20 برسوں سے اقتدار میں ہیں۔ بوتفلیقہ نے الجزائر میں ایسا دور بھی دیکھا ہے جب وہ اس ملک کے گزشتہ تیس برسوں کے دوران سب سے طاقت ور صدر تصور کیے جاتے تھے۔ اب لیکن انہیں بہت مشکل حالات کا سامنا ہے اور ان کی نئے سرے سے انتخابی امیدواری کے خلاف ملک بھر میں عوامی مظاہرے اب اپنے تیسرے ہفتے میں داخل ہو چکے ہیں۔
م م / ا ا / روئٹرز
جدید دور میں طویل عرصے تک اقتدار پر براجمان رہنے والے حکمران
کئی ملکوں پر طویل عرصہ حکمران رہنے والوں میں فیڈل کاسترو، چیانگ کائی شیک اور کم اِل سُنگ کے نام اہم ہیں۔ یہ 40 برسوں سے زائد عرصے اپنے ملکوں پر حکومت کرتے رہے۔ معمر اقذافی بھی لیبیا پر 40 برس سے زائد حکومت کرتے رہے تھے۔
تصویر: AP
کیمرون: پال بیا
افریقی ملک کیمرون پر صدر پال بیا گزشتہ پینتیس برس سے منصبِ صدارت سنبھالے ہوئے ہیں۔ وہ سن 1975 سے ان 1982ء تک ملک کے وزیراعظم بھی رہ چکے ہیں۔ وہ پچاسی برس کے ہیں۔ رابرٹ موگابے کے بعد اب وہ سب صحارہ خطے کے سب سے بزرگ صدر ہیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/E. Blondet
کانگو: ڈینیس ساسو
ایک اور افریقی ملک کانگو کے صدر ڈینیس ساسو کی مدت صدارت چونتیس سال بنتی ہے۔ پہلے وہ سن 1979 سے 1992 تک صدر رہے اور پھر سن 1997 سے منصبِ صدارت سنبھالے ہوئے ہیں۔ ساسو 1992 کا صدارتی الیکشن ہار گئے تھے لیکن بعد میں کانگو کی دوسری خانہ جنگی کے دوران اُن کے حامی مسلح دستوں نے اُس وقت کے صدر پاسکل لیسُوبو کو فارغ کر دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP
کمبوڈیا: ہُن سین
مشرق بعید کے ملک کمبوڈیا میں منصبِ وزارت عظمیٰ پر ہُن سین پچھلے بتیس برسوں سے براجمان ہیں۔ وہ اِس وقت کسی بھی ملک کے سب سے طویل عرصے سے وزیراعظم چلے آ رہے ہیں۔ اُن کا اصلی نام ہُن بنال تھا لیکن انہوں نے کھیمر روژ میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے نام تبدیل کر کے ہُن سین کر لیا تھا۔ وہ سن 1985 میں کمبوڈیا کے وزیراعظم بنے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M, Remissa
یوگینڈا: یوویری موسیوینی
یوگینڈا کے صدر یوویری موسیوینی نے منصب سن 1986 میں سنبھالا تھا۔ وہ دو سابقہ صدور عیدی امین اور ملٹن اوبوٹے کے خلاف ہونے والی بغاوت کا حصہ بھی تصور کیے جاتے ہیں۔ یہ عام تاثر ہے کہ موسیوینی کے دور میں یوگینڈا کو اقتصادی ترقی سیاسی استحکام ضرور حاصل ہوا لیکن ہمسایہ ملکوں کے مسلح تنازعات میں ملوث ہونے کے الزام کا بھی سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/J. Akena
ایران: آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای
ایران میں اقتدار کا سرچشمہ سپریم لیڈر آیت اللہ العظمیٰ سید علی حسینی خامنہ ای کو تصور کیا جاتا ہے۔ وہ گزشتہ انتیس برسوں سے اس منصب کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ ایران کے اسلامی انقلاب کے بانی آیت اللہ روح اللہ خمینی نے اپنا جانشین منتخب کیا تھا۔ وہ سن 1981سے 1989 تک ایران کے صدر بھی رہے تھے۔
تصویر: khamenei.ir
سوڈان: عمر البشیر
سوڈانی صدر عمر حسن البشیر تیس جون سن 1989 سے اپنے ملک کے صدر ہیں۔ وہ اپنے ملک کی فوج میں بریگیڈیر بھی تھے اور تب انہوں نے ایک فوجی بغاوت کے ذریعے جمہوری طور پر منتخب وزیراعظم صادق المہدی کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ حاصل کیا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Abdallah
چاڈ: ادریس دیبی
وسطی افریقی ملک چاڈ کے صدر ادریس دیبی نے سن 1990 میں صدر حسین ہابرے کی حکومت کو ختم کرتے ہوئے اقتدار سنبھالا تھا۔ یہ امر اہم ہے کہ وہ لیبیا کے ڈکٹیٹر معمر اقذافی کے عالمی انقلابی مرکز میں تربیت حاصل کرتے رہے ہیں۔ وہ گزشتہ پانچ صدارتی انتخابات میں بھاری ووٹوں سے کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔ ان انتخابات کی شفافیت پر ملکی اپوزیشن اور عالمی مبصرین انگلیاں اٹھاتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Marin
قزاقستان: نور سلطان نذربائیف
وسطی ایشیائی ملک قزاقستان کے صدر نور سلطان نذر بائیف اٹھائیس برس سے ملکی صدر چلے آ رہے ہیں۔ قزاقستان سابقہ سویت یونین کی ایک جمہوریہ تھی اور اس کے انہدام پر ہی یہ آزاد ہوئی تھی۔ نور سلطان اُس آزادی کے بعد سے منصب صدارت سنبھالے ہوئے ہیں۔ قزاقستان کی آزادی سے قبل وہ قازق کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ بھی تھے۔
تصویر: picture alliance/Sputnik/S. Guneev
تاجکستان: امام علی رحمان
ایک اور وسطی ایشیائی ریاست تاجکستان پر بھی امام علی رحمان سن 1992 سے حکومت کر رہے ہیں۔ تاجکستان بھی سابقہ سوویت یونین کی جمہوریہ تھی۔ امام علی رحمان کو اپنی پچیس سالہ صدارت کے ابتدائی عرصے میں شدید خانہ جنگی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اس میں تقریباً ایک لاکھ انسان ہلاک ہوئے تھے۔ تاجکستان کو وسطی ایشیا کا ایک غریب ملک تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/G. Faskhutdinov
اریٹیریا: ایسائیس افویرکی
ایسائیس افویرکی اپنے ملک کی آزادی سے منصب صدارت سنبھالے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے ملک کی آزادی کے لیے ایتھوپیا کی حکومت کے خلاف برسوں آزادی کی تحریک جاری رکھی۔ اریٹیریا کو مئی سن 1991 میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہونے والے ریفرنڈم کے نتیجے میں آزادی حاصل ہوئی تھی۔