سابق نائب صدر حامد انصاری نے اپنی آپ بیتی کو صرف اپنی ذات تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ سن 2014 میں نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اس ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کا آنکھوں دیکھا حال بھی ضبط تحریر کیا ہے۔
اشتہار
بھارت میں ویسے تو نائب صدر کو دستوری اعتبار سے عاملہ (ایگزیکیٹو) کے کوئی اختیارات حاصل نہیں مگر پارلیمان کے ایوان بالا یا راجیہ سبھا کی کارروائی کی صدارت کرنے کی وجہ سے نائب صدر کا کردار خاصا اہم ہو جاتا ہے۔
محمد حامد انصاری دس سال تک ملک کے نائب صدر رہے تاہم وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ان کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہی رہے۔ تراسی سالہ انصاری کے بقول وہ رول بک (ضوابط) کی پیروی کرتے تھے جبکہ مودی اپنی عادت سے مجبور عجلت میں یا بلڈوز کر کے قوانین پاس کروانا چاہتے تھے۔ عجلت میں پاس کروائے قوانین کی سب سے بڑی مثال کسانوں سے متعلق حالیہ قوانین ہیں، جن کے خلاف بھارت میں ایک سیاسی طوفان سا بپا ہے۔
حامد انصاری بھارت کے 12ویں اور تیسرے مسلمان نائب صدر ہوئے۔ ان کی آپ بیتی بعنوان BY MANY A HAPPY ACCIDENT آج کل عوامی بحث کا بڑا موضوع بنی ہوئی۔
اس کتاب پر نہ صرف دائیں بازوں کے ہندو قوم پرست عناصر بلکہ حکومتی حلقے بھی خفا ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس وقت بھارت میں فرقہ واریت سے آلودہ جو سیاسی ماحول ہے اور جس طرح دائیں بازو کے ہندو قوم پرست عناصر اور تنظیمیں مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنا رہی ہیں، اسے دیکھتے ہوئے ایک سابق مسلمان نائب کو ہدف تنقید کا نشانہ بنایا جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔
دہلی کے فسادات میں بچ جانے والے افراد اب بھی خوف زدہ
بھارتی دارالحکومت میں رواں برس فروری میں پُرتشدد ہندو مسلم فسادات ہوئے تھے۔ اِن فسادات میں انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کی املاک کو بھی شدید نقصان پہنچایا گیا تھا۔
تصویر: DW/S. Ghosh
عارضی سکون
نئی دہلی کے ایک مقام عیدگاہ میں انتظامیہ نے ایک بڑا عارضی کیمپ قائم کر رکھا ہے۔ اِسی کیمپ میں کھلے آسمان تلے ایک مسجد بھی بنائی گئی ہے۔ ایسا اِمکان ہے کہ بے گھر ہونے والے افراد رواں برس عید الفطر کی نماز بھی یہیں ادا کریں گے۔ اِس کیمپ میں قریب ایک ہزار لوگ عارضی پناہ گاہوں میں ہیں۔
تصویر: DW/A. Ansari
زخم ابھی تازہ ہیں
ایسا نہیں لگتا کہ فسادات میں جانی و مالی نقصان برداشت کرنے والے افراد اپنے غم کو بھول پائیں گے۔ کیمپوں میں رہنے والے اِنسانوں کو خوف کی صورتِ حال اور اپنے دُکھ درد سے نجات بہت ہی مشکل دکھائی دیتا ہے۔ دہلی پولیس کے مطابق فسادات میں ترپن افراد ہلاک ہِوئے تھے، جن میں بیشتر مسلمان تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Hussain
خواتین کی سلامتی کا معاملہ
عید گاہ کا کیمپ دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک حصے میں مرد اور دوسرے حصے میں خواتین کو ٹھہرایا گیا ہے۔ اِس تقسیم کی وجہ خواتین کا تحفظ ہے۔ کیمپ کے مکینوں کا کہنا ہے کہ وہ فسادات کے صدمے سے شاید ہی نہیں نکل سکیں گے۔
تصویر: DW/S. Ghosh
بچے مختلف مستقبل کو دیکھتے ہوئے
فسادات کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے بچے شدید خوف کی حالت میں ہیں۔ اِن فسادات کے دوران کئی اسکولوں کو بھی آگ لگائی گئی تھی۔ کیمپ میں بعض بچے اپنی پڑھائی جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن اُن کے ذہن خوف کی لپیٹ میں ہیں۔
تصویر: DW/A. Ansari
اِمدادی عمل جاری
کیمپ میں مقیم افراد کو انتظامی اِداروں اور غیر حکومتی تنظیموں کی جانب سے قانونی اور مختلف معاملات بشمول صحت کی اِمداد فراہم کی جا رہی ہے۔ ڈاکٹرز اور نرسیں کیمپ کے مکینوں کی عمومی صحت چیک اپ کرنے کے علاوہ اُنہیں ادویات بھی فراہم کرنے کا سِلسِلہ جاری رکھے ہُوئے ہیں۔
تصویر: DW/A. Ansari
اُمید ابھی زندہ ہے
تمام تر جسمانی تکالیف اور ذہنی صدمات کے باوجود کیمپ کے رہائشی یہ امید رکھتے ہیں کہ اچھ دن لوٹیں گے۔ وہ پھر سے اپنے پرانے علاقوں میں واپس جا کر دوست احباب کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کر سکیں گے۔
تصویر: DW/S. Ghosh
6 تصاویر1 | 6
انصاری نے اس کتاب میں بالخصوص مذہبی اقلیتوں پر بڑھتے ہوئے ظلم و زیادتی کے واقعات، گروہی تشدد، عدم سلامتی کا احساس، سیکولرزم کا زوال اور ریاست جموں و کشمیر کی نیم خود مختاری غیر جمہوری طریقے سے ختم کرنے کے علاوہ اپنے دور اقتدار کے آخری تین سال کے تلخ تجربات بھی قلمبند کیے ہیں۔
انصاری نے بطور خاص اس بات کا تذکرہ کیا کہ ایک دن اچانک وزیراعظم نریندرمودی ایوان بالا میں واقع ان کے دفتر میں تشریف لائے۔ عموماً ایسا نہیں ہوتا کہ وزیراعظم پہلے سے طے شدہ پروگرام کے بغیر ہی ملنے آ جائیں۔ وزیراعظم گویا ہوئے کہ 'آپ سے بڑی ذمہ داریوں کی توقعات ہیں۔ تاہم آپ میری مدد نہیں کر رہے ہیں‘۔
انصاری لکھتے ہیں کہ ان کا جواب تھا کہ 'میں نے کہا کہ راجیہ سبھا میں اور اس کے باہر میرے طرز عمل سے سبھی لوگ واقف ہیں‘۔ مودی نے پوچھا کہ 'شوروغل میں بل کیوں پاس نہیں کیے جا رہے ہیں؟" اس کے جواب میں انصاری نے کہا، 'میں نے جواب دیا کہ یو پی اے کے دور حکومت میں ایوان میں حزب اختلاف کے قائد لیڈر آپ کے ہم جماعت (ارون جیٹلی) نے اس اصول پر اتفاق کیا تھا کہ کوئی بھی بل غوغا آرائی میں پاس نہیں کرایا جائے گا اور منظوری کے لیے پارلیمانی ضابطہ کی کارروائی کے تحت ہو گی‘۔
دراصل مودی حکومت کو اپنی پہلی میعاد کے دوران ایوان بالا میں اکثریت حاصل نہیں تھی، جہاں منظوری کے بغیر کوئی بل قانونی شکل اختیار نہیں کرسکتا۔
انصاری کے بقول وزیراعظم نے یہ شکوہ بھی کیا تھا کہ راجیہ سبھا کا ٹی وی چینل ان کی حکومت کی حمایت نہیں کر رہا ہے۔ دراصل بھارت میں بیشتر نیوز چینل مبینہ طور پر حکومت کے ہمنوا بنے ہوئے ہیں اور مودی اس چینل کو بھی اس رخ پر ڈالنا چاہتے تھے۔ انصاری کی اس کتاب میں انہوں نے مودی سے اپنے تبادلہ خیالات کے متعدد مواقع کا تذکرہ کیا ہے۔
شیو سینا کی انتہا پسندی کا نشانہ بننے والے پاکستانی
ہندو انتہا پسند تنظیم شیو سینا نہ صرف بھارتی مسلمانوں کو گائے کا گوشت کھانے کے حوالے سے تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے بلکہ وہ اپنا غصہ پاکستانی فن کاروں اور کھلاڑیوں پر بھی نکال رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Solanki
غلام علی کا کنسرٹ
معروف غزل گائک غلام علی کو اکتوبر کے پہلے ہفتے میں بھارتی گلوکار جگجیت سنگھ کی چوتھی برسی کے موقع پر ممبئی میں ایک محفل موسیقی میں شرکت کرنا تھی۔ شیو سینا کے کارکنوں نے کنسرٹ کے منتظمین کو دھمکی دی کہ یہ پروگرام نہیں ہونا چاہیے۔ مجبوراً منتظمین کو یہ کنسرٹ منسوخ کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/G. Singh
خورشید قصوری کی کتاب کا اجراء
سابق پاکستانی وزیر خارجہ خورشید قصوری کی کتاب کی رونمائی بھی شیو سینا کے غصے کا نشانہ بنی، تاہم اسے منسوخ نہیں کیا گیا۔ بھارت کی اس دائیں بازو کی ہندو قوم پسند تنظیم، جو کہ ریاست مہارشٹر میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حلیف بھی ہے، نے کتاب کے ناشر کے چہرے پر سیاہی پھینک کر یہ بتانے کی کوشش کی کہ بھارت میں پاکستانیوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Solanki
ڈار پر وار
بین الاقوامی کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے شیو سینا کے حالیہ مظاہرے کے بعد اعلان کیا کہ بھارت اور جنوبی افریقہ کے درمیان کرکٹ سیریز میں امپائرنگ کرنے والے پاکستانی امپائر علیم ڈار سیریز میں مزید امپائرنگ نہیں کریں گے۔ علیم ڈار نے سیریز کے پہلے تین میچوں میں امپائرنگ کی تھی جب کہ پروگرام کے مطابق انہیں بقیہ دونوں میچوں میں بھی امپائرنگ کرنا تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Khan
بھارتیوں کے پسندیدہ پاکستانی کرکٹر وسیم اکرم
کٹر نظریات کی حامل ہندو قوم پرست سیاسی جماعت شیو سینا کی طرف سے دھمکیوں اور ممبئی میں واقع بھارتی کرکٹ کنٹرول بورڈ (بی سی سی آئی) کے صدر دفتر پر دھاوا بول دینے کے بعد بھارت میں پاکستانیوں کے لیے سکیورٹی خدشات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ وسیم اکرم کو بھارت اور جنوبی افریقہ کے مابین پوری سیریز کے لیے کمنٹری کے فرائض انجام دینا تھے، تاہم وہ اب پاکستان واپس لوٹ جائیں گے۔
تصویر: AP
شعیب اختر بھی
وسیم اکرم کے ساتھ شعیب اختر کو بھی سیریز کے لیے ممبئی میں کمنٹری کرنا تھی۔ راولپنڈی ایکسپریس کہلائے جانے والے اس سابق پاکستانی فاسٹ بولر کا بھی اب ممبئی میں ٹھہرنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔
تصویر: AP
کرکٹ ڈپلومیسی انتہا پسندی کا شکار
پاکستان اور بھارت کے کرکٹ بورڈز نے گزشتہ برس ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس کے تحت دونوں ممالک کو اگلے آٹھ برسوں میں چھ سیریز کھیلنا ہیں۔ تاہم جب پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان بھارتی کرکٹ بورڈ کے سیکرٹری انوراگ ٹھاکر اور آئی سی سی کے صدر شری نواسن سے ملاقات کے لیے بھارت گئے تو شیو سینا کے کارکنوں نے بھارتی کرکٹ بورڈ کے دفتر پر حملہ کر دیا۔
تصویر: Arif Ali/AFP/Getty Images
ماہرہ خان اور فواد خان جیسے فنکار بھی
پاکستانی اداکار فواد خان (تصویر میں ان کے ساتھ بھارتی اداکارہ سونم کپور کھڑی ہیں) گزشتہ برس فلم ’خوب صورت‘ کے ذریعے بالی وڈ میں جلوہ گر ہوئے تھے۔ پاکستانی اداکارہ ماہرہ خان فلم ’رئیس‘ میں معروف بھارتی اداکار شاہ رخ خان کے ساتھ جلوہ افروز ہو رہی ہیں۔ یہ فلم اگلے برس عید کے موقع پر ریلیز کی جائے گی۔ شیو سینا نے دھمکی دی ہے کہ وہ مہاراشٹر میں ماہرہ اور فواد کی فلموں کو ریلیز نہیں ہونے دے گی۔
تصویر: STRDEL/AFP/Getty Images
7 تصاویر1 | 7
بھارت میں بڑھتی ہوئی ہندو قوم پرستی پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ سن 2019 میں ہوئے عام انتخابات میں عوامیت پسندی، قوم پرستی اور اکثریت میں ہونے کے زعم نے اہم کردار ادا کیا۔
سابق نائب صدر نے بھارت کے زیر انتظام ریاست جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ اور اس کی نیم خود مختاری ختم کرنے کے اقدام کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ وہ رقم طراز ہوتے ہیں کہ ” چالاکی اور عیاری سے حربے اختیار کرنے سے کسی حکومت کی ساکھ میں اضافہ نہیں ہوتا، بے شک وہ قانون کی حکمرانی اور جمہوری اقدار اور اصولوں پر چلنے کا دعوی کرتی ہو۔
انصاری کو سن 2007 میں نائب صدر کے عہدہ کے لیے منتخب کیا گیا تھا اور سن 2012 میں وہ دوبارہ اس منصب پر فائز ہوئے تھے۔ اس سے پہلے وہ قومی اقلیتی کمیشن کے چئیرمین رہے۔ اس سے قبل وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے، جہاں سے انہوں نے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انڈین فارین سروس کا امتحان پاس کیا تھا۔ وہ 25 سال تک مختلف ملکوں میں بھارت کے سفیر رہے اور اقوام متحدہ میں مستقل مندوب۔
میرا مشاہدہ ہے کہ بھارت میں جو مسلمان بڑے منصبوں پر فائز ہوتے ہیں وہ اکثر جرات سے کام نہیں لیتے ہیں اور تنقیدی رویے سے اجتناب کرتے ہیں۔ ایسی شخصیات کو مسلم حلقوں میں 'سرکاری مسلمان‘ کہا جاتا ہے۔ تاہم انصاری نے ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے احساسات اور خیالات کو بے لاگ بیان کیا ہے۔