مسلم لیگ ن اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک بار پھر ڈیل کی خبریں
عبدالستار، اسلام آباد
28 مارچ 2018
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی ملاقات نے ایک بار پھر ملک کے سیاسی ماحول کو گرما دیا ہے۔ اس ملاقات سے ملک میں افواہوں اور تبصروں کا ایک طوفان کھڑا ہوگیا ہے۔
اشتہار
قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ نے بھی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی ملاقات کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ جب کہ تحریک انصاف کی طرف سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ کوئی نیا ’این آر او‘ ہونے جارہا ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری نے آج ایک پریس کانفرنس میں خبر دار کیا کہ ایسے کسی بھی ’این آر او‘ کی بھر پور مخالفت کی جائے گی۔
پاکستان کے صحافتی حلقوں میں بھی یہ بات پر زور انداز میں چل رہی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز میں شہباز شریف کے حامی ریاستی اداروں اور اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کرنے کے حامی ہیں۔ لیکن نواز شریف نے آج بروز بدھ اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے ایک بار پھر عدلیہ کو ہدفِ تنقید بنایا۔ اسلام آباد میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے نواز شریف نے الزام لگایا کہ چیف جسٹس نے یہ جو اسپتالوں کے دورے شروع کیے ہیں اس کا ہدف بھی شریف فیملی کا نجی میڈیکل کالج تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس کو ان لاکھوں مقدمات کے حوالے سے بھی کام کرنا چاہیے جو عدالتوں میں التواء کا شکار ہیں۔
ان تمام تر بیانات کے باوجود سیاست دانوں اور تجزیہ نگاروں کے خیال میں ن لیگ اور اسٹیبلشمنٹ میں کوئی سودے بازی ہونے جارہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر مملکت برائے پیداوار آیت اللہ درانی کے خیال میں ایسی کسی ڈیل کے نتیجے میں سپر یم کورٹ کی ساکھ بری طرح متاثر ہوگی، ’’یہ بتایا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور عباسی کے درمیان ملاقات صحت، پانی اور تعلیم جیسے مسائل پر ہوئی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تینوں موضوعات تو اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاق کے پاس ہیں ہی نہیں، تو کیا شاہد خاقان عباسی وزیر اعلٰی سندھ مراد علی شاہ، خیبر پختونخواہ چیف منسٹر پرویز خٹک اور بلوچستان کے وزیر اعلٰی قدوس بزنجو کی طرف سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پاکستان سے ملے ہیں۔ یہ ایسی بات ہے کہ جس پر ملک میں کوئی بھی یقین کرنے کو تیار نہیں۔ اس ملاقات کی وجہ سے سپریم کورٹ کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔‘‘
نواز شریف: تین مرتبہ پاکستان کا ’ادھورا وزیراعظم‘
پچیس دسمبر 1949 کو پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔ نواز شریف تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے، لیکن تینوں مرتبہ اپنے عہدے کی مدت مکمل نہ کر سکے۔
تصویر: Reuters
سیاست کا آغاز
لاھور کے ایک کاروباری گھرانے میں پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز سن ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔
تصویر: AP
پنجاب کا اقتدار
جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف سن 1985 میں پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔
تصویر: AP
وفاقی سطح پر سیاست کا آغاز
سن 1988 میں پاکستان پیپلز پارٹی وفاق میں اقتدار میں آئی اور بینظیر بھٹو ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔ اس وقت نواز شریف پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تاہم اسی دور میں وہ ملک کی وفاقی سیاست میں داخل ہوئے اور دو برس بعد اگلے ملکی انتخابات میں وہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار بنے۔
تصویر: AP
پہلی وزارت عظمیٰ
پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ کے طور پر میاں محمد نواز شریف سن 1990 میں پہلی مرتبہ ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ ان کے دور اقتدار میں ان کا خاندانی کاروبار بھی پھیلنا شروع ہوا جس کے باعث ان کے خلاف مبینہ کرپشن کے شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔
تصویر: AP
وزارت عظمیٰ سے معزولی
سن 1993 میں اس وقت کے وفاقی صدر غلام اسحاق خان نے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے معزول کر دیا۔ نواز شریف نے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ کا رخ کیا۔ عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے نواز شریف کی حکومت بحال کر دی تاہم ملک کی طاقتور فوج کے دباؤ کے باعث نواز شریف نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: AP
دوسری بار وزیر اعظم
میاں محمد نواز شریف کی سیاسی جماعت سن 1997 کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی جس کے بعد وہ دوسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئے۔
تصویر: AP
فوجی بغاوت اور پھر سے اقتدار کا خاتمہ
نواز شریف دوسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ حکومت اور ملکی فوج کے مابین تعلقات کشیدگی کا شکار رہے اور فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ہٹانے کے اعلان کے بعد فوج نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔
تصویر: AP
جلا وطنی اور پھر وطن واپسی
جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف کے خلاف طیارہ ہائی جیک کرنے اور دہشت گردی کے مقدمات درج کیے گئے اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ تاہم بعد ازاں انہیں جلاوطن کر دیا گیا۔ جلاوطنی کے دور ہی میں نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے ’میثاق جمہوریت‘ پر دستخط کیے۔ سن 2007 میں سعودی شاہی خاندان کے تعاون سے نواز شریف کی وطن واپسی ممکن ہوئی۔
تصویر: AP
تیسری مرتبہ وزیر اعظم
سن 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون ایک مرتبہ پھر عام انتخابات میں کامیاب ہوئی اور نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد انہیں مسلسل پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پھر ’ادھوری وزارت عظمیٰ‘
نواز شریف تیسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں ناکام ہوئے۔ سن 2016 میں پاناما پیپرز کے منظر عام پر آنے کے بعد ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوا اور آخرکار اٹھائی جولائی سن 2017 کو ملکی عدالت عظمیٰ نے انہیں نااہل قرار دے دیا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
10 تصاویر1 | 10
ایک سوال کے جواب میں درانی نے کہا، ’’اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف ڈیل کرنے کی کوشش کر رہے ہے لیکن اگر ایک مرتبہ پھر ڈیل کی گئی تو یہ سیاسی خود کشی ہوگی۔ کیونکہ ایک طرف تو وہ اپنے آپ کو نظریاتی کہتے ہیں اور دوسری طرف وہ اسٹیبلشمنٹ سے صلح کرنے کی بھی بات کر رہے ہیں۔ یہ متضاد پوزیشن ان کو سیاسی طور پر بہت نقصان پہنچائی گی۔‘‘
پاکستان میں کچھ سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس ڈیل پر شہباز شریف کا زیادہ زور ہے جب کہ نواز شریف کسی ڈیل کے موڈ میں نہیں ہیں لیکن کچھ سیاسی مبصر کہتے ہیں کہ نواز کی مرضی کے بغیر کوئی ڈیل نہیں ہو سکتی۔ معروف تجزیہ نگار ڈاکڑ خالد جاوید جان نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یہ ممکن نہیں کہ نواز شریف کی مرضی کے بغیر ہی شہباز شریف کوئی ڈیل کر یں۔ شہباز شریف کو نظر آرہا ہے کہ اگر یہ تصادم کی پالیسی چلی تو پھر ان کے بڑے بھائی جیل میں ہوں گے۔ اس لیے ان کی خواہش ہے کہ ایسی صورتِ حال پیدا نہ ہو کہ نواز کو جیل جانا پڑے۔ لیکن اگر نواز نے ایسا کیا تو یہ سیاسی خودکشی ہوگی۔‘‘
تاہم پاکستان مسلم لیگ ن ڈیل کی ان خبروں کی تردید کرتی ہے۔ پارٹی کی رہنما عظمیٰ بخاری نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ہمارا دماغ خراب ہے کہ ہم ایک ایسے موقع پرجا کر ڈیل کر لیں جب پورے ملک میں ہمارے لیے ہمدردی کی لہر ہے اور ’مجھے کیوں نکالا‘ کا بیانیہ مقبولیت پا رہا ہے۔ میاں صاحب کی اس حوالے سے بہت واضح لائن ہے کہ اگر انہیں جیل بھی جانا پڑے تو وہ جائیں گے۔ پریشان وہ ہیں جو معلق پارلیمنٹ چاہتے ہیں لیکن انہیں نظر آرہا ہے کہ جب یہ باپ بیٹی میدان میں اتریں گے تو ان کا یہ خواب چکنا چور ہو جائے گا۔ ان کو نظر آرہا ہے کہ ن لیگ بھر پور انداز میں کامیاب ہونے جا رہی ہے۔ اسی لیے وہ اس طرح کی خبریں پھیلا رہے ہیں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں بخاری نے کہا، ’’وزیر اعظم اور چیف جسٹس کی ملاقات کا تعلق کسی ڈیل سے نہیں ہے۔ ہمیں پتہ ہے کہ ہماری راہ میں بہت سے رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہے۔ افسر شاہی کے افراد کو روزانہ نیب بلا کر ذلیل کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ان کو عدالتوں کے بھی چکر لگانے پڑتے ہیں، جس سے انتظامی اور مالی امور بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ الیکشن سر پر ہیں اگر ایسے موقع پر یہ صورتِ حا ل ہوگی تو حکومت کیسے عوام کے مسائل حل کر ے گی۔ تو محترم چیف جسٹس صاحب کو ان مسائل سے آگاہ کرنے کے لیے وزیر اعظم نے ان سے ملاقات کی۔‘‘
جوتا کس نے پھینکا؟
حالیہ کچھ عرصے میں کئی ملکوں کے سربراہان اور سیاستدانوں پر جوتا پھینکے جانے کے رجحان میں اضافہ ہوا۔ سب سے زیادہ شہرت سابق امریکی صدر بُش پر پھینکے گئے جوتے کو ملی اور تازہ شکار سابق پاکستانی وزیراعظم نواز شریف بنے۔
تصویر: AP
سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بُش
سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش پر جوتا اُن کے عراقی کے دورے کے دوران پھینکا گیا۔ یہ جوتا ایک صحافی منتظر الزیدی نے چودہ دسمبر سن 2008 کو پھینکا تھا۔
تصویر: AP
سابق چینی وزیراعظم وین جیا باؤ
دو فروری سن 2009 کو لندن میں سابق چینی وزیراعظم وین جیا باؤ پر ایک جرمن شہری مارٹن ژانکے نے جوتا پھینکا تھا۔ یہ جوتا جیا باؤ سے کچھ فاصلے پر جا کر گرا تھا۔
تصویر: Getty Images
سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد
ایرانی صوبے مغربی آذربائیجدان کے بڑے شہر ارومیہ میں قدامت پسند سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد پر جوتا پھینکا گیا تھا۔ یہ واقعہ چھ مارچ سن 2009 کو رونما ہوا تھا۔ احمدی نژاد کو سن 2006 میں تہران کی مشہور یونیورسٹی کے دورے پر بھی جوتے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
تصویر: fardanews
سابق بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ
چھبیس اپریل سن 2009 کو احمد آباد شہر میں انتخابی مہم کے دوران کانگریس پارٹی کے رہنما اور اُس وقت کے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ پر ایک نوجوان نے جوتا پھینکا، جو اُن سے چند قدم دور گرا۔
تصویر: Reuters/B. Mathur
سوڈانی صدر عمر البشیر
جنوری سن 2010 میں سوڈان کے دارالحکومت خرطوم کے ’فرینڈ شپ ہال‘ میں صدر عمر البشیر پر جوتا پھینکا گیا۔ سوڈانی صدر کا دفتر اس واقعے سے اب تک انکاری ہے، لیکن عینی شاہدوں کے مطابق یہ واقعہ درست ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA/E. Hamid
ترک صدر رجب طیب ایردوآن
ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن پر فروری سن 2010 میں ایک کرد نوجوان نے جوتا پھینک کر کردستان زندہ باد کا نعرہ لگایا تھا۔ یہ کرد شامی شہریت کا حامل تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA/O. Akkanat
سابق پاکستانی صدر آصف علی زرداری
پاکستان کے سابق صدرآصف علی زرداری کے برطانوی شہر برمنگھم کے دورے کے موقع پر ایک پچاس سالہ شخص سردار شمیم خان نے اپنے دونوں جوتے پھینکے تھے۔ یہ واقعہ سات اگست سن 2010 کا ہے۔
تصویر: Getty Images
سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر
چار ستمبر سن 2010 کو سابق برطانوی وزیر ٹونی بلیئر کو ڈبلن میں جوتوں اور انڈوں سے نشانہ بنایا گیا۔ ڈبلن میں وہ اپنی کتاب ’اے جرنی‘ کی تقریب رونمائی میں شریک تھے۔
تصویر: Imago/i Images/E. Franks
سابق آسٹریلوی وزیراعظم جون ہوارڈ
چار نومبر سن 2010 کو کیمبرج یونیورسٹی میں تقریر کے دوران سابق آسٹریلوی وزیراعظم جون ہوارڈ پر جوتا پھینکا گیا۔ جوتا پھینکنے والا آسٹریلیا کا ایک طالب علم تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سابق پاکستانی صدر پرویز مشرف
لندن میں ایک ہجوم سے خطاب کے دوران سابق فوجی صدر پرویز مشرف پر ایک پاکستانی نژاد برطانوی شہری نے جوتا پھینکا تھا۔ یہ واقعہ چھ فروری سن 2011 کو پیش آیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سابق تائیوانی صدر ما یِنگ جُو
تائیوان کے سابق صدر ما یِنگ جُو پر اُن کے خلاف مظاہرہ کرنے والے ہجوم میں سے کسی شخص نے جوتا آٹھ ستمبر سن 2013 کو پھینکا۔ تاہم وہ جوتے کا نشانہ بننے سے بال بال بچ گئے۔
تصویر: Reuters/E. Munoz
سابق پاکستانی وزیراعظم نواز شریف
پاکستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے نا اہل قرار دیے جانے والے سابق وزیراعظم نواز شریف کو گیارہ مارچ سن 2018 کو ایک مدرسے میں تقریر سے قبل جوتا مارا گیا۔ اس طرح وہ جوتے سے حملے کا نشانہ بننے والی تیسری اہم پاکستانی سیاسی شخصیت بن گئے۔