1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: شہباز اور زرداری کی ملاقات میں سیاسی تعاون پر اتفاق

12 فروری 2024

انتخابی نتائج کے بعد دونوں جماعتوں کی قیادت کے درمیان یہ پہلی ملاقات تھی، جس میں سیاسی تعاون جار رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔ ادھر پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ وہ ملک کی خاطر تمام جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔

Kombobild | Pakistanische Politiker von links nach rechts: Maryam Nawaz, Shehbaz Sharif, Imran Khan, Nawaz Sharif, Bilawal Bhutto Zardari und Asif Ali Zardari
انتخابی نتائج کے بعد پاکستان میں حکومت سازی کی کوششویں شروع ہوئی ہیں، جس میں سب سے پہلے نواز شریف کی جماعت پیپلز پارٹی کے پاس پہنچی

اتوار کی رات کو لاہور میں پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی قیادت کے درمیان ایک اہم ملاقات ہوئی، جس کے بعد دونوں جماعتوں کے رہنماوں نے اعلان کیا کہ عام انتخابات کے بعد کی صورتحال میں پاکستان کے استحکام کے لیے سیاسی تعاون کرنے پر اتفاق ہو گیا ہے۔

پی ٹی آئی کے کارکنوں کا احتجاج، پولیس کا لاٹھی چارج

پاکستان کے عام انتخابات کے نتائج کے بعد فریقین کے درمیان یہ پہلی اعلی سطحی میٹنگ تھی، جس میں دونوں جماعتوں کے سرکردہ رہنماؤں نے موجودہ سیاسی منظر نامے پر تبادلہ خیال کیا اور سیاسی مفاہمت پر بات ہونے کے ساتھ ہی آپسی تعاون کے لیے ایک راستہ طے کرنے پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔

مذہبی اور سیاسی انتہا پسندی ذہنی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ

لاہمذہبی اور سیاسی انتہا پسندی ذہنی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹور کے بلاول ہاؤس میں ہونے والی اس میٹنگ میں پیپلز پارٹی کے صدر آصف علی زرداری، پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیر اعظم محمد شہباز شریف سمیت دیگر اہم سیاسی شخصیات بھی موجود تھیں۔

کیا ’عوامی فیصلے‘ کے بعد عمران خان رہا ہو سکتے ہیں؟

میٹنگ میں کن باتوں پر مفاہمت ہوئی

ملاقات کے اختتام پر ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا، جس میں کہا گیا کہ خوشگوار ماحول میں ہونے والی اس ملاقات میں، ''ملکی مفاد اور بہبود کو ہر چیز پر مقدم رکھنے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔''

نئی حکومت اور معاشی چیلنجیز: 130 ارب ڈالر سے زیادہ کا قرضہ کیسے اُترے گا؟

اس میں مزید کہا گیا کہ دونوں جماعتوں کے قائدین نے موجودہ سیاسی منظر نامے اور ملک کی بہتری کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت کے حوالے سے ٹھوس بات چیت کی۔

پنجاب کا نوجوان ووٹر جس نے دھڑے اور برادری کی روایتی سیاست کو مسترد کر دیا

مشترکہ بیان کے مطابق اتفاق رائے کے جذبے کی عکاسی کرتے ہوئے، ''رہنماؤں نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان ایسے پائیدار سیاسی تعاون کے لیے ایک فریم ورک کے قیام کی اہمیت کو تسلیم کیا، جو قوم کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے میں ایک مضبوط اور زیادہ متحدہ اندازِ فکر کی بنیاد رکھ سکے۔''

پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ اس کی جماعت کا کسی سے کوئی جھگڑا نہیں ہے اور وہ سب کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہےتصویر: Abdul Majeed/AFP

بیان میں مزید کہا گیا کہ بات چیت کے اہم نکات میں پاکستان کی مجموعی صورتحال کا جائزہ، مستقبل کی سیاسی حکمت عملیوں پر غور و خوض نیز سبھی کے استحکام اور فروغ  کے لیے سفارشات کا تبادلہ شامل تھا۔

دونوں جماعتوں نے پاکستان کو ''سیاسی عدم استحکام سے نکال کر خوشحالی اور ابھرنے کی قوت کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ عوام کی اکثریت کی جانب سے عطا کردہ مینڈیٹ پر زور دیتے ہوئے، ''قائدین نے عوام کی امنگوں کو پورا کرنے اور ان کی آوازوں کو سننے اور ان پر غور کرنے کو یقینی بنانے کے لیے اپنے غیر متزلزل عزم پر زور دیا۔''

پیپلز پارٹی ن لیگ کی تجاویز پر غور کرے گی  

پیپلز پارٹی نے اس ملاقات کے حوالے سے اپنی ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا کہ مسلم لیگ ن کا جو وفد ان سے ملنے پہنچا تھا اس میں شہباز شریف کے علاوہ اعظم نذیر تارڑ، ایاز صادق، احسن اقبال، رانا تنویر، خواجہ سعد رفیق، ملک احمد خان، مریم اورنگزیب اور شزا فاطمہ شامل تھے۔

اس نے اپنی پوسٹ میں مزید کہا کہ پی پی کی قیادت نے ن لیگ کو جواب دیا ہے کہ ''حکومت سازی میں تعاون کے حوالے سے آپ کی پیش کش پر کل (پیر کے روز) سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں تبادلہ خیال ہو گا۔''

واضح رہے کہ نواز شریف نے نتائج آنے کے دوران ہی ایک سیاسی اتحاد بنانے کی بات کہی تھی اور اس کے لیے شہباز شریف اور اسحاق ڈار کی اہم شخصیات کو پیپلز پارٹی اور دیگر چھوٹے گروپوں سے رابط کرنے کے لیے نامزد کیا تھا۔

پی ٹی آئی کا موقف

اس دوران پاکستان تحریک انصاف کے قائد گوہر خان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہا ہے کہ ان کی جماعت کی کسی سے بھی کوئی لڑائی نہیں ہے اور ان کی جماعت چاہتی کہ ''ملک اور معیشت کی خاطر آگے بڑھا جائے۔''

پاکستان کے ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل 'ہم نیوز' کے ساتھ بات چیت میں انہوں نے کہا کہ ''ملک اور معیشت کی خاطر ہم سبھی کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔''

ان کا کہنا تھا، ''ہمارا کسی کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں ہے، ہم پہلے دن سے کہہ رہے ہیں کہ سیزفائر ہونی چاہیے، آگے بڑھیں، ملک، جمہوریت اور معیشت کی خاطر آگے بڑھیں۔''

ص ز / ج ا (نیوز ایجنسیاں)

آزاد ممبران اسمبلی کیا حکمت عملی بنائیں گے؟

04:44

This browser does not support the video element.

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں