1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مسیحی برادری پر حملے، مددگار بھی مسلمان

18 اگست 2023

پاکستانی علاقے جڑانوالہ میں توہین مذہب کے الزام پر مسلمان بلوائیوں نے متعدد مسیحی عمارتوں پر حملے کیے مگر اس دوران کئی مسیحیوں کو پناہ دینے والے بھی مسلمان تھے۔

Pakistan | Angriffe auf Kirchen in Jaranwala
تصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پاکستانی علاقے جڑنوالہ میں توہین مذہب کے الزام کے بعد مسیحی گرجا گھروں اور دیگر عمارات پر شدت پسند مسلمانوں نے حملے شروع کیے تو درجنوں مسیحیوں کو اپنے گھربار چھوڑنا پڑ گئے۔

پادری جاوید بھٹی کے مطابق وہ سوئے ہوئے تھے، جب مسجد کے اسپیکر سے توہین مذہب کے الزام کے تحت مسیحیوں کے خلاف اجتجاج کا کہا گیا۔

تیری امت نے مرے گھر کی اہانت کی ہے

جڑانوالہ کا واقعہ: مسیحی برادری خوف کا شکار

انہوں نے بتایا کہ انہوں نے خطرہ بھانپا اور فوری طور پر اپنے اہل خانہ کو لے کر گھر سے باہر نکل آئے جہاں پہلے ہی کئی مسیحی تنگ گلیوں کے ذریعے فرار میں مصروف تھے۔ پادری بھٹی کے مطابق ان میں سے کئی افراد ننگے پیر دوڑ رہے تھے اور کچھ رکشوں میں بیٹھے کر فرار ہو رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت ہر جانب ایک افراتفری تھی۔

اے ایف پی کے مطابق اس کے بعد سینکڑوں مسلم بلوائی مسیحی گھروں اور چرچوں پر چڑھ دوڑے اور انہیں آگ لگا دی۔

سسٹر نائلہ بھٹی کے مطابق، ''بچے چیخ رہے تھے۔ دوڑو دوڑو، مولوی آ رہے ہیں۔ وہ ہم پر حملہ کریں گے۔‘‘

توہین مذہب پاکستان میں ایکانتہائی حساس معاملہ ہے جب کہ کئی مواقع پر کئی شدت پسند گروپ توہین مذہب اور توہین رسالت کے الزامات پر لوگوں کو سرعام قتل کر چکے ہیں۔

مسیحی پاکستانی آبادی کا قریب دو فیصد ہیں، جب کہ جڑانوالہ میں قریب پانچ ہزار مسیحی رہائش پزیر ہیں، جن میں سے زیادہ تر انتہائی کم تنخواہوں میں گٹروں اور نالوں کی صفائی کا کام کرتے ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کا تاہم کہنا ہے کہ جب کشیدگی اور افراتفری بڑھی تو کئی مسلمان سڑکوں پر نکلے تاکہ اپنے مسیحیوں ہم سایوں کو بچا سکیں اور انہیں اپنے ہاں پناہ دیں۔

پادری  بھٹی کے مطابق، ''مشتعل ہجوم باہر سے آیا مگر مقامی مسلمانوں نے ہماری مدد کی اور ہمیں بچانے کی کوشش کی۔‘‘

پاکستان: توہین مذہب کے الزام میں کئی چرچ نذرِ آتش

03:01

This browser does not support the video element.

جاوید بھٹی کی گلی کے رہائشی طارق رسول نے بتایا کہ مشتعل ہجوم کو آتا دیکھ کر مقامی مسلمانوں نے فوری طور پر مسیحیوں کے گھروں کے دروازوں پر قرآنی آیات چپکائیں تاکہ تشدد نہ پھیلے۔

58 سالہ مسلمان طارق رسول کے مطابق، ''دو خواتین دوڑ رہی تھیں۔ میں نے اپنے گھر کا دورازہ کھولا اور انہیں اندر آنے دیا۔ وہ ڈری ہوئیں تھیں،میں نے انہیں حوصلہ دیا۔ ‘‘

بہت بڑی تعداد میں مشتعل ہجوم اس علاقے میں موجود رہا اور رات تک اس علاقے میں چار گرجا گھر، مسیحیوں کے درجنوں مکانات اور دکانیں جلا دیں گئی اور لوٹ مار کی گئی۔

ع ت، ک م (اے ایف پی)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں